قوموں پر بعد از جنگ نازل ہونے والے مصائب: قرآن و حدیث اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں
تعارف
جنگ، انسانی تاریخ کا ایک ایسا المناک باب ہے جو نہ صرف جانی و مالی نقصانات کا باعث بنتا ہے بلکہ قوموں کو طویل المدتی مصائب میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔ جنگ کے بعد قومیں معاشی تباہی، سماجی انتشار، نفسیاتی مسائل، اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتی ہیں۔ لوگ اپنے گھر بار، رشتے دار، اور مال و دولت کھو دیتے ہیں، جبکہ بنیادی ضروریات جیسے خوراک، پانی، اور طبی امداد کی کمی ان کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔ اس مضمون میں، ہم ان مصائب کو قرآن و حدیث اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں جانچنے کی کوشش کریں گے اور ان سے نمٹنے کے لیے راہنمائی پیش کریں گے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں جنگ کے بعد کے مصائب
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو جنگ و امن دونوں حالات میں انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن مجید میں جنگ کے بارے میں کئی آیات موجود ہیں جو جنگ کے دوران اور بعد میں اصول و ضوابط فراہم کرتی ہیں۔
قرآنی آیات
سورہ البقرہ کی آیت 190 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اور اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، لیکن زیادتی نہ کرو، کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔” (البقرہ: 190)
یہ آیت جنگ کے دوران حدود کی پابندی اور زیادتی سے بچنے کی تلقین کرتی ہے۔ اگر جنگ کے دوران ان حدود کا خیال رکھا جائے تو جنگ کے بعد کے مصائب جیسے نفرت، انتقام، اور سماجی انتشار کو کم کیا جا سکتا ہے۔
احادیث مبارکہ
حدیث میں بھی جنگ کے قواعد و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا:
“نہ تو بچوں کو قتل کرو، نہ عورتوں کو، نہ بوڑھوں کو، اور نہ ہی درختوں کو کاٹو۔” (موطا امام مالک)
یہ ہدایات جنگ کے دوران غیر ضروری تباہی سے بچنے اور انسانی حقوق کے تحفظ پر زور دیتی ہیں۔ اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو جنگ کے بعد معاشی اور سماجی بحالی آسان ہو سکتی ہے، کیونکہ بنیادی ڈھانچے اور انسانی وسائل کو غیر ضروری نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی قوانین اور جنگ کے بعد کے مصائب
جنگ کے بعد کے مصائب سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی قوانین بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان قوانین کا مقصد جنگ کے دوران اور بعد میں شہریوں اور متاثرین کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔
جنیوا کنونشنز
جنیوا کنونشنز، جو 1949 میں منظور کیے گئے، جنگ کے قیدیوں، زخمیوں، اور شہریوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ چوتھا جنیوا کنونشن خاص طور پر شہریوں کے حقوق سے متعلق ہے اور اس میں جنگ کے بعد کی صورتحال میں شہریوں کو خوراک، رہائش، اور طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ان قوانین کا نفاذ جنگ کے بعد کی مشکلات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کا کردار
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جنگ کے بعد امن و امان کی بحالی کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی امن فوج (Peacekeeping Forces) جنگ زدہ علاقوں میں تعینات کی جاتی ہے تاکہ شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور بحالی کے عمل کو تیز کیا جائے۔ مثال کے طور پر، اقوام متحدہ نے کوسوو اور جنوبی سوڈان جیسے علاقوں میں امن مشن کے ذریعے جنگ کے بعد کے مصائب کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔
نتیجہ
جنگ کے بعد کے مصائب کو کم کرنے کے لیے قرآن و حدیث اور بین الاقوامی قوانین دونوں ہی اہم راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث انسانیت کے تحفظ اور حدود کی پابندی پر زور دیتے ہیں، جبکہ بین الاقوامی قوانین شہریوں کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ اگر قومیں ان اصولوں پر عمل پیرا ہوں تو جنگ کے بعد معاشی، سماجی، اور نفسیاتی بحالی ممکن ہو سکتی ہے اور انسانیت کو بہتر مستقبل کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔