قانون مفرد اعضا اور طب یونانی کے عین مطابق
طب کا پہلا قاعدہ بمع مستند طبی مجربات
انتساب
میں اپنی اس علمی وفنی کاوش کو جو اس مقصد کے لیے کی گئی ہے کہ صحیح علم طب زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے، اپنے دادا استاد مجد د طب حکیم انقلاب ڈاکٹر دوست محمد صابر ملتانی اڑانے جن کی تمام زندگی علم طب کو خس و خاشاک سے پاک کرنے اور اسے دوسرے اطبائے کرام تک پہنچانے میں صرف ہوئی ان کے نام اور اُس طب کے طالب علم آغا محمد نقی کے نام معنون کرتا ہوں جس کو لاہور کے ایک طبیب نے اپنے بخل کی وجہ سے یہ کہتے ہوئے اپنے مطلب سے نکال دیا تھا کہ ” یہاں سے دفع ہو جاؤ اور آئندہ کبھی میرے مطب میں نہ آنا طب سیکھنا کوئی آسان کام نہیں تم کبھی طب نہیں سیکھ سکتے ۔ یہ طب کے طالب علم عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ طبیہ کالج میں تھر ڈائیر کے طالب علم ہیں، میری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس طالب علم کو آنے والے دور میں علم طب کے آسمان کا چمکتا ہوا ستارہ بنا دے۔ آمین ثم آمین
حکیم شہباز حسین اعوان کمالی سوہدروی
پیش لفظ
میرے دل میں عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ طب کا کوئی آسان سا قاعدہ لکھوں ، جس کو پڑھ کر طب کے طالب علم اور شوقین حضرات کافی حد تک علم طب کو سمجھ سکیں۔ اس سلسلہ میں ایک دو بار برادرم حکیم عروہ وحید سلیمانی صاحب اور برادرم ڈاکٹر سلطان سکندر صاحب سے بھی بات ہوئی اور ہر وہ شخصیات نے کہا کہ ایسا قاعدہ لکھنا چاہیے۔ ۶ دسمبر ۲۰۱۶ء کو کمالی مرکز نزد فیضان مدینہ رحمان سٹی فیز ۲ بالمقابل کالج روڈ رچنا ٹاؤن جی روڈ شاہدرہ میں جہاں میں ہر ماہ کے پہلے اتوار کو مریض دیکھتا ہوں، ایک طالب علم آغا محمد نقی مجھے ملنے کے لیے تشریف لائے ، اتفاق سے اس روز برادرم ڈاکٹر سلطان سکندر صاحب بھی نکیال سیکٹر آزاد کشمیر سے مجھے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے، مریضوں سے فارغ ہونے کے بعد میری ان حضرات سے ملاقات کی نشست ہوئی تو آغا محمد تقی صاحب نے یہ سوال کیا کہ سر آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں علم طب سیکھوں یا چھوڑ دوں کیونکہ لاہور شہر میں قانون مفرد اعضاء کے ایک طبیب جو کہ خود کو حکیم انقلاب صابر ملتانی داراللہ کا قریبی رشتہ دار بیان کرتے ہیں میں ان کے پاس تحصیل علم کے لیے جاتا تھا، ایک دن کوئی سوال پوچھنے پر وہ برہم ہو گئے اور مجھے کہنے گئے کہ علم طب سیکھنا کوئی آسان کام نہیں میں نے خود ۶۲ سال کی عمر میں تحریک تحلیل تسکین کو مکمل سمجھا ہے میں تمہیں یہ کیسے سمجھا دوں یہاں سے دفع ہو جا ہو جاؤ اور آئندہ کبھیمیرے مطلب پر نہ آنا تم کبھی علم طب نہیں سیکھ سکتے ۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے آئندہ کے لیے مجھے اپنے پاس آنے سے قطعا منع کر دیا ہے میں اور ڈاکٹر سلطان سکندر صاحب یہ واقعہ سن کر حیران ہو گئے کہ ایسے لوگ بھی جہانِ طب میں موجود ہیں میں نے اس طالب علم سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں عالم دین ہوں اور طبیہ کالج میں تھر ڈائیر کا طالب علم ہوں یہ بات سن کر مجھے اور زیادہ حیرت ہوئی اور ان طبیب صاحب کی ذہنی حالت پر افسوس ہوا۔
بہر حال میں نے اس طالب علم کو کہا کہ علم کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کی میراث ہوتا ہے جو بھی محنت اور کوشش کرے اس کو سیکھ سکتا ہے، آپ تو طبیہ کالج میں تھر ڈائیر کے طالب علم ہیں، آپ اس کو کیوں نہیں سیکھ سکتے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل طلب سے موجودہ دور میں بہت کم طبیب آگاہ ہیں اور عام لوگ تو ظاہری بات ہے صرف نسخہ جات کی حد تک ہی شوق رکھتے ہیں، اگر آپ طب سیکھنا چاہیں تو میرے پاس آجایا کریں میں جو خدمت کر سکا کروں گا۔ چونکہ اتفاق سے اس روز میرے عزیز دوست ڈاکٹر سلطان سکندر صاحب بھی آزاد کشمیر سے آئے ہوئے تھے ، انہوں نے بھی اس واقعہ کو سن کر اصرار کیا کہ آپ جلد از جلد قاعده طب لکھیں تا کہ ایسے طالب علم جو کہ علم طب کو سیکھنا چاہتےہیں لیکن مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں ان کو رہنمائی مل سکے۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر میں نے اپنی تمام مصروفیات کو ترک کر کے فوری طور پریہ طب کا پہلا قاعدہ لکھا ہے۔ مجھے امید ہے کہ قارئین طب کو پسند آئے گا۔ یہ طب کا پہلا قاعدہ ابتدائی رہنمائی کے لیے ہے اس کو پڑھنے کے بعد دوسری طبی کتب کے مطالعہ سے ان شاء اللہ طالب علم اور شائقین طب، علم طب کو سیکھ سکیں گے اگر کسی طبیب کو بالخصوص نئے اطبائے کرام جو کہ نئے نئے طبیہ کالجز سے فارغالتحصیل ہوتے ہیں اور ان کو بے شمار مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ایسے اطبائے کرام اگر رہنمائی کے لیے میرے پاس آنا چاہیں تو ضرور آئیں میں ان شاء اللہ ان کی ہر ممکن رہنمائی کروں گا ایسے طبیب جو کہ طب کے مزاجوں کو سمجھنا چاہیں وہ بھی اس سے مستفید ہوں گے، میں نے اس طب کا پہلا قاعدہ کو اغلاط سے پاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے مگر پھر بھی اگر کوئی غلطی قارئین کو نظر آئے تو آگاہ کریں تا کہ آئندہایڈیشن میں اس کی اصلاح کر دی جائے۔
حکیم شہباز حسین اعوان کمالی سوہدروی