Friday, July 18, 2025
Home قانون مفرد اعضاء  “تحقیقات سوزش و اورام” کے کلیدی مضامین اور نظریات

 “تحقیقات سوزش و اورام” کے کلیدی مضامین اور نظریات

by admin

حکیم دوست محمد صابر ملتانی کی کتاب

“تحقیقات سوزش و اورام” کے کلیدی مضامین اور نظریات

از:۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

تعارف: حکیم صابر ملتانی اور تجدیدِ طب کا منصوبہ

حکیم دوست محمد صابر ملتانی، جنہیں ان کے پیروکار “حکیم انقلاب” اور “مجدد طب” جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں، بیسویں صدی کے ایک ایسے مفکر اور معالج تھے جنہوں نے طب یونانی کی دنیا میں ایک نئے نظریاتی باب کا آغاز کیا 1۔ ان کا علمی منصوبہ کسی نئی طب کی ایجاد نہیں تھا، بلکہ وہ خود کو طب یونانی کی “تجدید” کرنے والا اور اسے جدید سائنسی دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے ایک آسان اور قابل فہم شکل میں پیش کرنے والا سمجھتے تھے 2۔ ان کا مقصد طب قدیم کے بنیادی اصولوں کو ایک نئے اور منظم نظریاتی ڈھانچے میں پیش کرنا تھا تاکہ اس کی

علمی صداقت اور افادیت کو دوبارہ ثابت کیا جا سکے۔

زیرِ تبصرہ کتاب “تحقیقات سوزش و اورام” ان کے اسی تجدیدی منصوبے کا ایک کلیدی ستون ہے۔ یہ کتاب محض سوزش اور اورام پر ایک طبی رسالہ نہیں، بلکہ ایک نظریاتی منشور ہے جس میں مصنف نے اپنے مرکزی فلسفہ، یعنی “نظریہ مفرد اعضاء”، کی بنیاد پر علم الامراض (Pathology) کی ازسرِنو تشریح کی ہے۔ کتاب کے آغاز ہی میں حکیم صابر ملتانی ایک چیلنج پیش کرتے ہیں کہ گزشتہ آٹھ سو سال کی طبی تاریخ میں، بشمول طب یونانی، ایلوپیتھی، اور دیگر جدید نظاموں کے، سوزش اور اورام کی ماہیت پر ایسی جامع اور تحقیقی کتاب نہیں لکھی گئی، اور اس دعوے کو ثابت کرنے والے کے لیے پانچ ہزار روپے انعام کا اعلان کرتے ہیں 1۔ یہ پراعتماد اور قدرے جارحانہ اسلوب پوری کتاب میں برقرار رہتا ہے اور اس سے ان کے علمی منصوبے کی اہمیت اور سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا بنیادی مقصد “فرنگی طب” (مغربی طب) کی “غلط فہمیوں” اور “فاش غلطیوں” کو بے نقاب کرنا اور علاج و معالجہ میں قانون فطرت کی بالادستی کو دوبارہ قائم کرنا ہے 1۔

یہ تبصرہ کتاب “تحقیقات سوزش و اورام” کے متن 1 اور دیگر دستیاب تحقیقی مواد 2 کی روشنی میں کتاب کے بنیادی فلسفے، سوزش و اورام سے متعلق اس کے منفرد نظریات، دیگر طبی نظاموں پر اس کی تنقید، اور تشخیص و علاج کے عملی ڈھانچے کا ایک جامع اور تفصیلی جائزہ پیش کرے گا۔

حکیم صابر ملتانی کا یہ تجدیدی منصوبہ صرف ایک سائنسی کاوش نہیں بلکہ اس کے پسِ پردہ ایک گہری نفسیاتی اور تہذیبی جہت بھی کارفرما ہے۔ وہ مغربی طب کے غلبے کو ایک علمی چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ ان کا بار بار “فرنگی طب” پر تنقید کرنا اور دنیا بھر کے اطباء کو چیلنج دینا دراصل روایتی طبی نظام پر اعتماد بحال کرنے اور اس علمی ورثے کو فکری طور پر دوبارہ زندہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ وہ خود اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کی جدوجہد کا ایک مقصد مقامی معالجین کے اندر پائے جانے والے “احساس کمتری” کو دور کرنا ہے 1۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو ان کی “تجدید” کا عمل طب کو جدید بنانے کے ساتھ ساتھ ایک تہذیبی اور فکری خود مختاری کے حصول کا منصوبہ بھی تھا، جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ مقامی علمی نظام نہ صرف اپنی جگہ مستند ہیں بلکہ بعض پہلوؤں میں مغربی نظام سے

برتر بھی ہیں۔

بنیادی فلسفہ: نظریہ مفرد اعضاء کی تشریح

حکیم صابر ملتانی کے تمام طبی افکار کی بنیاد ان کا “نظریہ مفرد اعضاء” (Theory of Single Organs) ہے۔ یہ نظریہ انسانی جسم، صحت اور مرض کو سمجھنے کے لیے ایک مکمل اور مربوط فریم ورک فراہم کرتا ہے۔

حیات کی تکون: تین بنیادی نظام (اعضائے رئیسہ)

اس نظریے کے مطابق، انسانی جسم اور اس کے افعال تین بنیادی یا “مفرد اعضاء” کے نظاموں کے تحت کام کرتے ہیں، جن کے مراکز تین اعضائے رئیسہ ہیں:

اعصاب (Nerves): اس نظام کا مرکز دماغ ہے۔ اس کا مزاج سرد تر اور اس سے پیدا ہونے والی خلط بلغم ہے۔ اس نظام کا بنیادی کام احساس پیدا کرنا اور جسم میں رطوبات اور تری قائم رکھنا ہے 1۔

عضلات (Muscles): اس نظام کا مرکز قلب (دل) ہے۔ اس کا مزاج خشک اور اس سے متعلقہ خلط سودا ہے۔ اس کا بنیادی کام جسم میں حرکت اور قوت پیدا کرنا ہے 1۔

غدد (Glands): اس نظام کا مرکز جگر ہے۔ اس کا مزاج گرم اور اس سے پیدا ہونے والی خلط صفراء ہے۔ اس کا کام غذائیت فراہم کرنا، میٹابولزم کو کنٹرول کرنا اور حرارت پیدا کرنا ہے 1۔

یہ تقسیم دراصل طب یونانی کے چار اخلاط اور چار کیفیات کے کلاسیکی نظریے کی ایک انقلابی تشکیلِ نو ہے۔ حکیم صابر ملتانی نے چار کی بجائے تین بنیادی نظاموں پر توجہ مرکوز کرکے تشخیص اور علاج کو ایک نئے اور سادہ اصول کے تحت منظم کیا ہے 1۔

صحت و مرض کی حرکیات: تحریک، تحلیل، اور تسکین

اس نظریے کے مطابق صحت ان تینوں نظاموں کے درمیان توازن (اعتدال) کا نام ہے۔ مرض کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب ان میں سے کوئی ایک نظام غیر طبعی طور پر فعال ہو جاتا ہے۔ اس عدم توازن کی حرکیات (dynamics) تین مراحل پر مشتمل ہے:

تحریک (Stimulation/Hyperactivity): مرض کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب تین میں سے کوئی ایک نظام کسی اندرونی یا بیرونی سبب کی وجہ سے اپنی طبعی حالت سے زیادہ فعال ہو جاتا ہے۔

تحلیل (Lysis/Breakdown): جس نظام میں تحریک ہوتی ہے، وہ اپنے سے اگلے نظام پر کام کا دباؤ بڑھا دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ دوسرا نظام کمزور پڑنا یا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

تسکین (Sedation/Hypoactivity): پہلے دو نظاموں کی غیر طبعی حالت کی وجہ سے تیسرا نظام سست اور غیر فعال ہو جاتا ہے اور اس کے افعال میں کمی واقع ہو جاتی ہے 1۔

صحت اور مرض کی یہ چکر دار (cyclical) اور حرکیاتی تشریح حکیم صابر ملتانی کے علم الامراض کی بنیاد ہے اور یہ انہیں روایتی نظریات سے ممتاز کرتی ہے۔

مذہبی و روحانی بنیاد: مرض، قلب اور قانونِ فطرت

حکیم صابر ملتانی اپنے طبی فلسفے کی بنیاد ایک گہرے مذہبی اور روحانی تصور پر رکھتے ہیں۔ وہ صحت و مرض کو “قانونِ فطرت” کے تابع قرار دیتے ہیں، جو ان کے نزدیک “رضائے خداوندی” اور “منشائے الٰہی” کا دوسرا نام ہے 1۔ ان کے مطابق، مرض بذات خود کوئی وجود نہیں رکھتا، بلکہ یہ قانونِ فطرت کی “خلاف ورزی” کا نتیجہ ہے، بالکل گناہ کی طرح۔ صحت اس قانون کی پیروی کا نام ہے 1۔

وہ اپنے نظریے کی دلیل کے لیے قرآن حکیم کی آیت “فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ” (ان کے دلوں میں بیماری ہے) کا حوالہ دیتے ہیں اور یہ استدلال کرتے ہیں کہ ہر بیماری، چاہے اس کا ظاہری مقام کچھ بھی ہو، اس کا آغاز قلب (دل) سے ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک قلب صرف خون کا مرکز نہیں بلکہ جسم، نفس اور روح کا بھی مرکز ہے، اور کسی بھی قسم کا عدم توازن سب سے پہلے اسی پر اثر انداز ہوتا ہے 1۔ ان کی تحقیق کے مطابق، دل کی ساخت میں تینوں بنیادی نسیج (عضلاتی، غدی، اعصابی) شامل ہیں، جو اسے تمام جسمانی نظاموں کے اتصال کا مرکز بناتا ہے اور اسی لیے ہر بیماری کا ابتدائی اثر یہیں ظاہر ہوتا ہے 1۔

حکیم صابر ملتانی کا نظریہ مفرد اعضاء طب یونانی کی محض ایک سادہ تشریح نہیں، بلکہ یہ ایک بنیادی تبدیلی ہے جو طب کو کیفیاتی (qualitative) ماڈل سے ہٹا کر ایک میکانیکی-فعلیاتی (mechanistic-functional) ماڈل کی طرف لے جاتی ہے۔ کلاسیکی طب کی بنیاد چار اخلاط اور ان کی کیفیات پر ہے، جہاں مرض کو “سوئے مزاج” یعنی مزاج کے بگاڑ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، حکیم صابر ملتانی اخلاط (بلغم، صفراء، سودا) کو اعضاء (اعصاب، غدد، عضلات) کے افعال کے تابع کر دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک، بلغم کی زیادتی بذات خود مرض نہیں، بلکہ یہ اعصابی نظام میں “تحریک” کی ایک علامت ہے 1۔ ان کا تشخیصی ماڈل—تحریک، تحلیل، تسکین— کسی خلط کی کیفیت بیان نہیں کرتا، بلکہ یہ بتاتا ہے کہ اعضاء کیا

کر رہے ہیں (یعنی زیادہ کام، ٹوٹ پھوٹ کا شکار، یا سست روی)۔ یہ تبدیلی طب یونانی کو جدید فزیالوجی کے قریب لے آتی ہے جو اعضاء کے افعال اور ان کی خرابی پر توجہ دیتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام کو ایک سائنسی تجدید قرار دیتے ہیں 4۔

علم الامراض پر ایک نیا زاویہ: سوزش، اورام، اور جراثیم

کتاب کا مرکزی موضوع علم الامراض ہے، جس میں حکیم صابر ملتانی سوزش، اورام اور جراثیم کے مروجہ تصورات کو چیلنج کرتے ہوئے ایک نیا اور انقلابی نظریہ پیش کرتے ہیں۔

سوزش کی نئی تعریف: مغربی ماڈل سے آگے

بنیادی فرق: مصنف کا سب سے پہلا اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ “فرنگی طب” نے غلطی سے سوزش (Sozish) اور ورم (Waram) کو ایک ہی سمجھ لیا ہے۔ وہ سوزش کی تعریف “Irritation” کے مترادف کرتے ہیں، یعنی کسی نسیج میں جلن، خراش یا خارش کی ابتدائی کیفیت 1۔ جبکہ ورم (سوجن) ایک اگلا اور ترقی یافتہ مرحلہ ہے جو ہر سوزش کے بعد لازمی طور پر پیدا نہیں ہوتا 1۔

سوزش کا میکانزم: سوزش کا آغاز کسی ایک نسیج میں تحریک سے ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں انقباض (constriction) پیدا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ انقباض ہمیشہ اضافی سردی کی وجہ سے ہوتا ہے، جس کے جواب میں جسم دفاعی طور پر اس حصے کی طرف خون اور حرارت کا بہاؤ بڑھا دیتا ہے 1۔

سوزش کی پانچ علامات: وہ سوزش کی پانچ بنیادی علامات بیان کرتے ہیں: ۱) جلن (درد)، ۲) گرمی، ۳) سرخی، ۴) رطوبات کا اخراج، اور ۵) تغیرِ افعال (فنکشن میں تبدیلی) 1۔ وہ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ ان علامات کا اظہار اس بات پر منحصر ہے کہ تین بنیادی نسیجوں (اعصابی، غدی، یا عضلاتی) میں سے کون سا متاثر ہوا ہے۔

اورام کی اصل حقیقت: درجہ بندی اور اسباب

ورم بطور نتیجہ: ورم، سوزش کا ایک ممکنہ نتیجہ ہے، لازمی نہیں۔ یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سوزش زدہ اور سکڑے ہوئے مقام پر مادہ (خون یا رطوبات) جمع ہو جائے 1۔

اورام کا سرد آغاز: کتاب کا ایک مرکزی اور غیر روایتی نظریہ یہ ہے کہ تمام اورام، حتیٰ کہ وہ بھی جو چھونے میں گرم محسوس ہوں (“ورم حار”)، اپنی اصل میں سردی سے پیدا ہوتے ہیں۔ گرمی تو جسم کا ایک ثانوی اور دفاعی ردِعمل ہے جو سردی سے پیدا ہونے والے انقباض کو تحلیل کرنے کے لیے پیدا ہوتی ہے 1۔ اس نظریے کے علاج پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیونکہ یہ سردی پیدا کرنے والی دواؤں اور تدابیر کے استعمال کو یکسر مسترد کر دیتا ہے۔

اورام کی درجہ بندی: مصنف طب یونانی کی روایات کے مطابق مختلف اورام، پھوڑوں اور رسولیوں کی درجہ بندی (مثلاً فلمفونی، حمرہ، خنازیر) پیش کرتے ہیں، لیکن ان کے اسباب کی تشریح اپنے سہ عضوی نظریے کی روشنی میں کرتے ہیں 1۔ مثلاً، ایک سرخ اور گرم ورم محض “گرم” خلط کی زیادتی کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ عضلاتی یا غدی نظام کے عدم توازن کا اظہار ہے۔

نظریہ جراثیم کا ازسرِنو جائزہ

جراثیم بطور ثانوی عامل: حکیم صابر ملتانی کا موقف ہے کہ جراثیم بیماری کا بنیادی سبب نہیں ہیں۔ وہ موقع پرست ہیں جو صرف پہلے سے موجود عفونت (Putrefaction) کی حالت میں ہی پنپ سکتے ہیں، اور یہ عفونت رکی ہوئی رطوبات اور نسیج کے غیر متوازن افعال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے 1۔

جسم کا قدرتی دفاع: سوزش کا ابتدائی مرحلہ (تحریک سے پیدا ہونے والی خشکی اور حرارت) درحقیقت قاتلِ جراثیم (germicidal) ہوتا ہے۔ جراثیم اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جب جسم کا دفاعی ردِعمل رطوبات کے جمع ہونے کا باعث بنتا ہے 1۔

جراثیم کش ادویات کی بے اثری: بیرونی جراثیم کش ادویات (دافع تعفن ادویات) کا استعمال ایک ناقص حکمتِ عملی ہے کیونکہ یہ نقصان دہ اور مفید، دونوں قسم کے جراثیم کو ہلاک کر دیتی ہے اور اس بنیادی خرابی کو دور نہیں کرتی جس میں جراثیم نشوونما پاتے ہیں۔ حقیقی علاج عضو کے قدرتی افعال کو بحال کرنا ہے، جس سے عفونت اور نتیجتاً جراثیم خودبخود ختم ہو جاتے ہیں 1۔

جراثیم اور تین نظام: وہ مغربی سائنس کی دریافت کردہ جراثیم کی تین بنیادی اقسام کو اپنے سہ عضوی نظام سے منسلک کرتے ہیں:

Bacilli (ڈنڈا نما): ان کا تعلق اعصابی نظام اور بلغمی امراض سے ہے۔

Cocci (گیند نما): ان کا تعلق غدی نظام اور صفراوی امراض سے ہے۔

Spirilla (گھونگھا نما): ان کا تعلق عضلاتی نظام اور سوداوی امراض سے ہے 1۔

یہاں حکیم صابر ملتانی کا نظریہ ایک متحدہ اور مربوط پیتھالوجی پیش کرتا ہے جو ایک ہی نقطہ آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ یہ مرض کا ایک “ڈومینو ایفیکٹ” ماڈل ہے: اس کی ابتدا “قانونِ فطرت” کی خلاف ورزی سے ہوتی ہے 1، جو کسی ایک نظام میں

تحریک کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے 1۔ یہ تحریک اگر برقرار رہے تو

سوزش بن جاتی ہے 1۔ غیر حل شدہ سوزش رطوبات کے جمع ہونے سے

عفونت پیدا کرتی ہے 1، جو

جراثیم کی نشوونما کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے 1۔ آخرکار، سوزش اور جمع شدہ مادے کا امتزاج

ورم کی شکل اختیار کر لیتا ہے 1۔ یہ ایک منطقی اور مربوط سلسلہ ہے جس میں جراثیم کو بیماری کے بنیادی سبب کے درجے سے گرا کر ایک ثانوی علامت بنا دیا گیا ہے، اور اصل مرض ابتدائی نظام کی خرابی کو قرار دیا گیا ہے۔

فرنگی طب پر تنقید: ایک تقابلی جائزہ

کتاب کا ایک بڑا حصہ فرنگی طب پر تنقید کے لیے وقف ہے، جس میں مصنف اس کے نظریاتی اور عملی پہلوؤں کو چیلنج کرتے ہیں۔

علمیاتی خامیاں: کل کو دیکھنے میں ناکامی

مصنف مغربی طب پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ جزئیات پر توجہ مرکوز کرتی ہے اور کل کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ یعنی وہ صرف متاثرہ عضو (مرکب اعضاء) کو دیکھتی ہے اور اس بنیادی نظام (مفرد اعضاء) کی خرابی کو نہیں سمجھتی جو اصل مرض کا سبب ہے 1۔ وہ اس کے خلیے (کیسہ) اور عضو کے افعال میں فرق نہ کرنے کی صلاحیت پر تنقید کرتے ہیں، جس سے علم الامراض کی غلط تفہیم پیدا ہوتی ہے 1۔ وہ بار بار مغربی طبی کتب میں “فاش غلطیاں” اور “جہالت” کی نشاندہی کرتے ہیں، خصوصاً سوزش کے میکانزم اور امراض کی درجہ بندی کے حوالے سے 1۔

تشخیصی اور معالجاتی مغالطے

بخار کم کرنے والی ادویات کا غلط استعمال: وہ استدلال کرتے ہیں کہ بخار ایک قدرتی اور ضروری مدافعتی عمل ہے۔ اسے ادویات کے ذریعے دبانا جسم کے دفاعی نظام کو کمزور کرنے کے مترادف ایک خطرناک عمل ہے 1۔

علامات دبانے والے علاج کا خطرہ: وہ درد کش اور سکون آور ادویات (منشیات) کے استعمال کی مذمت کرتے ہیں جو صرف علامات کو وقتی طور پر چھپا دیتی ہیں لیکن اصل سبب کو دور نہیں کرتیں۔ اس سے بیماری مزمن اور زیادہ سنگین ہو جاتی ہے 1۔

ناقص جراحی مداخلتیں: وہ ٹانسلز نکلوانے جیسی سرجری پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے غدہ تو نکل جاتا ہے لیکن اس کی سوزش کا باعث بننے والا عضلاتی یا اعصابی عدم توازن برقرار رہتا ہے، جو بعد میں دائمی نزلہ جیسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے 1۔

اورام کی غلط فہمی: وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ مغربی طب کئی رطوبتی سوجنوں (رفوع) کو غلطی سے سوزشی اورام تشخیص کرتی ہے، جس کا نتیجہ خطرناک حد تک غلط علاج کی صورت میں نکلتا ہے 1۔

جدول ۱: علم الامراض کا تقابلی جائزہ

خصوصیت (Feature)نظریہ مفرد اعضاء (Sabir Multani)فرنگی طب (Western Medicine)طب یونانی (Classical Unani)
مرض کا آغاز (Origin of Disease)ایک مفرد عضو (Nerve, Muscle, Gland) میں تحریک (Stimulation)خلیاتی فساد (Cellular pathology), جراثیم (Germs), جینیات (Genetics)اخلاط (Humors) میں سوئے مزاج (Dystemperament)
جراثیم کا کردار (Role of Germs)ثانوی، موقع پرست جو عفونت میں پنپتے ہیں (Secondary, opportunistic)بنیادی سبب (Primary cause)ایک ممکنہ سبب، لیکن بنیادی توجہ خلطی فساد پر
بخار کی حقیقت (Nature of Fever)مفید مدافعتی ردعمل، حرارت کا بڑھنا (Beneficial defensive reaction)پیتھولوجیکل علامت جسے کم کرنا ضروری ہے (Pathological symptom to be suppressed)غیر طبعی حرارت، خلطی تعفن کی علامت (Sign of abnormal heat/putrefaction)
علاج کا ہدف (Goal of Treatment)اعضاء کے افعال میں توازن بحال کرنا (Restore organ function balance)سبب کو ختم کرنا (جراثیم مارنا، رسولی نکالنا) اور علامات کو دبانااخلاط کا اعتدال اور مزاج کی اصلاح (Balance humors, correct temperament)

عملی اطلاق: تشخیص اور اصولِ علاج

کتاب کا آخری حصہ نظریے کو عملی جامہ پہنانے پر مرکوز ہے، جس میں تشخیص اور علاج کے واضح اصول بیان کیے گئے ہیں۔

چھ نکاتی تشخیصی فریم ورک (چھ تحریکات)

ان کے عملی نظام کی بنیاد مرض کی چھ بنیادی حالتوں میں سے کسی ایک کی تشخیص پر ہے۔ یہ چھ حالتیں تین بنیادی نظاموں کے باہمی تعامل سے پیدا ہوتی ہیں اور ایک مکمل تشخیصی نقشہ فراہم کرتی ہیں:

اعصابی عضلاتی (Nervous-Muscular): سرد خشک۔ اعصاب میں تحریک، عضلات میں تحلیل۔

عضلاتی غدی (Muscular-Glandular): خشک گرم۔ عضلات میں تحریک، غدد میں تحلیل۔

غدی اعصابی (Glandular-Nervous): گرم تر۔ غدد میں تحریک، اعصاب میں تحلیل۔

اعصابی غدی (Nervous-Glandular): تر گرم۔ اعصاب میں تحریک، غدد میں تحلیل۔

غدی عضلاتی (Glandular-Muscular): گرم خشک۔ غدد میں تحریک، عضلات میں تحلیل۔

عضلاتی اعصابی (Muscular-Nervous): خشک سرد۔ عضلات میں تحریک، اعصاب میں تحلیل۔

کتاب میں ایک ایسا نظام بھی وضع کیا گیا ہے جس میں انسانی جسم کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ہر حصہ ان چھ تحریکات میں سے کسی ایک سے مطابقت رکھتا ہے، جس سے علامات کے مقام کی بنیاد پر تشخیص ممکن ہو جاتی ہے 1۔

اصولِ علاج: تحریک کے ذریعے شفا

علاج کا بنیادی اصول یہ ہے کہ تسکین زدہ عضو (مقام تسکین) میں تحریک پیدا کی جائے۔ یہ عمل تحریک-تحلیل-تسکین کے قدرتی چکر کو بحال کرتا ہے اور پورے نظام کو واپس توازن میں لے آتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک اعصابی عضلاتی مرض میں جہاں اعصاب میں تحریک اور عضلات میں تحلیل ہو، وہاں غدد تسکین کی حالت میں ہوں گے۔ اس کا علاج غدد کو تحریک دینے والی دواؤں اور غذاؤں سے کیا جائے گا تاکہ سست پڑے ہوئے نظام کو دوبارہ فعال کرکے توازن بحال کیا جا سکے 1۔ یہ علاج کا ایک انتہائی منظم اور قابلِ پیشگوئی طریقہ ہے۔

امراض کی مکمل نئی درجہ بندی

کتاب کا اختتام تمام معروف بیماریوں کی ایک جامع نئی درجہ بندی پر ہوتا ہے۔ ہر بیماری، سر درد سے لے کر جلدی امراض تک، کو تین بنیادی نظاموں کے تحت تقسیم کیا گیا ہے: دماغ و اعصاب کے امراض، قلب و عضلات کے امراض، اور جگر و غدد کے امراض 1۔ یہ ان کے پورے نظریے کا عملی خلاصہ ہے۔ اب “عرق النساء” (sciatica) محض ایک اعصابی درد نہیں، بلکہ یہ ایک مخصوص عدم توازن (مثلاً عضلاتی-اعصابی) کا اظہار ہے جس کا علاج ایک طے شدہ اصول کے تحت کیا جائے گا۔

حکیم صابر ملتانی نے ایک ایسا منطقی، اندرونی طور پر مربوط، اور ناقابلِ تردید نظام تشکیل دیا ہے جو ہر مظہر کو، خواہ وہ قرآن کی آیت ہو، جراثیم کی شکل ہو یا کوئی طبی علامت، اپنے سہ عضوی نظریے کی عینک سے دیکھتا ہے۔ اس نظام کے بنیادی اصول مسلمہ ہیں: تین اعضاء، تین حالتیں، اور چھ تعاملات۔ تمام شواہد کو ان اصولوں کے مطابق ڈھال لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر مریض کو دائیں طرف سر درد ہے، تو اس کی تشخیص یقینی طور پر “اعصابی عضلاتی” تحریک ہوگی کیونکہ جسم کا وہ حصہ اسی تحریک سے منسوب ہے 1۔ یہاں کسی متبادل تشریح کی گنجائش نہیں ہے۔ حتیٰ کہ بیرونی تنقید بھی اسی نظام میں جذب ہو جاتی ہے۔ جراثیم کا وجود ان کے نظریے کو چیلنج نہیں کرتا، بلکہ جراثیم کی اقسام کو ہی تین اعضاء کے ماڈل کے مطابق دوبارہ ترتیب دے دیا جاتا ہے 1۔ یہ چیز ایک طاقتور اور جامع تشریحی ڈھانچہ فراہم کرتی ہے جو اس کے پیروکاروں کے لیے بہت پرکشش ہے، لیکن ساتھ ہی یہ اس نظام کو بیرونی تنقید سے محفوظ بھی بنا دیتی ہے۔

خلاصہ و نتیجہ: “تحقیقات سوزش و اورام” کی اہمیت اور ورثہ

“تحقیقات سوزش و اورام” حکیم دوست محمد صابر ملتانی کے طبی فکر کا ایک بنیادی اور نمائندہ کام ہے۔ یہ کتاب ان کے “نظریہ مفرد اعضاء” کی تشکیل، علم الامراض کی انقلابی تشریح، مغربی طب پر منظم تنقید، اور تشخیص و علاج کے ایک جامع نظام کی بنیاد رکھتی ہے 1۔ یہ محض ایک کتاب نہیں، بلکہ طب یونانی کے اندر ایک منفرد مکتبہ فکر کی نظریاتی دستاویز ہے 3۔

اس نظریے کا پائیدار اثر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ معالجین کی ایک بڑی تعداد ان کے اصولوں کے مطابق علاج کرتی ہے اور مختلف تنظیموں اور کونسلوں کے ذریعے ان کے کام کو فروغ دے رہی ہے 2۔ ان کی تصانیف، بشمول یہ کتاب، آج بھی شائع ہوتی ہیں اور اس طریقہ کار کے پیروکاروں کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہیں 5۔

آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب ایک دوہری حیثیت رکھتی ہے۔ ایک طرف، یہ گہری فکری تخلیق اور منظم سوچ کا شاہکار ہے جو روایتی مغربی طب کا ایک طاقتور اور جامع متبادل پیش کرتی ہے۔ دوسری طرف، اس کا جارحانہ اور تنقیدی لہجہ اور ایک خود کفیل اور خود تصدیقی نظام کے طور پر اس کی تشکیل اسے جدید اور کلاسیکی، دونوں طرح کی طب سے الگ کرتی ہے۔ اس کا ورثہ بیک وقت اہم اور متنازعہ ہے، جو جنوبی ایشیا میں طبی کثرتیت (medical pluralism) کی جاری داستان میں ایک زندہ اور چیلنجنگ باب کی نمائندگی کرتا ہے۔

Related Articles

Leave a Comment

Contact Now

Get New Updates to Take Care Your Pet

Discover the art of creating a joyful and nurturing environment for your beloved pet.

Subscribe my Newsletter for new blog posts, tips & new photos. Let's stay updated!

Will be used in accordance with our  Privacy Policy

@2025 – All Right Reserved. Designed and Developed by Dilshad Bhai