
قربانی کے روحانی فوائد اورسبب نزول رحمت
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
تعارف: قربانی کی حقیقت، تاریخ اور اہمیت
قربانی دینِ اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ اور عظیم شعار ہے، جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کے گہرے تعلق اور اطاعت کا مظہر ہے۔ یہ محض ایک رسم یا جانور ذبح کرنے کا عمل نہیں، بلکہ ایک ایسی عبادت ہے جو اپنی گہرائیوں میں بے پناہ روحانی فوائد اور الٰہی رحمتوں کے نزول کا باعث بنتی ہے۔ قربانی کی جامع تعریف کے مطابق، یہ مخصوص شرائط کے ساتھ، ذی الحجہ کے مقررہ ایام (۱۰، ۱۱، ۱۲ ذی الحجہ) میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور قرب حاصل کرنے کی نیت سے حلال جانور کو ذبح کرنا ہے۔ یہ عمل عام صدقہ یا صرف گوشت کے حصول کے لیے جانور ذبح کرنے سے یکسر مختلف ہے، کیونکہ اس کی بنیاد خالصتاً اللہ کا تقرب ہے۔ یہ ہر اس بالغ مسلمان پر واجب ہے جو نصاب کا مالک ہو، یعنی مالی وسعت رکھتا ہو۔ اس عبادت کا بنیادی مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے، اور اللہ کا قرب خود اس کی بے پناہ رحمتوں، قبولیت اور برکات کے نزول کا ایک براہ راست ذریعہ ہے۔ جب کوئی بندہ خالص نیت سے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے اس پر کھول دیتا ہے۔
انبیاء کرام کی سنت: حضرت آدمؑ سے حضرت ابراہیمؑ تک
قربانی کی تاریخ انسانیت کی تاریخ جتنی ہی قدیم ہے۔ یہ عمل حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہی چلا آ رہا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ان کے دو بیٹوں، ہابیل اور قابیل، کے قصے میں بیان کیا گیا ہے، جہاں ہابیل کی مخلصانہ قربانی کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر فرمائی، اگرچہ اس کے طریقے اور صورت میں کچھ فرق رہا۔ اس تاریخی تسلسل میں، قربانی کی سب سے عظیم الشان صورت وہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال اطاعت اور قربانی کی یادگار ہے۔ ان کا اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کا ارادہ، ایمان اور تسلیم و رضا کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ واقعہ محض ایک تاریخی حکایت نہیں بلکہ الٰہی رحمت کے نزول کا ایک بنیادی مظہر ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی محبت اور اطاعت کا بے مثال نمونہ پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ میں جنت سے ایک عظیم دنبہ بھیج کر اپنی بے پناہ رحمت کا مظاہرہ فرمایا۔ یہ فدیہ کا عمل اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور اپنی رحمت سے انہیں آزمائشوں سے نکالتا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قربانی، جب خالص نیت اور مکمل اطاعت کے ساتھ کی جائے، تو وہ الٰہی رحمتوں کے نزول کا باعث بنتی ہے۔
امت محمدیہ کے لیے قربانی کا وجوب اور فضیلت
امت محمدیہ کے لیے قربانی کو ہر سال صاحب نصاب مسلمانوں پر واجب قرار دیا گیا ہے، جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی ایک خوبصورت اور پر حکمت یادگار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی اہمیت کو اجاگر فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران ہر سال باقاعدگی سے قربانی کیا کرتے تھے، اور اپنے آخری حج میں تو آپ نے سو اونٹوں کی قربانی پیش فرمائی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مسلسل عمل اور اس پر شدید تاکید، جس میں آپ نے فرمایا کہ جو شخص مالی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ، اس عبادت کی غیر معمولی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ یہ تاکید اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی کو نظر انداز کرنا صرف ایک عمل کو ترک کرنا نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور اس کی بے پناہ رحمتوں سے محروم رہنا ہے۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ قربانی، جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے واجب کی گئی ہے، ایک ایسا ذریعہ ہے جو مسلسل اور متواتر الٰہی برکات اور رحمتوں کے نزول کو ممکن بناتا ہے۔ یہ ایک ایسا الٰہی نظام ہے جو بندے کو اللہ کے قریب کرتا ہے اور اس پر رحمتوں کی بارش برساتا ہے۔
قربانی کی حكمت و فلسفہ مختصراً یوں بیان کیا جاسکتاہے:
درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جان دار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔اور ظاہر ہے کہ یہ مقاصد صرف صدقہ کرنے اور غریب کی مدد کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ غریب و محتاج کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکاۃ اور صدقہ فطر کی عبادات مقرر کی ہیں، نیز اس کے لیے نفلی صدقات کا دروازہ بھی ہر وقت کھلا ہے۔ لہٰذا جس شخص پر قربانی واجب ہو اس کے لیے ایامِ عید الاضحیٰ میں قربانی ہی کی عبادت متعین ہے۔
حجۃ الله البالغہ ميں ہے:
“والسر في الهدى التشبه بفعل سيدنا إبراهيم عليه السلام فيما قصد من ذبح ولده في ذلك المكان طاعة لربه وتوجها إليه، والتذكر لنعمة الله به وبأبيهم إسمعيل عليه السلام وفعل مثل هذا الفعل في هذا الوقت، والزمان ينبه النفس أي تنبه.”
(من ابواب الحج،صفة المناسك،ج:2،ص:94،ط:دار الجيل)
قربانی کے بنیادی روحانی فوائد
قربانی کے روحانی فوائد کثیر الجہت ہیں، جو فرد کی ذات سے لے کر پورے معاشرے تک کو متاثر کرتے ہیں اور الٰہی رحمتوں کے نزول کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔
اللہ کا قرب اور رضا کا حصول: ایمان کی تکمیل کا ذریعہ
قربانی کا سب سے بنیادی اور اہم روحانی فائدہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور اس کی رضا و خوشنودی پانا ہے۔ یہ عمل اللہ کے حکم پر مکمل سر تسلیم خم کرنے کا عملی اظہار ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی ادائیگی بھی ہے۔ یہ عبادت بندے کو اللہ کے قریب کرتی ہے اور اس کے ایمان کو مکمل کرتی ہے۔ جب کوئی بندہ اللہ کے لیے محبت اور اس کے لیے نفرت کا جذبہ رکھتا ہے، تو اس کا ایمان کامل ہوتا ہے، اور قربانی اسی محبت کا عملی ثبوت ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اللہ کی خاص نظرِ کرم، اس کی قبولیت اور اس کی بے پناہ رحمتوں کے دائرے میں آ جاتا ہے۔ یہ قرب بذاتِ خود رحمت کا ایک عظیم مظہر ہے، کیونکہ اللہ کی رضا ہی اس کی رحمتوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
تقویٰ اور اخلاص کی آبیاری: جانور کا خون نہیں، دل کا تقویٰ پہنچتا ہے
قربانی کا ایک انتہائی اہم روحانی پہلو تقویٰ اور اخلاص کی آبیاری ہے۔ قرآن حکیم اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کرتا ہے: “ان (جانوروں) کا گوشت اللہ کو ہرگز نہیں پہنچتا اور نہ ان کا خون، بلکہ اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔” (سورہ حج: ۳۷) یہ آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ قربانی کا حقیقی فلسفہ محض جانور کو ذبح کرنا نہیں بلکہ اس کے پیچھے کارفرما نیت کی پاکیزگی اور دل کا تقویٰ ہے۔ قربانی کی قبولیت اور اس سے حاصل ہونے والے روحانی اجور کا دارومدار مکمل طور پر اخلاص اور نیت کی سچائی پر ہے۔ جب قربانی خالص نیت اور تقویٰ کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، تو یہ دل کو پاکیزہ کرتی ہے اور اسے اللہ کی رحمتوں کے لیے ایک موزوں ظرف بناتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں بنیادی طور پر انہی پر نازل ہوتی ہیں جو متقی اور مخلص ہوتے ہیں۔ اس طرح، قربانی ایک روحانی عمل ہے جو دل کی اندرونی کیفیت کو بہتر بناتا ہے، اور یہی بہتر کیفیت الٰہی رحمتوں کے نزول کا باعث بنتی ہے۔

مال کی محبت میں کمی اور ایثار کا عملی درس
قربانی کا ایک اہم روحانی فائدہ مال کی محبت میں کمی لانا اور سخاوت کی عادت کو پروان چڑھانا ہے۔ یہ عمل انسان کو یہ درس دیتا ہے کہ وہ اپنا مال، وقت، صلاحیتیں اور اپنی سب سے پسندیدہ چیز کو بھی اللہ کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ یہ ایثار کا عملی درس ہے، جو انسان کو خود غرضی سے نکال کر دوسروں کے لیے قربانی دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ دنیاوی مال و متاع سے بے تعلقی اور ایثار کا جذبہ ایسی روحانی خوبیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔ جب کوئی بندہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے، تو یہ اس کے دل کی پاکیزگی اور اللہ پر مکمل بھروسے کی علامت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے اور ان کے مال میں برکت عطا فرماتا ہے۔ یہ روحانی تبدیلی ہی رحمتوں کے نزول کا ایک اہم سبب بنتی ہے۔
گناہوں کی معافی اور نیکیوں میں بے پناہ اضافہ
قربانی کے ذریعے گناہوں کی معافی اور نیکیوں میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے، جو الٰہی رحمت کا ایک واضح مظہر ہے۔ احادیث مبارکہ اس کی فضیلت کو نمایاں کرتی ہیں:
“جس نے خوش دلی سے طالبِ ثواب ہو کر قربانی کی، تو وہ آتش جہنم سے حِجاب (یعنی روک) ہو جائے گی۔”
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا گیا: “اپنی قربانی کے پاس موجود رہو کیونکہ اِس کے خون کا پہلا قطرہ گرے گا تمہارے سارے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔”
ایک اور روایت میں ہے کہ قربانی کے جانور میں ہر بال کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ گناہوں کی معافی اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمتوں میں سے ایک ہے، جو بندے کو پاکیزہ کر کے اسے اللہ کے قریب کرتی ہے۔ یہ حدیث اس بات کی گواہی ہے کہ قربانی، جب خالص نیت سے کی جائے، تو وہ اللہ کی طرف سے فوری اور براہ راست رحمت کا باعث بنتی ہے، جو گناہوں کو دھو ڈالتی ہے۔ نیکیوں میں بے پناہ اضافہ بھی اللہ کے فضل و کرم اور رحمت کا ہی نتیجہ ہے، جو آخرت میں بندے کے لیے نجات کا ذریعہ بنے گا۔
اللہ سے محبت میں اضافہ اور احساسِ حضوری کا فروغ
قربانی کا عمل اللہ تعالیٰ سے محبت میں اضافے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ جب بندہ اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرتا ہے، تو یہ اس کی سچی محبت کا عملی ثبوت ہوتا ہے۔ یہ عمل ایمان کی حلاوت (مٹھاس) کا ذائقہ چکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس سے بندے کو اللہ سے اپنے تعلق میں ایک خاص سرور محسوس ہوتا ہے۔ قربانی کے ذریعے انسان میں احساسِ حضوری (اللہ کی ہر وقت موجودگی کا احساس) پیدا ہوتا ہے، کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور سن رہا ہے۔ اللہ سے محبت میں اضافہ اور اس کے حضور کی گہری آگاہی بندے کو روحانی طور پر مضبوط کرتی ہے اور اسے اللہ کی رحمتوں کے لیے زیادہ receptive بناتی ہے۔ جب بندے کا دل اللہ کی محبت سے سرشار ہوتا ہے اور اسے ہر لمحہ اللہ کی موجودگی کا احساس

ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتیں ایسے بندے پر کثرت سے نازل فرماتا ہے۔
شکر گزاری اور عاجزی کا مظہر
قربانی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں، خاص طور پر زندگی کی نعمت اور ذی الحجہ کے مبارک ایام کے شکرانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یہ عمل انسان کو اللہ کی عظمت و کبریائی، اس کی حاکمیت اور ملکیت کا اعتراف کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اور اسے غرور و گھمنڈ سے بچاتا ہے۔ قربانی کو ہمیشہ شکر گزاری اور عاجزی کے ساتھ پیش کرنا چاہیے، یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ موقع اللہ کا فضل اور اس کی عطا ہے۔ شکر گزاری پر اللہ تعالیٰ نعمتوں میں اضافے کا وعدہ فرماتا ہے، جو کہ رحمت کی ہی ایک صورت ہے۔ جب بندہ عاجزی اور شکر گزاری کے ساتھ اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرتا ہے، تو وہ اللہ کی نظر میں محبوب ہو جاتا ہے اور اس پر مزید رحمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ یہ عمل انسان کو اس کے رب کے سامنے مکمل طور پر جھکا دیتا ہے، جو رحمتوں کے نزول کا ایک اہم سبب ہے۔
قربانی اور نزول رحمت کا گہرا تعلق
قربانی اور نزول رحمت کے درمیان ایک گہرا اور براہ راست تعلق پایا جاتا ہے، جو اسلامی تعلیمات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
قربانی بطور “جالب رحمت”: الٰہی فضل و کرم کو متوجہ کرنے کا ذریعہ
قربانی کو اسلامی اصطلاح میں “جالب رحمت” یعنی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا عمل سمجھا جاتا ہے۔ یہ اس طرح ہے جیسے مالی صدقہ اللہ کی رحمت کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہ عمل اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، اور اللہ کی رضا براہ راست رحمت کے نزول کا سبب بنتی ہے۔ قربانی کا یہ پہلو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ صرف ایک رسم نہیں بلکہ ایک فعال عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کو بندے اور معاشرے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ جب بندہ خالص نیت سے اللہ کی راہ میں قربانی کرتا ہے، تو وہ درحقیقت اللہ سے اس کی رحمت کا طلب گار ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے۔
قبولیت قربانی اور رحمت الٰہی کا نزول: احادیث کی روشنی میں
قربانی کی قبولیت اور اس کے نتیجے میں رحمت الٰہی کا نزول احادیث مبارکہ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں۔ قربانی کا جانور قیامت کے روز اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہو گا، اور اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت پا لیتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی الٰہی فضل ہے جو قربانی کے عمل کو حاصل ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: “اور اعمال تو کرنے کے بعد قبول ہوتے ہیں اور قربانی کرنے سے پہلے ہی۔” یہ “عمل سے پہلے قبولیت” کی خصوصیت قربانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی رضا اور فوری رحمت کا اظہار ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی نیت اور قربانی کے جذبے کو اس قدر پسند فرماتا ہے کہ اس کی قبولیت کا اعلان عمل کی تکمیل سے بھی پہلے کر دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی رحمت ہے جو اس عبادت کو دیگر اعمال سے ممتاز کرتی ہے اور اسے الٰہی برکات کے نزول کا ایک تیز رفتار ذریعہ بناتی ہے۔
سورہ کوثر اور “خیر کثیر” کا مفہوم: قربانی کا رحمت سے تعلق
سورہ کوثر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بے پناہ نعمتیں عطا کرنے کا ذکر فرمایا اور اس کے شکرانے میں نماز اور قربانی کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اِنَّاۤ اَعْطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ﴿۱﴾ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ ؕ﴿۲﴾” (بیشک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی، تو آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔) اس سورہ میں “الکوثر” سے مراد “خیر کثیر” یعنی بے شمار خوبیاں، کثرت نسل اور حوض کوثر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی کو خیر کثیر عطا فرمانا اور اس کے شکرانے میں قربانی کا حکم دینا، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قربانی بذاتِ خود “خیر کثیر” کے حصول اور اس کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ ایک دو طرفہ تعلق ہے: قربانی اس بے پناہ نعمت (رحمت) کا شکرانہ بھی ہے اور مزید رحمتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا وسیلہ بھی۔ جب بندہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اسے مزید نعمتوں سے نوازتا ہے۔
ذی الحجہ کے مبارک ایام: عبادات اور رحمتوں کا نزول
قربانی کا عمل ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں ادا کیا جاتا ہے، جنہیں سال کے بہترین ایام قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔ خصوصاً یوم عرفہ (۹ ذی الحجہ) کا روزہ پچھلے اور اگلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ)، جو قربانی کا دن ہے، پورے سال کا سب سے بڑا دن ہے، جس میں کئی بڑی عبادات (حج، قربانی، نماز عید) یکجا ہو جاتی ہیں۔ قربانی کا ان مبارک ایام میں ادا کیا جانا اس کے روحانی اجر اور رحمتوں کے نزول کی صلاحیت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ یہ پورا عشرہ ہی اللہ کی رحمتوں، برکات اور مغفرت کے نزول کے لیے مخصوص ہے، اور قربانی اس رحمت بھری فضا کا ایک کلیدی جزو ہے۔ اس طرح، قربانی ایک ایسی عبادت ہے جو رحمتوں کے ایک وسیع سمندر میں واقع ہے، اور اس کی ادائیگی سے ان رحمتوں کا حصول مزید یقینی ہو جاتا ہے۔
صدقہ و خیرات کا رحمت سے تعلق: قربانی کے گوشت کی تقسیم کا روحانی پہلو
قربانی کا گوشت غریبوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس سے غربت میں کمی آتی ہے اور معاشرتی محبت اور بھائی چارگی پروان چڑھتی ہے۔ یہ عمل انسانی ہمدردی اور اخوت کا پیغام دیتا ہے، اور امیر کو غریب سے ملانے کا سبب بنتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، صدقہ و خیرات اللہ کی رحمت کو متوجہ کرتا ہے۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم کے ذریعے یہ انفرادی عبادت ایک اجتماعی صدقے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہ اجتماعی ہمدردی اور سخاوت، جو قربانی کے روحانی جذبے سے جنم لیتی ہے، پورے معاشرے پر اجتماعی رحمت کے نزول کا باعث بنتی ہے۔ جب ایک معاشرہ باہمی تعاون، ہمدردی اور ایثار کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی برکات اور رحمتیں نازل فرماتا ہے، جس سے معاشرتی خوشحالی اور امن قائم ہوتا ہے۔
Table: قربانی کے روحانی فوائد اور نزول رحمت سے ان کا تعلق
روحانی فائدہ (Spiritual Benefit) | وضاحت (Explanation) | نزول رحمت سے تعلق (Connection to Descent of Mercy) | متعلقہ حوالہ (Relevant Reference) |
اللہ کا قرب و رضا کا حصول | قربانی اللہ کی اطاعت، سنت ابراہیمی کی ادائیگی اور اس کے قرب کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ | قربِ الٰہی بذاتِ خود رحمت کا مظہر ہے، کیونکہ اللہ کی رضا اس کی بے پناہ رحمتوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ | |
گناہوں کی معافی | قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے اور جہنم سے پردہ بن جاتا ہے۔ | گناہوں کی معافی اللہ کی سب سے بڑی رحمتوں میں سے ایک ہے، جو بندے کو پاکیزہ کر دیتی ہے۔ | |
تقویٰ اور اخلاص کی آبیاری | قربانی کا اصل مقصد جانور کا خون نہیں بلکہ دل کا تقویٰ اور نیت کا اخلاص ہے جو اللہ تک پہنچتا ہے۔ | تقویٰ اور اخلاص اللہ کی محبت اور رضا کا سبب بنتے ہیں، اور اللہ کی محبت رحمتوں کے نزول کو یقینی بناتی ہے۔ | |
مال کی محبت میں کمی و ایثار | قربانی مال کی محبت کم کرتی ہے، سخاوت اور ایثار کا جذبہ پیدا کرتی ہے، اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا درس دیتی ہے۔ | ایثار اور سخاوت اللہ کو محبوب ہیں، اور ان صفات کو اپنانے والوں پر اللہ اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ | |
احساسِ شکر گزاری و عاجزی | قربانی اللہ کی نعمتوں، خاص طور پر زندگی اور ذی الحجہ کے مبارک ایام پر شکر ادا کرنے کا مظہر ہے۔ | شکر گزاری پر اللہ نعمتوں میں اضافہ کا وعدہ فرماتا ہے، جو کہ رحمت کی ہی ایک صورت ہے۔ عاجزی اللہ کے قرب کا باعث ہے۔ | |
روحانی ارتقاء و قربانی کی قبولیت | قربانی کو بعض علماء کے مطابق عمل سے پہلے ہی قبول کر لیا جاتا ہے اور یہ ایمان کی حلاوت کا ذائقہ چکھاتی ہے۔ | یہ قبولیت اللہ کی خاص رحمت اور فضل کا اظہار ہے، جو اس عبادت کو دیگر اعمال سے ممتاز کرتی ہے۔ | |
اجتماعی بھائی چارگی و ہمدردی | قربانی گوشت کی تقسیم کے ذریعے غرباء کی دلجوئی، رشتہ داروں سے محبت اور معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔ | اجتماعی ہمدردی اور اتحاد پر اللہ کی اجتماعی رحمت کا نزول ہوتا ہے، جو معاشرے میں برکت اور خوشحالی لاتی ہے۔ | |
سنتِ ابراہیمی کی یادگار | قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سنت کی یادگار ہے، جس میں اللہ نے اسماعیلؑ کے فدیہ میں دنبہ بھیجا۔ | فدیہ (بدلہ) بذاتِ خود اللہ کی عظیم رحمت کا مظہر ہے کہ اس نے بندے پر آسانی فرمائی۔ | |
خیر کثیر (کوثر) کا حصول | سورہ کوثر میں قربانی کا حکم “خیر کثیر” (بے شمار نعمتوں) کے شکرانے میں دیا گیا ہے۔ | خیر کثیر کا حصول اللہ کی بے پناہ رحمتوں کا ثبوت ہے، اور قربانی اس کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ |
قربانی کے متعلق اہم وضاحتیں اور غلط فہمیوں کا ازالہ
قربانی کے روحانی فوائد اور نزول رحمت کے تعلق کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے کچھ اہم وضاحتیں اور غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔
نیت اور خلوص کی اہمیت: ظاہری عمل سے زیادہ باطنی کیفیت
قربانی کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کرنا ہے، نہ کہ محض دنیاوی فوائد کا حصول۔ قربانی کی قبولیت اور اس سے حاصل ہونے والی رحمتوں کا انحصار ظاہری عمل سے زیادہ باطنی کیفیت، یعنی نیت کے اخلاص اور تقویٰ پر ہے۔ قربانی کی روح اخلاص ہے؛ اگر یہ اخلاص موجود نہ ہو تو یہ عبادت بے کار ہو سکتی ہے اور اللہ کی نزدیکی کی بجائے دوری کا سبب بن سکتی ہے۔ الٰہی رحمت محض رسم ادا کرنے کا نتیجہ نہیں ہوتی، بلکہ یہ دل کی پاکیزگی اور بندگی کے سچے جذبے کا جواب ہوتی ہے۔ لہٰذا، قربانی کرتے وقت اس کی ظاہری شکل کے ساتھ ساتھ اس کے باطنی مقصد پر بھی مکمل توجہ دینا ضروری ہے۔
“جان کے بدلے جان” کی غلط فہمی کی تردید
ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ کسی بیمار کی شفا یابی کے لیے جانور ذبح کرنا “جان کے بدلے جان” کا تصور رکھتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اس خیال کو بے اصل اور شرع میں کہیں بھی معہود نہیں قرار دیتیں۔ یہ نظریہ کہ خون بہانے سے شفا حاصل ہوتی ہے، بے بنیاد ہے۔ اگر بیمار کی شفا یابی کی نیت سے جانور ذبح کیا جائے، تو اس کی اباحت صرف اس صورت میں ہے جب اس کا مقصد گوشت کو صدقہ کرنا ہو اور یہ یقین ہو کہ صدقہ مالیہ کی طرح یہ صدقہ بھی اللہ کی رحمت کو متوجہ کرے گا، نہ کہ خون بہانے سے شفا ہو گی۔ اللہ کی رحمت کسی توہم پرستانہ عمل یا جان کے بدلے جان کے تصور پر مبنی نہیں ہوتی، بلکہ یہ خالص نیت، صدقہ اور اللہ پر توکل کے نتیجے میں نازل ہوتی ہے۔ یہ وضاحت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ رحمت کے حصول کی کوششیں صحیح اسلامی عقائد کے مطابق ہوں۔
مالی صدقہ اور قربانی کا شرعی موازنہ
بعض لوگ قربانی کی جگہ اس کی قیمت صدقہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم، قرآن و حدیث کے مطابق، قربانی میں جانور کا ذبح کرنا اور خون بہانا ضروری ہے۔ اس کی قیمت صدقہ کر دینا لغو و باطل ہے اور قربانی کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ قربانی ایک مخصوص عبادت ہے جس کے اپنے منفرد روحانی فوائد اور نزول رحمت کے پہلو ہیں۔ اگرچہ مالی صدقہ کے اپنے بے پناہ فوائد ہیں اور وہ بھی رحمت کے حصول کا ذریعہ ہے، لیکن وہ قربانی کی اس خاص عبادت کا متبادل نہیں بن سکتا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص دنوں میں مقرر فرمائی ہے۔ قربانی کا یہ منفرد مقام اس کے خاص روحانی اثرات اور الٰہی رحمت کے نزول کے لیے اس کی خاص اہمیت کو واضح کرتا ہے۔
اجتماعی اور معاشرتی فوائد کا روحانی پہلو
قربانی کے روحانی فوائد صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی اور معاشرتی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، جو بالآخر پورے معاشرے پر اللہ کی رحمت کے نزول کا سبب بنتے ہیں۔
غرباء و مساکین کی دلجوئی اور معاشرتی ہمدردی
قربانی کے گوشت کی تقسیم کا ایک اہم پہلو غرباء و مساکین کی دلجوئی ہے۔ یہ گوشت ان لوگوں تک بھی پہنچتا ہے جو شاید سارا سال گوشت نہ کھا سکیں، اس طرح ان کی دلجوئی اور خیر خواہی ہوتی ہے۔ ایک علاقے میں جب قربانیاں ہوتی ہیں تو کئی گھروں سے گوشت غریب گھرانوں تک پہنچتا ہے، جس سے غربت میں کمی آتی ہے۔ غرباء و مساکین کی مدد اور دلجوئی کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے۔ یہ قربانی کے روحانی جذبے سے پیدا ہونے والی ہمدردی اور سخاوت کا مظہر ہے، جو معاشرے پر اجتماعی رحمت کے نزول کا براہ راست ذریعہ بنتا ہے۔ جب ایک معاشرہ اپنے کمزور اور ضرورت مند افراد کا خیال رکھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی برکات اور رحمتیں نازل فرماتا ہے، جس سے اجتماعی خوشحالی اور امن کی فضا قائم ہوتی ہے۔
بھائی چارگی اور اتحاد کا فروغ: ایک روحانی بندھن
قربانی کا عمل ہمیں بھائی چارگی اور اخوت کا پیغام دیتا ہے۔ یہ ایک دوست کو دوسرے دوست، ایک رشتہ دار کو دوسرے رشتہ دار سے، اور امیر کو غریب سے ملانے کا سبب بنتا ہے۔ یہ مسلمانوں میں وحدت و یگانگت پیدا کرتا ہے اور انہیں خدا پرستی کی اخلاقی و روحانی بنیاد پر متحد کرتا ہے۔ جب مسلمان ایک ساتھ اس عظیم عبادت کو انجام دیتے ہیں اور گوشت کی تقسیم کے ذریعے آپس میں تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں، تو یہ ایک روحانی بندھن پیدا کرتا ہے جو معاشرے کی بنیاد کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ اجتماعی روحانی ہم آہنگی اور اتحاد پورے معاشرے پر اجتماعی رحمت کے نزول کا باعث بنتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اکثر ان جماعتوں پر نازل ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہتی ہیں۔ یہ معاشرتی فوائد قربانی کے روحانی اثرات کا ایک وسیع تر مظہر ہیں، جو رحمت کو فرد سے بڑھ کر پورے معاشرے تک پھیلاتے ہیں۔
خلاصہ اور عملی سفارشات
قربانی دینِ اسلام کی ایک ایسی عظیم عبادت ہے جو محض ایک ظاہری رسم نہیں بلکہ گہرے روحانی معانی کی حامل ہے۔ اس کا ہر پہلو، خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نزول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ قربانی کا اصل مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا، اس کی رضا پانا، اور اس کے حکم پر مکمل سر تسلیم خم کرنا ہے۔ یہ عمل تقویٰ، اخلاص، ایثار، سخاوت، اور اللہ سے سچی محبت کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے۔ گناہوں کی معافی، نیکیوں میں اضافہ، اور جہنم سے پناہ جیسے اجور اس عبادت کے براہ راست روحانی فوائد ہیں، جو الٰہی رحمت کے واضح مظاہر ہیں۔
قربانی کا “جالب رحمت” ہونا، اس کی “عمل سے پہلے قبولیت”، اور سورہ کوثر میں “خیر کثیر” کے ساتھ اس کا تعلق، یہ سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ عبادت اللہ کی بے پناہ رحمتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے۔ ذی الحجہ کے مبارک ایام میں اس کا ادا کیا جانا اس کے روحانی اثرات کو مزید بڑھا دیتا ہے، کیونکہ یہ پورا عشرہ ہی رحمتوں اور برکات کے نزول کا موسم ہے۔ معاشرتی سطح پر، غرباء کی دلجوئی اور بھائی چارگی کا فروغ بھی اجتماعی رحمتوں کے نزول کا سبب بنتا ہے۔
عملی سفارشات:
رحمت الٰہی کے بھرپور حصول کے لیے، قربانی کو درج ذیل طریقوں سے انجام دیا جانا چاہیے:
خلوص نیت: قربانی محض دکھاوے یا دنیاوی فوائد کے لیے نہیں، بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے کی جائے۔ یہ نیت ہی قربانی کی روح ہے اور قبولیت کی بنیاد ہے۔
خوش دلی اور ایثار: قربانی خوش دلی اور ایثار کے جذبے کے ساتھ کی جائے، جس میں مال کی محبت کو کم کیا جائے اور اللہ کی راہ میں اپنی پسندیدہ چیز کو قربان کرنے کا سبق یاد رکھا جائے۔
ذی الحجہ کے ایام کی قدر: قربانی کو ذی الحجہ کے مبارک ایام کی فضیلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، دیگر عبادات (نماز، ذکر، تلاوت، صدقہ) کے ساتھ خشوع و خضوع سے ادا کیا جائے۔ یہ پورا عشرہ ہی رحمتوں کے نزول کا بہترین موقع ہے۔
گوشت کی صحیح تقسیم: قربانی کے گوشت کی تقسیم میں غرباء و مساکین، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا خاص خیال رکھا جائے تاکہ معاشرتی ہمدردی اور بھائی چارگی پروان چڑھے اور اجتماعی رحمتوں کا نزول ہو۔
ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے قربانی کا فریضہ ادا کرنا، نہ صرف انفرادی روحانی ارتقاء کا باعث بنتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو الٰہی رحمتوں اور برکات سے مالا مال کر دیتا ہے۔