
پاکستان میں سب سے زیادہ سیرچ کی جانے والی بیماریاں
Most searched diseases in Pakistan
از ۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
پاکستان میں صحت کے اہم رجحانات اور عوامی دلچسپی کی بیماریاں
مئی 2025 کے اعداد و شمار کا تجزیہ
ایگزیکٹو سمری
اس رپورٹ کا بنیادی مقصد مئی 2025 کے دوران دستیاب تحقیقی مواد کی بنیاد پر پاکستان میں عوامی دلچسپی کی سب سے نمایاں بیماریوں کی نشاندہی کرنا ہے۔ چونکہ گوگل ٹرینڈز سے براہ راست “سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی بیماریوں” کی درجہ بندی دستیاب نہیں، لہٰذا عوامی دلچسپی کا اندازہ حالیہ خبروں، سرکاری ایڈوائزریز، اور قومی صحت کے پروگراموں میں بیماریوں کے ذکر کی کثرت اور اہمیت سے لگایا گیا ہے۔
مئی 2025 کے دوران، پولیو، خسرہ، ڈینگی، اور گرمی سے متعلق بیماریاں (بشمول اسہال) عوامی صحت کے مباحث اور میڈیا کوریج میں سب سے زیادہ نمایاں رہیں۔ ان بیماریوں کے لیے جاری قومی مہمات اور بڑھتے ہوئے کیسز عوامی تشویش اور حکومتی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، موٹاپا اور ٹائپ 2 ذیابیطس جیسے دائمی امراض بھی طویل مدتی صحت کے بڑے چیلنجز کے طور پر سامنے آئے ہیں جن کے اہم معاشی اثرات ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) اور صوبائی صحت کے محکمے ان بیماریوں پر قابو پانے کے لیے فعال طور پر کام کر رہے ہیں، جو ان کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
رپورٹ میں ان بیماریوں سے نمٹنے کے لیے ویکسینیشن کوریج کو بہتر بنانے، موسمی بیماریوں کے لیے پیشگی تیاری، عوامی آگاہی مہمات کو تیز کرنے، اور صحت کے اعداد و شمار کی بہتر دستیابی اور تجزیے پر زور دیا گیا ہے۔ خاص طور پر، موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق صحت کے خطرات پر توجہ دینا اور دائمی بیماریوں کی روک تھام کے لیے طرز زندگی میں تبدیلیوں کو فروغ دینا مستقبل کی پالیسی سازی کے لیے اہم ہے۔
1. تعارف
1.1. رپورٹ کا مقصد اور دائرہ کار
اس رپورٹ کا بنیادی مقصد پاکستان میں اس وقت عوامی دلچسپی کی سب سے نمایاں بیماریوں کی نشاندہی کرنا ہے، جیسا کہ دستیاب تحقیقی مواد میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سوال کہ “پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ کونسی بیماری سیرچ کی جا رہی ہے؟” ایک اہم عوامی صحت کے رجحان کو سمجھنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ تاہم، براہ راست گوگل ٹرینڈز کی درجہ بندی جو خاص طور پر “سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی بیماریوں” کو ظاہر کرتی ہو، فراہم کردہ مواد میں دستیاب نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، جیو نیوز کی رپورٹس 2024 کے لیے گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی شخصیات اور فلموں/ٹی وی شوز کا ذکر کرتی ہیں، بیماریوں کا نہیں۔ 2025 میں بھی شخصیات کی سرچ کے رجحانات نمایاں رہے ہیں۔

اس بنا پر، اس رپورٹ میں عوامی دلچسپی کا اندازہ حالیہ خبروں، سرکاری ایڈوائزریز، اور عوامی صحت کے پروگراموں میں بیماریوں کے ذکر کی کثرت، شدت، اور جغرافیائی پھیلاؤ پر مبنی ہے۔ یہ طریقہ کار اس مفروضے پر قائم ہے کہ میڈیا کوریج اور حکومتی انتباہات عوامی تشویش کو ظاہر کرتے ہیں، جو بالواسطہ طور پر آن لائن سرچ سرگرمی کو متاثر کرتے ہیں۔ اس تجزیے کا دائرہ کار مئی 2025 کے ارد گرد کے ڈیٹا پر مرکوز ہے تاکہ موجودہ صورتحال کو پیش کیا جا سکے۔ یہ نقطہ نظر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ براہ راست سرچ حجم کے اعداد و شمار کی عدم موجودگی میں، عوامی صحت کے مباحث میں بیماریوں کی نمایاں حیثیت ہی عوامی دلچسپی کا بہترین اشارہ فراہم کرتی ہے۔
1.2. ڈیٹا ذرائع کا تعارف
رپورٹ میں مختلف معتبر ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان میں جنگ نیوز ، ایکسپریس نیوز ، جیو نیوز ، اور بی بی سی اردو جیسے معروف خبر رساں اداروں کی صحت سے متعلق تازہ ترین خبریں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کی آفیشل ویب سائٹ سے حاصل کردہ سرکاری ایڈوائزریز اور رپورٹس بھی اس تجزیے کا حصہ ہیں۔ ویکیپیڈیا کے متعلقہ صفحات نے صحت کے اداروں اور پروگراموں کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کی ہیں۔ گوگل ٹرینڈز سے متعلق فراہم کردہ معلومات عمومی سرچ پیٹرن اور صحت سے متعلق مخصوص موضوعات میں دلچسپی کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوئی ہیں۔
2. پاکستان میں عمومی صحت کے رجحانات اور عوامی دلچسپی
2.1. گوگل سرچ رجحانات کا عمومی جائزہ
پاکستان میں گوگل سرچ کے عمومی رجحانات کا جائزہ بتاتا ہے کہ عوامی دلچسپی کا ایک بڑا حصہ تفریح اور شخصیات پر مرکوز ہے۔ جیو نیوز کی رپورٹس کے مطابق، 2024 میں پاکستانیوں نے گوگل پر سب سے زیادہ شخصیات جیسے عباس عطار، ارشد ندیم، ثنا جاوید، اور شعیب ملک کو سرچ کیا۔ اسی طرح، فلموں اور ٹی وی شوز میں ہیرا منڈی، 12th Fail، اور اینیمل سرفہرست رہے۔ مئی 2025 میں بھی، ائیروائس مارشل اورنگزیب احمد جیسی شخصیات سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی شخصیات میں شامل رہیں۔ یہ عمومی سرچ پیٹرن ظاہر کرتا ہے کہ براہ راست بیماریوں کے ناموں کی سرچز عمومی ٹرینڈنگ فہرستوں میں نمایاں طور پر شامل نہیں ہوتیں، جس سے “سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی بیماری” کی براہ راست شناخت مشکل ہو جاتی ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ گوگل ٹرینڈز کی عمومی درجہ بندی میں صحت کے موضوعات کو الگ سے نمایاں نہیں کیا جاتا، یا پھر ان کی سرچ کا حجم دیگر کیٹیگریز کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
2.2. صحت اور تندرستی سے متعلق عمومی سرچ پیٹرن
عام سرچ رجحانات میں بیماریوں کی براہ راست درجہ بندی کی عدم موجودگی کے باوجود، گوگل ٹرینڈز کے گہرے تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام میں صحت اور تندرستی کے بارے میں شعور بڑھ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، لوگ اپنی صحت اور جسمانی و ذہنی فلاح و بہبود کا خیال رکھنے کے حوالے سے زیادہ باشعور ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2019 میں “کیٹو ڈائٹ” کی سرچ میں 1.4 گنا اضافہ ہوا، اور “ویجیٹیرین کھانوں” کی سرچ میں 1.5 گنا اضافہ دیکھا گیا، جس سے پاکستان دنیا میں سبزی خور غذاؤں کو اپنانے والا دوسرا تیز ترین ملک بن گیا۔

اسی طرح، “ہیلتھ کلبز” کی سرچ میں 1.5 گنا اور “فٹنس کلاسز” میں 189% کا اضافہ ہوا، جو جسمانی سرگرمیوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ کووِڈ-19 وبائی مرض کے دوران، جب لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہو گئی تھی، گھر پر ورزش کے رجحانات میں تیزی آئی؛ “HIIT workout” کی سرچ میں 175%، “gym at home” میں 125%، اور “home workouts” میں 80% کا اضافہ ہوا۔ یہ رجحان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وبائی صورتحال نے لوگوں کو گھر پر ہی اپنی صحت کا خیال رکھنے کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ ذہنی صحت کے شعبے میں بھی دلچسپی بڑھی، مارچ اور اپریل میں “میڈیٹیشن” کی سرچ میں 56% کا اضافہ دیکھا گیا۔
یہ رجحانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عوامی دلچسپی بیماریوں کے علاج سے ہٹ کر صحت کی روک تھام اور مجموعی فلاح و بہبود کی طرف ایک وسیع تر تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔ لوگ اب صرف بیماری کے علاج کے بجائے، صحت مند طرز زندگی، متوازن خوراک، اور جسمانی و ذہنی تندرستی کے ذریعے بیماریوں سے بچاؤ کے طریقوں کی تلاش میں ہیں۔ یہ تبدیلی عوامی صحت کی مہمات کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ طرز زندگی میں مثبت تبدیلیوں اور احتیاطی تدابیر پر زور دیں، اور اس بڑھتی ہوئی عوامی دلچسپی کو صحت کے بہتر نتائج کے لیے استعمال کریں۔
3. مئی 2025 میں نمایاں بیماریاں اور ان کی موجودہ صورتحال
مئی 2025 کے دوران پاکستان میں کئی بیماریاں عوامی صحت کے مباحث اور میڈیا کوریج میں نمایاں رہیں۔ ان کی اہمیت ان کے پھیلاؤ، شدت، اور حکومتی ردعمل سے ظاہر ہوتی ہے۔
3.1. پولیو (Polio)
پولیو کا خاتمہ پاکستان کی قومی صحت کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ دو آخری ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس مقامی سطح پر موجود ہے۔ مئی 2025 میں پولیو کے خاتمے کی مہمات پاکستان میں صحت کی خبروں کا ایک نمایاں حصہ رہی ہیں۔ سندھ، پنجاب، اور بلوچستان میں 26 مئی سے انسدادِ پولیو مہمات شروع ہوئیں۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، 10 فروری 2025 کے بعد سے پاکستان میں پولیو کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم، رواں سال (2025) کے مجموعی طور پر 74 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں بلوچستان سے 27، سندھ سے 23، خیبرپختونخوا سے 22، جبکہ پنجاب اور اسلام آباد سے ایک، ایک کیس سامنے آیا۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پولیو کا وائرس اب بھی ملک کے مختلف حصوں میں موجود ہے اور اس کے خاتمے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے۔

ٹیبل 1: پاکستان میں پولیو کیسز کی صوبائی تقسیم (2025)
صوبہ/علاقہ | کیسز کی تعداد (2025 کے مجموعی کیسز) |
بلوچستان | 27 |
سندھ | 23 |
خیبرپختونخوا | 22 |
پنجاب | 1 |
اسلام آباد | 1 |
کل | 74 |
Export to Sheets
ماخذ: وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت انسداد پولیو اجلاس، 17 اپریل 2025
پولیو مہمات کی راہ میں سیکیورٹی خدشات، افواہیں، اور ویکسین سے متعلق تحفظات جیسی رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں۔ والدین کی جانب سے قطرے پلانے سے انکار کی تعداد میں کمی ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن اپریل کی مہم میں کراچی میں 37 ہزار سے زائد بچے قطرے پینے سے محروم رہ گئے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی بھی بہتری کی گنجائش ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پولیو کے خلاف قومی جدوجہد میں حکومتی اداروں، بین الاقوامی شراکت داروں اور فیلڈ ورکرز کے کردار کو سراہا ہے اور 5 سال سے کم عمر ہر بچے کو پولیو ویکسین کی مکمل خوراک دینے کی ہدایت کی ہے۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر نے 2025 کے آخر تک پولیو وائرس کی منتقلی کو مکمل طور پر روکنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
یہ صورتحال اس بات پر زور دیتی ہے کہ پولیو کا خاتمہ صرف ایک طبی چیلنج نہیں بلکہ ایک سماجی و ثقافتی اور سیکیورٹی چیلنج بھی ہے۔ ویکسین سے متعلق تحفظات براہ راست ویکسین کوریج کو متاثر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بچے حفاظتی ٹیکوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور وائرس کی منتقلی جاری رہتی ہے۔ سیکیورٹی چیلنجز کمزور آبادیوں تک رسائی کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوامی صحت کی مداخلتوں کو کمیونٹی کی شمولیت، اعتماد سازی، اور سیکیورٹی اقدامات کے ساتھ مربوط کرنا ضروری ہے تاکہ وہ مکمل طور پر مؤثر ثابت ہو سکیں۔ پاکستان اور افغانستان کا پولیو کے آخری مقامی ممالک میں شامل ہونا اس بیماری کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر پاکستان کو ایک اہم مرکز بناتا ہے، اور اس کی کامیابی کا انحصار ان کثیر الجہتی چیلنجز سے نمٹنے پر ہے۔
3.2. خسرہ (Measles)
خسرہ پاکستان میں، خاص طور پر سندھ میں، ایک بڑی وبائی بیماری کے طور پر سامنے آیا ہے۔ رواں برس (2025) کے 5 ماہ کے دوران سندھ میں خسرہ کی وبا میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جہاں 5 ہزار سے زائد بچے خسرے کی علامات کے ساتھ مختلف اسپتالوں میں لائے گئے۔ مارچ 2025 میں، سندھ میں صرف دو ماہ کے دوران 17 بچوں کی موت اور 1,100 سے زائد متاثر ہونے کی رپورٹ سامنے آئی۔
طبی ماہرین کے مطابق، سندھ میں ویکسینیشن کی شرح کم ہونا خسرہ سمیت مختلف بیماریوں کے ہر سال جنم لینے کی بڑی وجہ ہے۔ والدین کی لاپرواہی اور حفاظتی ٹیکوں کی محرومی بھی اس کے بڑھتے کیسز کی وجوہات میں شامل ہیں۔ یہ صورتحال ویکسین سے بچاؤ کے قابل بیماریوں کے دوبارہ ابھرنے کی ایک واضح مثال ہے جب آبادی میں حفاظتی ٹیکوں کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ خسرہ کا وبا کی شکل اختیار کرنا معمول کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگراموں میں موجود خامیوں اور عوامی صحت کے پیغامات کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام (EPI) کو مضبوط کرنے، ویکسین سے متعلق ہچکچاہٹ کو دور کرنے، اور کمیونٹی کی سطح پر رسائی کو بہتر بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسی وبائی امراض سے بچا جا سکے۔
3.3. ڈینگی (Dengue)
ڈینگی پاکستان میں ایک موسمی خطرہ ہے، خاص طور پر بارشوں کے بعد اس کے پھیلاؤ کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ وزارت صحت نے ڈینگی کے خاتمے کے لیے متعلقہ حکام کو مراسلہ جاری کیا ہے۔ مارچ 2025 میں، قومی ادارہ برائے صحت (NIH) نے ملک میں ہونے والی حالیہ بارشوں کے بعد ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر اہم ایڈوائزری جاری کی تھی۔
سندھ بھر میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ہے؛ جنوری سے 7 مارچ 2025 تک صوبے میں 148 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 132 کیسز صرف کراچی سے تھے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کراچی جیسے گنجان آباد شہری علاقے ڈینگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
ٹیبل 2: سندھ میں ڈینگی اور ملیریا کیسز (جنوری تا مارچ 2025)
بیماری | کل کیسز (سندھ بھر میں) | کراچی میں کیسز |
ملیریا | 5,437 | 117 |
ڈینگی | 148 | 132 |
Export to Sheets
ماخذ: محکمہ صحت سندھ، 12 مارچ 2025
ڈینگی کی موسمی نوعیت اور بارشوں کے بعد اس کے پھیلاؤ کا خدشہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ایک متوقع اور بار بار آنے والا صحت کا مسئلہ ہے جس کے لیے پیشگی تیاری اور مربوط اقدامات ضروری ہیں۔ NIH کی جانب سے بارشوں کے بعد ایڈوائزری کا اجرا اور وزارت صحت کا مراسلہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ حکام اس موسمی پیٹرن سے واقف ہیں اور احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈینگی کے خلاف مسلسل مہمات کی ضرورت پاکستان میں ویکٹر کنٹرول اور ماحولیاتی صفائی کے جاری چیلنج کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ احتیاطی تدابیر شاید مکمل طور پر مؤثر یا پائیدار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے بار بار وبائی امراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے مچھروں کی افزائش کے مقامات اور حفاظتی اقدامات کے بارے میں مسلسل عوامی آگاہی ضروری ہے۔
3.4. گرمی سے متعلق بیماریاں اور اسہال (Heat-Related Illnesses and Diarrhea)
مئی 2025 میں پاکستان کے بیشتر میدانی علاقے شدید گرمی کی لہر کی زد میں رہے، جہاں درجہ حرارت معمول سے 4 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہنے کا امکان تھا۔ سندھ کے کئی مقامات پر بھی شدید گرمی کی لہر جاری رہی۔ اس شدید گرمی کے صحت پر براہ راست اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کراچی میں گرمی کی شدت بڑھتے ہی ڈائریا کے مرض میں اضافہ ہوا، جس کی رپورٹ 22 مئی 2025 کو سامنے آئی۔ اس کے علاوہ، کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافے سے گردوں کے مسائل اور آنتوں کے امراض میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔
اسہال پاکستان میں بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ سالانہ 1000 میں سے 74 بچے اس کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں، اور 5 سال سے کم عمر بچوں کی 60% اموات اسہال کی بیماری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اسہال کے انفیکشن کی سب سے عام وجہ پینے کے گندے پانی کا استعمال، ناقص حفظان صحت، اور ہاتھوں پر لگنے والا انفیکشن ہے۔
گرمی کی شدت اور پانی کی آلودگی کا براہ راست تعلق اسہال کے پھیلاؤ سے ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اکثر پانی کی قلت یا غیر محفوظ پانی کے ذرائع پر انحصار کو بڑھا دیتا ہے، جس سے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے اسہال میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسہال کی وجہ سے بچوں کی اموات کی بلند شرح پاکستان میں پینے کے صاف پانی اور بہتر صفائی ستھرائی کی سہولیات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ صورتحال موسمیاتی تبدیلیوں (گرمی کی لہروں) کے صحت پر براہ راست اور شدید اثرات کو نمایاں کرتی ہے جو موجودہ بنیادی ڈھانچے کی خامیوں سے مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے لیے موسمیاتی لچک، بہتر پانی، صفائی اور حفظان صحت (WASH) کی سہولیات، اور محفوظ پانی کے استعمال کے طریقوں کے بارے میں عوامی تعلیم کو مربوط حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔
3.5. کورونا وائرس (COVID-19)
مئی 2025 میں کورونا وائرس ابھی بھی پاکستان میں موجود ہے، اور اس کے کیسز و اموات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ کراچی میں کورونا سے 4 اموات ہوئیں، اور ایک نجی اسپتال میں روزانہ 8 سے 10 مثبت کیسز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ لاہور میں بھی کورونا وائرس کی علامات کے حامل مریض بڑھنے لگے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) نے جنوری 2024 میں COVID-19 کے JN.1 سب-ویرینٹ کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے ایڈوائزری جاری کی تھی۔
یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کورونا وائرس اب وبائی حالت سے مقامی (endemic) حالت کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن پھر بھی یہ صحت کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ کیسز اور اموات کی مسلسل رپورٹنگ، خاص طور پر نجی اسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر مثبت کیسز کا سامنے آنا، کمیونٹی میں وائرس کی جاری منتقلی کو ظاہر کرتا ہے۔ NIH کی جانب سے نئے ویرینٹس پر ایڈوائزری کا اجرا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکام وائرس کی نگرانی کر رہے ہیں اور احتیاطی تدابیر کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ COVID-19 کے لیے مسلسل نگرانی، ویکسینیشن کی کوششیں (جہاں قابل اطلاق ہوں)، اور عوامی صحت کے انتباہات کی ضرورت ہے، خاص طور پر کمزور آبادیوں کے لیے۔
3.6. ملیریا (Malaria)
ملیریا پاکستان کے کئی صوبوں، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں ایک اہم عوامی صحت کا مسئلہ ہے۔ اپریل 2025 میں سندھ میں رواں برس اب تک ملیریا کے 28,002 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں ملیریا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اور بلوچستان میں بھی ملیریا نے تشویشناک صورتحال پیدا کردی ہے۔ جنوری سے 7 مارچ 2025 تک سندھ بھر میں ملیریا کے کل 5,437 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے کراچی میں 117 کیسز سامنے آئے۔
وزارت قومی صحت میں ڈائریکٹوریٹ آف ملیریا کنٹرول 2010 تک ملیریا کے بوجھ میں 50 فیصد کمی اور 2015 تک ہائی رسک آبادی کے 70 فیصد کو ملیریا سے بچاؤ اور علاج تک رسائی دینے کے لیے کوشاں ہے۔ ان پروگرامز کے باوجود کیسز کی بڑی تعداد اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ بیماری اب بھی ایک مستقل چیلنج ہے، جس کے لیے مچھروں کے کنٹرول، تشخیص، اور علاج کے مربوط اقدامات کی مسلسل ضرورت ہے۔ ملیریا کے خلاف جاری جدوجہد پاکستان کے بنیادی صحت کے ڈھانچے، نگرانی، اور کمیونٹی کی سطح پر مداخلتوں میں موجود خامیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور شہری آبادی میں اضافہ ویکٹر کنٹرول کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر سکتے ہیں، جس کے لیے عوامی صحت کی حکمت عملیوں میں موافقت کی ضرورت ہے۔
3.7. موٹاپا اور ذیابیطس (Obesity and Diabetes)
موٹاپا اور ذیابیطس پاکستان میں ایک بڑا اور بڑھتا ہوا صحت کا بحران ہیں، جس کے سنگین معاشی اور سماجی اثرات ہیں۔ ماہرین کے مطابق، موٹاپے سے ملکی معیشت کو سالانہ 950 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، جس کی وجہ علاج معالجے پر بڑھتا ہوا خرچ، ملازمتوں سے غیر حاضری، کام کی پیداوار میں کمی اور وقت سے پہلے اموات ہیں۔ پاکستان میں ٹائپ 2 ذیابیطس کی شرح عالمی سطح پر تیسری سب سے زیادہ ہے، جو چین اور بھارت کے بعد آتی ہے، جس سے یہ ایک اہم عوامی صحت کا بحران بن جاتی ہے۔ ذیابیطس کی نئی قسم ٹائپ 5 بھی دریافت ہوئی ہے، جو موٹاپے سے نہیں بلکہ غذائیت کی کمی سے ہوتی ہے۔
موٹاپے کا معیشت پر براہ راست مالی اثر اسے صرف ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی ترقیاتی چیلنج بناتا ہے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس کی بلند شرح اور اس کے بنیادی اسباب (غذائی عادات، جسمانی غیر فعالیت، موٹاپا) ظاہر کرتے ہیں کہ یہ طرز زندگی سے متعلق ایک وبائی بیماری ہے جس کے لیے وسیع پیمانے پر عوامی آگاہی اور طرز زندگی میں تبدیلی کی مہمات کی ضرورت ہے۔ یہ رجحان پاکستان کے بیماری کے بوجھ میں ایک تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں متعدی بیماریوں کے ساتھ ساتھ غیر متعدی بیماریوں (NCDs) کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے۔ اس کے معاشی اثرات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ NCDs صرف انفرادی صحت کے مسائل نہیں بلکہ بڑے میکرو اکنامک چیلنجز ہیں۔ اس کے لیے عوامی صحت کی پالیسی میں ایک نئے نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو جامع NCDs کی روک تھام کی حکمت عملیوں پر مشتمل ہو، بشمول غذائی رہنما اصول، جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دینا، اور غیر صحت بخش غذائی ماحول کو منظم کرنا۔
4. دیگر اہم صحت کے مسائل اور عوامی صحت کے انتباہات
پاکستان میں مذکورہ بالا بیماریوں کے علاوہ بھی کئی دیگر صحت کے مسائل موجود ہیں جن پر عوامی صحت کے اداروں کی جانب سے توجہ دی جا رہی ہے اور انتباہات جاری کیے جا رہے ہیں۔
4.1. ڈفتھیریا (Diphtheria)
ویکسین کے ذریعے مکمل بچاؤ کے باوجود پاکستان کو خناق (ڈفتھیریا) کی ایک بڑی وبا کا سامنا ہے اور سالانہ سینکڑوں نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ستمبر میں اس میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) نے اکتوبر 2024 میں ڈفتھیریا کی منتقلی کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے ایڈوائزری جاری کی تھی۔ ڈفتھیریا کا مسلسل پھیلاؤ، باوجود اس کے کہ ایک مؤثر ویکسین دستیاب ہے، ویکسین کوریج اور عوامی صحت کے بنیادی ڈھانچے میں موجود خامیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کے پروگراموں میں اب بھی آبادی کے کچھ حصے ایسے ہیں جو ویکسین سے محروم ہیں یا جن کو کم ویکسین لگائی گئی ہے۔ اس کے لیے معمول کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگراموں کو مضبوط بنانے اور ویکسین سے متعلق ہچکچاہٹ کو دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی بیماریوں کے دوبارہ ابھرنے کو روکا جا سکے۔
4.2. منکی پاکس (Mpox)
پاکستان میں ایم پوکس کے نئے مریض کی تصدیق اگست 2024 میں ہوئی تھی۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، 2025 کے اوائل میں پاکستان ان ممالک میں شامل تھا جہاں سے متحدہ عرب امارات (UAE) میں کلیمڈ Ib ایم پوکس کے درآمد شدہ کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جو متحدہ عرب امارات میں وائرس کی غیر شناخت شدہ منتقلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ NIH نے غیر مقامی ممالک میں بے مثال ملٹی کنٹری ایم پوکس کے پھیلاؤ پر ایڈوائزری جاری کی تھی۔ ایم پوکس کے کیسز کی تصدیق اور بین الاقوامی پھیلاؤ میں پاکستان کا ذکر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان عالمی متعدی بیماریوں کے رجحانات سے الگ تھلگ نہیں ہے۔ یہ صورتحال مضبوط بین الاقوامی صحت کے ضوابط، فوری تشخیصی صلاحیتوں، اور عوامی صحت کے نگرانی کے نظام کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے تاکہ ابھرتے ہوئے عالمی خطرات کی نگرانی اور ان پر قابو پایا جا سکے۔
4.3. انفلوئنزا اور دیگر سانس کی بیماریاں (Influenza and Other Respiratory Illnesses)
پاکستان میں ہر دوسرا گھر نزلہ، زکام، اور بخار کی لپیٹ میں ہے، جو عام سانس کی بیماریوں کے وسیع اور مسلسل بوجھ کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ یہ بیماریاں انفرادی طور پر اکثر جان لیوا نہیں ہوتیں، لیکن مجموعی طور پر یہ نمایاں بیماری اور پیداواری صلاحیت کے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ NIH نے انفلوئنزا اور دیگر سانس کے انفیکشنز کی روک تھام کے لیے ٹریول ایڈوائزری جاری کی تھی۔ یہ صورتحال حفظان صحت، موسمی ویکسینیشن (فلو کے لیے)، اور مناسب طبی امداد حاصل کرنے کے بارے میں مسلسل عوامی صحت کی تعلیم کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے، خاص طور پر کمزور آبادیوں میں۔
4.4. ذہنی صحت (Mental Health)
پاکستان میں ذہنی صحت ایک خاموش بحران ہے جس پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ ہر روز 53 افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔ افسوسناک طور پر، ذہنی بیماریوں کو عام طور پر بیماری نہیں سمجھا جاتا اور ان کے علاج پر توجہ نہیں دی جاتی۔ تاہم، گوگل ٹرینڈز کے مطابق، COVID-19 وبائی مرض کے دوران “میڈیٹیشن” (مراقبہ) کی سرچ میں 56% اضافہ ہوا، جو ذہنی صحت اور فلاح و بہبود میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ خودکشی کی بلند شرح اور ذہنی بیماریوں کو بیماری نہ سمجھنے کا سماجی رجحان ایک گہرے عوامی صحت کے بحران کو ظاہر کرتا ہے جو بدنامی اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے۔ اس کے لیے ذہنی بیماریوں سے وابستہ بدنامی کو ختم کرنے، ذہنی صحت کی تعلیم کو فروغ دینے، اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر عوامی آگاہی مہمات کی فوری ضرورت ہے۔
4.5. دل کے امراض اور دیگر دائمی بیماریاں (Cardiovascular Diseases and Other Chronic Illnesses)
نیند کی کمی دل کی صحت پر توقع سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے، اور نصف شب کو نیند سے جاگنا ہارٹ فیل اور دیگر خطرات کا باعث ہو سکتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس سے مردوں میں اموات کے امکانات خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (AFIC) راولپنڈی میں ایک بڑا کارڈیک ہیلتھ کیئر انسٹی ٹیوٹ ہے جو دل کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے اور 1981 سے تمام پاکستانی شہریوں کو خدمات فراہم کر رہا ہے۔ یہ صورتحال دائمی، طرز زندگی سے متعلق بیماریوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ صحت عامہ کی مداخلتوں کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے جو صحت مند طرز زندگی، ابتدائی اسکریننگ، اور دائمی بیماریوں کے انتظام پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ یہ بیماریاں، اگرچہ روایتی معنوں میں “وبائی” نہیں ہیں، لیکن طویل مدتی، اہم صحت چیلنجز کی نمائندگی کرتی ہیں اور متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کی جانب سے ان کے بارے میں مسلسل تلاش کی جاتی ہے۔
4.6. نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کی جانب سے جاری کردہ حالیہ ایڈوائزریز
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) پاکستان میں بیماریوں کی نگرانی اور عوامی صحت کے انتباہات کے لیے ایک اہم ادارہ ہے۔ NIH باقاعدگی سے مختلف عوامی صحت کے خدشات پر ایڈوائزریز جاری کرتا ہے، جو ملک میں موجودہ اور متوقع بیماریوں کے خطرات کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ٹیبل 3: نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کی حالیہ عوامی صحت کی ایڈوائزریز (2024-2025)
تاریخ (مہینہ/سال) | بیماری / صحت کا مسئلہ | ایڈوائزری کا موضوع |
اپریل 2025 | ہیٹ اسٹروک، CCHF | ہیٹ اسٹروک اور کریمیئن کانگو ہیمرجک فیور کی روک تھام اور علاج |
مارچ 2025 | ڈینگی فیور | ڈینگی فیور |
دسمبر 2024 | سموگ | سموگ سے تحفظ اور احتیاطی تدابیر |
اکتوبر 2024 | ڈفتھیریا، ڈینگی فیور | ڈفتھیریا اور ڈینگی فیور کی روک تھام اور کنٹرول |
ستمبر 2024 | چکن گونیا | چکن گونیا کی روک تھام اور کنٹرول |
جون 2024 | خسرہ، شدید پانی والا اسہال (ہیضہ)، پرائمری امیوبک میننگو اینسفیلائٹس (PAM) | خسرہ، شدید پانی والے اسہال (ہیضہ)، اور PAM کی روک تھام اور کنٹرول |
2024 (غیر متعین) | ایم پوکس، ٹائیفائیڈ فیور، پرٹیوسس | غیر مقامی ممالک میں بے مثال ملٹی کنٹری ایم پوکس کا پھیلاؤ، ٹائیفائیڈ فیور (بشمول XDR ٹائیفائیڈ)، اور پرٹیوسس کی روک تھام اور علاج |
جنوری 2024 | انفلوئنزا، COVID-19 (JN.1 سب-ویرینٹ) | انفلوئنزا اور دیگر سانس کے انفیکشنز کی روک تھام کے لیے ٹریول ایڈوائزری، COVID-19 کے JN.1 سب-ویرینٹ کی روک تھام اور کنٹرول |
حالیہ (غیر متعین) | لیپٹوسپائروسس، موسمی انفلوئنزا، نیپا وائرس، آشوب چشم، ماربرگ وائرل ڈیزیز | انسانی لیپٹوسپائروسس، موسمی انفلوئنزا، نیپا وائرس انفیکشن، آشوب چشم، اور ماربرگ وائرل ڈیزیز کی روک تھام اور کنٹرول |
Export to Sheets
ماخذ: نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) ایڈوائزریز
NIH کی جانب سے جاری کردہ ان ایڈوائزریز کی وسیع رینج اور حالیہ نوعیت (کئی اپریل/مارچ 2025 سے) ایک فعال عوامی صحت کے نگرانی کے نظام کی نشاندہی کرتی ہے جو موسمی اور ابھرتے ہوئے خطرات کا اندازہ لگاتا ہے اور ان کا جواب دیتا ہے۔ یہ ایڈوائزریز ان بیماریوں کی عکاسی کرتی ہیں جو یا تو فی الحال پھیلی ہوئی ہیں یا جن کے پھیلنے کا امکان ہے، اس طرح وہ عوامی توجہ اور ممکنہ طور پر سرچ سرگرمی کا باعث بنتی ہیں۔ ان کی موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ مخصوص بیماریاں صحت کے حکام کے ریڈار پر ہیں، جو عوامی تشویش اور سرچ دلچسپی کی اسی سطح کو ظاہر کرتی ہیں۔
5. حکومتی اور ادارہ جاتی اقدامات اور چیلنجز
5.1. وزارت قومی صحت خدمات، ضوابط و رابطہ اور NIH کا کردار
پاکستان میں صحت کے شعبے کی نگرانی وزارت قومی صحت خدمات، ضوابط و رابطہ کرتی ہے، جو پالیسی سازی، ضوابط اور رابطہ کاری کا ذمہ دار اعلیٰ محکمہ ہے۔ اس وزارت کے تحت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) ایک خود مختار ادارہ ہے جو بنیادی طور پر ویکسین کی تیاری، حیاتیاتی اور صحت سے متعلق تحقیق، بیماریوں کی نگرانی، اور عوامی صحت کے انتباہات جاری کرنے کا ذمہ دار ہے۔
NIH مختلف اہم عوامی صحت کے پروگراموں میں شامل ہے، جن میں ملیریا کنٹرول پروگرام، قومی تپ دق (TB) کنٹرول پروگرام، اور توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات (EPI) شامل ہیں۔ EPI کا مقصد بچوں کو بچپن کی تپ دق، پولیو، خناق، پرٹیوسس، خسرہ، اور تشنج کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگانا ہے۔ اس کے علاوہ، NIH قومی ماں، نوزائیدہ اور بچے کی صحت (MNCH) پروگرام اور ہیپاٹائٹس کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے قومی پروگرام بھی چلاتا ہے۔ یہ مرکزی نظام صحت کے بحرانوں پر مربوط قومی ردعمل کی اجازت دیتا ہے۔ ان پروگراموں کا وجود اور ان کی طویل مدتی نوعیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جن بیماریوں کا وہ علاج کرتے ہیں (جیسے ملیریا، ٹی بی، پولیو، خسرہ، ڈفتھیریا) وہ مسلسل چیلنجز ہیں جن کے لیے مسلسل حکومتی توجہ اور وسائل کی تخصیص کی ضرورت ہے، اس طرح وہ عوامی تشویش کے لیے متعلقہ رہتے ہیں۔
5.2. عوامی صحت کے نظام میں موجود چیلنجز
پاکستان میں عوامی صحت کا نظام کئی چیلنجز کا شکار ہے جو اس کی مطلوبہ معیار سے کم کارکردگی کا باعث بنتے ہیں۔ ان چیلنجز میں بھرتی کے عمل میں حکومتی اور ادارہ جاتی اثرات، دیر سے ہونے والی بھرتیاں، اور عوامی نظام میں احتساب کی کمی شامل ہے۔ یہ نظامی کمزوریاں، جیسے کہ ڈاکٹروں کی ناکافی تعداد (ہر سال 9000 ڈاکٹر اور 2000 ڈینٹسٹ فارغ التحصیل ہوتے ہیں، لیکن عوامی صحت کا نظام صرف بیرونی مریضوں کی خدمات فراہم کرتا ہے جو مطلوبہ معیار سے کم ہیں )، صحت کی خدمات کی فراہمی اور بیماریوں پر قابو پانے کی کوششوں کو کمزور کر سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر، پولیو اور خسرہ جیسی بیماریوں کے پھیلاؤ میں ویکسین سے متعلق تحفظات اور سیکیورٹی چیلنجز کے ساتھ ساتھ والدین کی لاپرواہی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ صرف طبی مداخلتیں کافی نہیں ہیں؛ بلکہ سماجی، انتظامی، اور سیکیورٹی چیلنجز کو بھی حل کرنا ضروری ہے۔ یہ بنیادی مسائل طویل مدتی عوامی صحت کے نتائج میں بہتری کے لیے اہم ہیں۔ عوامی سرچ کا رویہ بھی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی اور معیار کے بارے میں مایوسی کی عکاسی کر سکتا ہے، جو بالواسطہ طور پر ان نظامی مسائل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
6. نتائج اور سفارشات
6.1. اہم نتائج کا خلاصہ اور عوامی دلچسپی کی بیماریوں کی نشاندہی
دستیاب اعداد و شمار اور حالیہ خبروں کے تجزیے کی بنیاد پر، مئی 2025 میں پاکستان میں عوامی دلچسپی اور صحت عامہ کے مباحث میں سب سے زیادہ نمایاں بیماریاں پولیو، خسرہ، ڈینگی، اور گرمی سے متعلق بیماریاں (بشمول اسہال) ہیں۔ ان کی نمایاں موجودگی حالیہ خبروں، سرکاری انتباہات، اور جاری قومی مہمات سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ بیماریاں فوری عوامی صحت کے خطرات کی نمائندگی کرتی ہیں جن کے لیے فوری اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ، موٹاپا اور ٹائپ 2 ذیابیطس ایک طویل مدتی اور بڑھتا ہوا صحت کا بحران ہیں جو ملکی معیشت پر بھی گہرا اثر ڈال رہے ہیں۔ یہ غیر متعدی بیماریاں طرز زندگی کے عوامل سے گہرا تعلق رکھتی ہیں اور ان کے لیے وسیع پیمانے پر عوامی آگاہی اور طرز زندگی میں تبدیلی کی مہمات کی ضرورت ہے۔
دیگر اہم بیماریاں جن پر توجہ دی جا رہی ہے ان میں ملیریا، کورونا وائرس، ڈفتھیریا، منکی پاکس، انفلوئنزا، اور ذہنی صحت کے مسائل شامل ہیں۔ پاکستان کا صحت کا نظام متعدی اور غیر متعدی دونوں بیماریوں کے دوہرے بوجھ کا سامنا کر رہا ہے، جو ایک پیچیدہ وبائی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوامی صحت کی حکمت عملیوں کو جامع ہونا چاہیے، جو متعدی بیماریوں کے فوری پھیلاؤ اور طویل مدتی غیر متعدی بیماریوں کی روک تھام اور انتظام دونوں کو حل کریں۔ اس دوہرے چیلنج کے لیے متنوع وسائل کی تخصیص اور پالیسی مداخلتوں کی ضرورت ہے۔
6.2. مستقبل کی حکمت عملیوں اور عوامی آگاہی مہمات کے لیے سفارشات
عوامی صحت کے چیلنجز سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے درج ذیل سفارشات پیش کی جاتی ہیں:
- ڈیٹا اکٹھا کرنے میں بہتری: عوامی دلچسپی کا زیادہ درست اندازہ لگانے کے لیے گوگل ٹرینڈز سے براہ راست بیماریوں کی سرچ رینکنگ کے اعداد و شمار تک رسائی حاصل کرنے کی کوششیں کی جائیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) یا وزارت صحت کو گوگل جیسے پلیٹ فارمز کے ساتھ تعاون پر غور کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کے لیے گمنام، مجموعی صحت سرچ ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جا سکے۔
- موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق صحت کے خطرات پر توجہ: گرمی کی لہروں اور بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلیوں کے پیش نظر، موسمی بیماریوں (جیسے اسہال، ڈینگی، ہیٹ اسٹروک) کی روک تھام کے لیے پیشگی اقدامات اور عوامی آگاہی مہمات کو مضبوط کیا جائے۔ اس میں موسمیاتی لچک کو فروغ دینے والی حکمت عملیوں کو شامل کرنا چاہیے، جیسے کہ بہتر شہری منصوبہ بندی اور ہنگامی ردعمل کے نظام۔
- ویکسینیشن کوریج میں اضافہ: خسرہ اور ڈفتھیریا جیسی ویکسین سے بچاؤ کے قابل بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حفاظتی ٹیکوں کی شرح میں اضافہ کیا جائے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کوریج کم ہے۔ کمیونٹی کی سطح پر ویکسین سے متعلق غلط فہمیوں اور افواہوں کو دور کرنے کے لیے مؤثر آگاہی مہمات چلائی جائیں، جیسا کہ پولیو کے تناظر میں بھی ضروری ہے۔
- پانی، صفائی اور حفظان صحت (WASH) کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا: اسہال اور دیگر پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام کے لیے پینے کے صاف پانی تک رسائی اور صفائی کے معیارات کو بہتر بنایا جائے۔ یہ بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری اور عوامی تعلیم دونوں کا مطالبہ کرتا ہے۔
- دائمی بیماریوں پر قومی توجہ: موٹاپا، ذیابیطس، اور دل کے امراض جیسے دائمی بیماریوں کو قومی صحت کے ایجنڈے میں ترجیح دی جائے۔ اس میں طرز زندگی میں تبدیلیوں، صحت مند خوراک، اور جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر زور دیا جائے۔ عوامی صحت کے پروگراموں کو اس بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کے لیے NCDs کی روک تھام اور انتظام پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
- ذہنی صحت کی آگاہی اور رسائی: ذہنی صحت کے مسائل کو بیماری تسلیم کرنے اور ان کے علاج تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ ذہنی بیماریوں سے وابستہ بدنامی کو ختم کیا جا سکے۔ ذہنی صحت کی خدمات کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں ضم کیا جانا چاہیے۔
- مستقبل کی وبائی امراض کی تیاری: NIH کی جانب سے بڑے اجتماعات اور صحت کے خطرات کے لیے تیاری کی مشقیں ایک مثبت قدم ہیں؛ انہیں مزید مضبوط کیا جائے اور عالمی صحت کے خطرات (جیسے ایم پوکس) کی نگرانی کو جاری رکھا جائے۔ ایک مضبوط نگرانی اور ردعمل کا نظام ابھرتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔