
غدد و جگر كى مشينى (عضوي) تحريك غدى اعصابي
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
غد دو جگر کی غدی تحریک میں جگر وغدد اپنی خلط صفراء پیدا بھی کرتا ہے اور فالتو خلط کا اخراج بھی کرتا ہے۔ اس کی خاص علامات جب رطوبات میں تعفن پیدا نہ ہوا ہو یہ ہوتی ہیں کہ اگر اخراجی صورت اعتدال پر رہے تو یہ باعث تندرستی ہوتی ہے۔ غد دو جگر کی کیمیاوی تحریک میں جگر صفراوی مادہ خوب پیدا کرتا ہے ، مگر اس کا اخراج صحیح طور پر نہیں ہو پاتا، جس کے باعث خون کی کیفیت میں گرمی خشکی کے عناصر بڑھ جاتے ہیں اور غلبہ صفراء کے باعث مختلف علامات پید اہوتی ہیں جس میں جسم کارنگ پیلا ہو جاتا ہے اور یر قان ، پیچش، خصتیہ الرحم کی سوزش وغیرہ کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔
مگر جب جگر کی مشینی تحریک پیدا ہوتی ہے یا پیدا کی جاتی ہے تو صفراوی مادہ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ خارج بھی ہونے لگتا ہے، مشینی تحریک سے عضو کے اندر شدید انقباض پیدا ہوتا ہے، جس کے باعث رکا ہو اصفراء خارج ہونے لگتا ہے، اور پھولا ہوا جگر اپنے حجم پر دوبارہ آجاتا ہے۔ مشینی تحریک سے جگر وغدد میں سیکٹر و انقباض کے سبب شدید تکلیف ہوتی ہے، جو نا قابل برداشت ہوتی ہے
تحريك كا فلسفه
اس کیفیت میں صفراء پیدا بھی ہوتا ہے اور اس کا اخراج بھی ہوتا ہے اور اس کے اخراج کے ناطے سے گزشتہ طور میں درج تمام علامات نیست و نابود ہو جاتی ہیں مگر جب یہ کیفیت (گرم) مزید ارتقاء کو پہنچتی ہے تو اپنی کیفیت سے نئے امراض کے مقامات وسلاسل قائم کرتی ہے۔
مثلاً چھپا کی ، ماشری (چہرے کا خونی درم)، صفراوی قے ش سوزش رحم، خروج رحم، سوزش امعاء، غدی دمہ ، پیشاب کا جل کر آنا، جگر، درد جگر ، سوزش جگر ، سوزاک و غیره
یادر ہے کہ غدد جاذبہ کی تیزی سے جب صفراوی مادہ انتہائی شکل اختیار کرتا ہے تو غددنا قلہ کا فعل تیز ہو جاتا ہے اور غدد جاذبہ کی کمزوری سے صفراء مشینی طور پر خارج ہونے لگتا ہے۔ اس سے دوسرے اعضاء بھی متاثر ہوتے ہیں مثلاً ارادی عضلات میں تحلیل وضعف اور حکم رساں اعصاب میں تسکین پید اہو جاتی ہے۔
اس تحریک کا مقام بائیں طرف کا شانہ بایاں بازوسینہ کی بائیں طرف کا پھیپھڑہ اور معدہ کی بائیں طرف شامل ہے یعنی بائیں طرف کے شانہ سے طحال تک کے اعضاء اس میں شامل ہیں۔ جب ان مقامات اعضاء میں کسی ایک میں تیزی، درد، جلن، سوزش ہو گی تو امراض و علامات کو غدی اعصابی مقام مرض کہا جائے گا۔ پہلے پہل ان مقامات پر کسی جگہ علامات کا اظہار ہوتا ہے جو بعد میں پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔
خلیاتی لحاظ سے اس مقام کی ابتداء غد دو جگر یاغدی خلیات سے شمار کی جائے گی، مگر بعد میں اس کا تعلق اعصابی خلیات سے بھی ہو جاتا ہے، اس لئے اس کا نام غدی اعصابی تحریک رکھا گیا ہے۔
مشینی فعل میں تبدیلیاں
سابقہ تحریک کیمیاوی تھی جس کے ناطہ سے صفراء خون میں جمع رہتا تھا مگر اس تحریک و کیفیت میں صفراوی مادہ اپنے مجاری سے جاری ہو جاتا ہے اس لئے اس تحریک و کیفیت کو فاعلی یا مشینی حالت کہتے ہیں اس تحریک میں کیمیاوی امراض مثلاً پیچش و غیر ہ بہت جلد ختم ہو جاتے ہیں یادر ہے کہ اس تحریک میں اگر کبھی ارتقائی کیفیت سے صفراوی ادرار کی شدت ہو جائے تو اسے اعصابی ادویہ اغذیہ سے روکا جاسکتا ہے۔
اس تحریک کے اثرات زیادہ تر بائیں طرف کا مثانہ ، بائیں بازو، سینہ کی بائیں طرف، بائیاں پھیپھڑہ، اور معدہ کی بائیں طرف شامل ہے۔ گویا مثانہ سے طحال تک کے بائیں طرف کے اعضاء اس میں شامل ہیں۔ مگر طحال اس میں شامل نہیں۔ اگر ان مقامات پر کہیں تحریک کی علامات مثلاً تیزی، سوزش، جلن، درد، وغیرہ ہو تو ان امراض و علامات کو مقام کے لحاظ سے غدی اعصابی امراض و علامات کہیں گے۔ مشینی تحریک سے عضوا اپنے اندر جمع شدہ خط کو خارج کرتا ہے۔ جو اس میں زائد جمع ہو چکی تھی۔
یادر ہے کہ جب مشینی تحریک سے غدد سے رطوبت صفراوی خارج ہوتی ہیں تو تحلیل سے قلب و عضلات جس کے خادم ارادی عضلات اور غیر ارادی عضلات ہیں ان میں ضعف پیدا ہو جاتا ہے، جس سے وہ اپنے فعل میں کمزور ہو جاتے ہیں۔
دماغ و اعصاب میں سر در طوبات کی کثرت کی وجہ سے سکون ہو جاتا ہے، جس سے انسان کی عقل و شعور میں کمی آجاتی ہے، اگر رطوبات کا اجتماع زیادہ ہو جائے گا تو اس کی وجہ سے جو سکون پیدا ہوتا ہے اس سے اعصاب میں پھیلاؤ پیدا ہو جاتا ہے، جسے تسکین کے نام سے پکارتے ہیں جس مقام پر تحریک رکتی ہے۔ وہاں سکون ہو کر وہاں مرض پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر اس تحریک کو جاری کر دیا جائے یعنی تسکین کے مقام پر تحریک پیدا کر دی جائے تو تحریک والے مقام پر گرمی سے فاسد مادوں کی تحلیل ہو کر مرض ختم ہو جائے گا یہ اصولی اور آٹو میٹک طریقہ علاج ہو گا۔
نبض كى حالت
چونکہ نبض جانچنے کے لئے انگلیاں ہی مقرر کی گئی ہیں لہذا نبض پر اپنی انگلیاں رکھ کر دبائیں اگر

نبض کا قرع وسط میں ہو لیکن اس کار جوع اوپر کی طرف نہ ہو تو گرم تر مزاج پر دلالت کرے گی علامات دموی ہوں گی یہ نبض غدی اعصابی ہوگی یہ گرم تر امراض و علامات غلبہ صفراء کے ساتھ تیزی وحدت بلکہ ارتقاء تحریک کے ساتھ جرول (جلون) سے سوزش ورم بخار وزخم اور تفرق اتصال تک علامات ہو سکتی ہیں۔
یادر ہے کہ نبض اگر چار انگلیوں یا اس سے بھی تجاوز کرنے اس کا مطلب ہے کہ جسم میں حرارت بدستور بڑھ رہی ہے، لیکن نبض میں شرف برائے نام ہو گا، اس صورت میں متفقہ علامات میں شدت ہو گی، غدی حرارت کی وجہ سے نبض طوالت لئے ہوئے ہے ، جب سوداوی مادے کا ادرار مکمل ہو جاتا ہے تو نبض باریک ہو جاتی ہے ، سوداوی رطوبات بالکل بند ہو جاتی ہیں، اور سودا کی رہی سہی رطوبات بھی خشک ہو جاتی ہیں جس سے عضلاتی تحلیل ہو کر عضلاتی ضعف بھی ہو جاتا ہے، جب نبض بنصر اور درمیانی انگلی کے وسط میں قرع دے تو یقینی طور پر یہ سوزا کی زہر

والی نبض ہوا کرتی ہے، اس میں پیشاب کی جلن و درد کا پایا جانا لازمی ہے۔
جگر و غدد کا کام جسم میں صفراء پیدا کرنا ہے ، بھوک کے وقت صفراء جگر سے نکل کر مرارہ ( پستہ) میں جمع ہوتا ہے، پھر ہضم کے وقت پتہ سے نکل کر چھوٹی آنت میں دوبارہ انگشتی آنت میں گرتا ہے، پھر آنتوں کے عمل میں مدد دیتا ہے، صفراء غذا کی چکناہٹ کو گھول کر ان کا پتلا شیرہ بنادیتا ہے ، صفراء آنتوں کی حرکت کو تیز کر کے غذا کو آگے سرکنے میں مدد دیتا ہے۔
اگر تحریک اعتدال پر رہے تو یہ حرارت غریزہ اور رطوبت غریزہ کے اعتدال کا بہترین امتزاج ہے انسانی چہرہ نورالانور ہوتا ہے، غددنا قلہ کا فعل اپنے اعتدال پر ہوتا ہے، اور یہ اعصاب کی مقوی صورت ہے یعنی اعصاب میں طاقت آناشروع ہو جاتی ہے ،اس تحریک کے جسم میں کیفیاتی صورت میں اثرات کے حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کا مزاج گرم تر ہے، یہ خالص خلط صفراء کی تحریک ہے، ذائقہ اس کا نمکین ہے، اس تحریک میں صفراء کا اخراج بڑھ جاتا ہے، اور نمک کی پیدائش بھی بڑھ جاتی ہے، گرمی خشکی، گرمی تری میں تبدیل ہو جاتی ہے، اور جسمانی سوزش و جلن اور بے چینی ختم ہو جاتی ہے ، صفراء پید اہو کر اس کا اخراج بھی ہو تا ہے، اور زر دیر قان، آنکھ کی گوہانجنی ، دانتوں کی چمک زائل ہو جانا، دانت ٹوٹنے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو نا، ذات الجنب یعنی پھیپھڑوں کی جھلی کا ورم ، خونی پیشاب، بچے کی پیدائش میں تکلیف، کانچ نکلنا، رحم سے خون آنا (حیض وزچگی کے علاوہ )، اسقاط حمل، ہاتھ پاؤں کی جلن، پیاس کی زیادتی، پیشاب کی جلن، سانس پھولنا، یر قان صفراوی، بخار ، حلق کی جلن، سینے کی جلن، گلے کی جلن، خفقان القلب، خسره، جلد پر سخت خارش، خفقان ضعف قلب تھر امبوس (سده شریانی)، پتھری پڑجانا، ہائی بلڈ پریشر وغیرہ علامات دم دبا کر بھاگ جاتی ہیں اور مریض تندرست ہو کر اپنی معمولی کی زندگی گزارنے لگتا ہے۔
تشخيصى علامات
اس تحریک کی ابتداء غدی انسجہ سے شروع ہوتی ہے اور اس کا تعلق کیفیاتی لحاظ سے اعصابی انسجہ سے قائم رہتا ہے گویا غدی تحریک کے تحت جسم میں غدی اور صفراوی مادہ بکثرت پیدا ہوتا ہے اور اسے اعصاب غددنا قلہ کے تحت خارج کر رہے ہوتے ہیں اور غیر ارادی عضلات میں تحلیل غدد ناقلہ میں تحریک کی شدت کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔
مزاج
جگر و غدد کی مشینی تحریک کا مزاج گرم تر ہے خون و بلغمی رطوبات کے اخراج میں وقت ہوتی ہے ، خونی پیچش، درد، مروڑ آنا، جلن ساڑ کا ہونا، بلڈ پریشر ، سانس چڑھنا، گھبراہٹ وغیر ہ علامات پیدا ہوتی ہیں۔
جگر و غدد كى مشيني (عضوي) تحريك كى غير طبعي علامات
در دسر، سرسام، نزول الماء، پتلیوں کا پھیل جانا، نزلہ، منہ کی صفراوی پھنسیاں، استر خاء السان، درد دانت اور مسوڑھوں کاورم، سوزش مری ، نگلنے میں دقت، سعال کبدی، سینہ میں جلن ، قے، شدید جلن، بلغم کے اخراج میں وقت ، غدی دمہ، ذات الجنب بائیں طرف چہرے کا خونی ورم ، شدید پیچش، مزمن پیچش، ورم امعاء، آؤں آنا، صفراوی قے ، جوع البقر، جگر کی سوزش، جگر کا درد، پیشاب کا جل کر آنا، پیشاب میں پتھری کا آنا، بائیں گردہ میں درد، مثانہ میں جلن، ضعف باہ کبدی، سرعت انزال، سوزاک، کبھی قضیب بائیں طرف، بائیں خصیہ کا سکڑنا، بائیں خصیہ کا درد، عسر الطمث ، خروج رحم ، رحم کا درد، سوزاک، لیکوریا میں جلن، خصیہ الرحم کی سوزش، کانچ نکلنا، چنونے ، ناسور ، ہر قسم کی صفراوی چھپا کی ، زردرنگ کی پیپ دار پھنسیاں، جلد کی جلن دار پھنسیاں انتڑیوں کی سوزش کا بخار ، ورم جگر کا بخار۔
قلب وعضلات كى تحليل كى تشريح
جگر و غدد میں جب خلطی و کیمیاوی تحریک مزید بڑھتی ہے تو وہ خود بخود انتقال تحریک کے قدرتی نظام کے تحت مشینی تحریک میں بدل جاتی ہے تو دورانِ خون جگر میں اور تیزی آجاتی ہے اور وہ اپنی سکریشن اور تیزی سے خون میں چھوڑتا ہے اور اس عمل سے عضلات میں ضعف وکمزوری بہت بڑھ جاتی ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عضلات کی رہی سہی رطوبات بھی خشک ہونے لگتی ہیں بلکہ ان کی پیدائش بھی رک جاتی ہے، جس سے بواسیر دموی، کثرت طمث ، جریان خون رحم، خشک کھانسی، کان سے خون آنا، خشک دمہ، پھیپھڑوں سے خون آنا وغیرہ سب ختم ہو جاتے ہیں۔
قلب وعضلات كى تحليل كى غير طبعی علامات
غدی عضلاتی تحریک میں قلب و عضلات میں شدید تحلیل ہو جاتی ہے اور عضلات پھیل جاتے ہیں۔ عضلات کے پھیلنے کو خاص طور پر ذہن نشین رکھیں کیونکہ جب عضلات میں تسکین ہوتی ہے تو وہ غبارے کی طرح پھول جاتے ہیں، اور جب تحلیل سے پھیلتے ہیں تو کسی عضو کا پھیلنا ایسا ہے جیسے پانی میں کچھ عرصہ تک گوشت کی بوٹی کو رکھ کر پکایا جائے تو وہ حرارت سے پھیل جائے گی اور کمزور ہو جائے گی۔
جب جگر و غدد کی تحریک شدید ہو گی تو قلب و عضلات میں ضعف و کمزوری ہو جائے گی، ہائی بلڈ پر یشر کی صورت پید ا ہو جائے گی، تحلیل قلب و عضلات سے دل آہستہ آہستہ حرکت کرتا ہے اور بعض اوقات رک رک کر چلنے لگتا ہے ، اور بعض اوقات رک کر موت واقع ہو جاتی ہے، جسے ڈاکٹر حضرات کا دل کا فیل ہو جانا کہتے ہیں، اور حرارت کی زیادتی سے دل کی تحلیل ہو کر اس کی کیواڑیاں بگڑ جاتی ہیں، جس کو خفقان قلب کہتے ہیں۔
کیونکہ قلب اور اس کے متعلقہ تمام عضلات میں تحلیل ہو جاتی ہے، جس سے مریض سخت گھبر اہٹ محسوس کرتا ہے ، اور چلنے پھرنے سے سانس پھولتا ہے ، اور فوراً پسینہ آجاتا ہے۔
دماغ و اعصاب كى تسكين كي تشريح
ا .دماغ و اعصاب میں تسکین اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جگر و غدد کے فعل میں تحریک کا عمل شدید شروع ہو جاتا ہے، ایسی صورت میں دورانِ خون جگر و غدد کی طرف اور زیادہ ہو جاتا ہے ، اور دماغ و اعصاب میں خون کی شدید کمی واقع ہو جاتی ہے، اور تسکین کا عمل شدید ہو جاتا ہے، مریض ذہنی طور پر شدید ستی و کمزوری کی شکایت کرتا ہے، بلکہ مریض شدید نسیان کا شکار ہو جاتا ہے ، اور عقل و شعور میں کمی آجاتی ہے۔
1: بدن میں رطوبات صالح کی شدید کمی ہو جاتی ہے یعنی ان کی پیدائش ہی رک جاتی ہے۔
2: چونکہ اعصاب میں تسکین ہے لہذا احساسات میں بھی کمی آجاتی ہے کیونکہ اعصاب احساسات کا مرکز ہیں اس لئے بعض اعضاء سونے یاسن ہونے لگتے ہیں۔
دماغ و اعصاب كى تسكين كى غير طبعی علامات
چونکہ دماغ و اعصاب میں تسکین ہوتی ہے، اس لئے مطلوبہ غذا دماغ کو نہیں پہنچتی اور مریض دماغی طور پر شدید دماغی کمزوری اور سستی محسوس کرتا، اگر دماغ کے پچھلے حصہ میں رطوبات جمع ہو کر تسکین اعصاب کی علامات پیدا کریں تو مریض بتائے گا کہ میرے دونوں ہاتھ سن ہو جاتے ہیں، اسی طرح اگر دماغ کے اگلے حصے میں رطوبات جمع ہو کر تسکین ستی یا تخدیر پیدا کر رہی ہوں تو یہ تسکین اعصاب کی علامات ہوں گی، اگر اعصاب تسکین کی وجہ سے اعضاء تناسل کی استاد گی کم ہو جائے تو اس کو طرح تشخیص کریں گے کہ استادگی کی کمی کے ساتھ
خواہش جماع بھی کم یا بالکل نہیں ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
كتابيات
سوزش اورام : از حکیم دوست محمد صابر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ
اسرار نبض حکیم یاسین دنیا پوری رحمتہ اللہ علیہ
تمت بالخير
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔