
تحریک کے درجات
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہدمیو
جرول
مفرد عضو کے خلیات کی کار بن خارج کرنے کی قوت ” قوت مدبرہ بدن خلیات کو سیکڑتی ہے اعضاء کی پھڑکن کی علامات واقع ہو جاتی ہیں اگر مفرد عضو کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو تو جسم میں ایک سرسراہٹ کی پیدا ہوتی ہے جسے پنجابی میں جرول و جلون کہتے ہیں
استاد محترم ملک خیر دین ڈوگر فرماتے ہیں کہ !
اگر مادہ کمزور ہو اور وہ اپنے اثرات سے وہی کیفیت پیدا کر سکتا ہو تو جسم میں گدگدی یا جلون کی پید اہوتی ہے۔ اگر کیفیاتی اخلاطی و کیمیاوی اثرات اور قوت مدبرہ بدن اسے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ کیفیت رفع ہو جاتی ہے اور یہ علامات یہیں ختم ہو جاتی ہیں۔

دوسر ادرجه
لذت يا سرور
اگر جرول کی یہ غیر طبعی تحریک مزید بڑھ کر سارے جسم یا جسم کے خاص حصہ میں احساس و سرور کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے جو ایک عام و قوع پذیر علامت ہے۔ اس احساس سرور کو ہر چھوٹا بڑا خاص و عام اچھی طرح جانتا اور محسوس کر لیتا ہے۔ بلکہ ایک نوازئیدہ بچہ بھی اس کا اظہار کھلے عام کرتا ہے قوت مدبره بدن جو بدن کی غیر طبعی حالت کو بدلنے میں مددگار کے طور پر کام کرتی ہے اور کیفیاتی اخلاطی و کیمیاوی اثرات جو موافق تحریک ہوتے ہیں غیر طبعی تحریک کے اثر جرول کو ختم کر دیتے ہیں۔

تیسر ادرجہ
خارش
اگر قوت مد بره بدن و کیفیاتی اخلاطی و کیمیاوی اثرات تحریک کے غیر طبیعی اثر سرور کو ختم نہ
کر سکے تو اس کا احساس ترقی کرتا ہوا

اگلے مرحلے میں اور زیادہ بڑھتا ہے تو خارش کا احساس ہوتا ہے اور ہم طبیعت کی مدد کے لیے خارش کرتے ہیں جس طرح خارش کا اظہار ایک نوزائدہ بچہ سے لیکر ایک بوڑھا آدمی تک کرتا ہے اسی طرح خارش ایک آدمی تحریک کی غیر طبیعی حالت میں شعوری و لاشعوری طور پر کرتا ہے۔ اگر کیفیاتی و اخلاطی و کیمیاوی اثرات اور قوت مدبرہ بدن جس سے ہم طبیعت کی مدد کرتے ہیں اسے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ کیفیت یہیں ختم ہو جاتی ہے اور یہ علامت بھی یہیں ختم ہو جاتی ہے۔
چوتھا درجہ

بے چینی
اگر کیفیاتی و اخلاطی و کیمیاوی اثرات اور قوت مدبرہ بدن جس سے ہم طبیعت کی مدد کرتے میں اسے ختم کرنے میں کامیاب نہ ہو تو یہ کیفیت و علامات بھی یہیں ختم نہیں ہو تیں اور مواد غیر طبعی کے زیادہ جمع ہونے سے خارش اور بھی شدید ہو جاتی ہے اور طبیعت مد برہ بدن کی تیسری کوشش بھی نہ کام ہو جاتی ہے تو پھر چوتھی علامت بے چینی شدید اضطراب کی صورت میں محسوس ہوتی ہے جب خارش زیادہ بڑھتی ہے تو بے چینی بھی زیادہ بڑھتی جاتی ہے۔

پانچواں درجہ
حبس گھٹن
اگر مفر و عضو کے خلیات اپنے اندر جمع ہونے والے غیر طبعی مودا کو اپنی قوت مدبرہ بدن سے جسم سے خارج نہ کر سکیں تو بے چینی مزید بڑھ جاتی ہے اور قوت مد برہ بد ان کی یہ کوشش بھی ناکام ہو جاتی ہے تو رطوبات میں رکاوٹ پید اہو ناشر وع ہو جاتی ہے اور مریض کو جبس یعنی گھٹن کا احساس ہوتا ہے کسی مفرد عضو میں رطوبات کی جبس بڑھتی ہے تو خون میں آکسیجن کم اور کار بن زیادہ ہونے لگتی ہے اور مفرد عضو میں سیکٹر پید اہو نا شروع ہو جاتا ہے جس دراصل گھٹن کا احساس ہے جو بے چینی کے بعد پید اہوتا ہے

اور اس کے بعد عضو کی طرف خون کا دورہ بڑھنے لگتا ہے مگر اس کا اخراج بند ہوتا ہے۔
چھٹا درجہ
سوزش
یہ گھٹن کے بعد خون کا دورہ اس طرف زیادہ بڑھتا جاتا ہے لیکن اس عضو میں رطوبات کی حبس یعنی رطوبات کی رکاوٹ بڑھتی ہے تو خون میں آکسیجن کم اور کار بن گیس زیادہ ہونے لگتی ہے تو وہاں سوزش ہو نا شروع ہو جاتی ہے اور اس عضو میں خون کی رکاوٹ ہونے لگتی ہے۔ کسی مفرد عضو میں خون کا رکنا اصل میں اس عضو میں انقباض پیدا ہوتا ہے در حقیقت یہ کسی عضو کی زندہ ساخت پر کار اس کے خلاف قوت مدبرہ بدن کی ایک منتظم مدافعانہ تدبیر ہوتی ہے۔ جب کسی عضو کی طرف خون کا دورہ بڑھے مگر اس کا اخراج بند ہو تو وہاں سوزش و جلن کا احساس ہوتا ہے سوزش کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے نسیجی و عضوی اور کیمیاوی تبدیلیوں کو جاننا ضروری ہے جو انسانی جسم میں رونما ہوتی ہے۔

سوزش میں پانچ علامات ہوتی ہیں
1 جلن جلنا ۔
2 گرمی گرمی ۔
3 سرخی۔
4 رطوبت۔
5 تبدیلی کے افعال۔
جلن جلنا
سوزش کے معنی جلن کے ہیں اور یہ سوزش کی ایک واضح علامت ہے یہاں یہ بھی یادر ہے کہ اس جلن کو التہاب کے معنوں میں نہیں بلکہ احساس و تکلیف اور الم کے معنوں میں لیا جاتا ہے در حقیقت یہ درد بھی جلن کی تیزی کی علامت ہے اس درد میں خارش بھی شامل ہوتی ہے اور جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ لذت بھی ایک قسم کی ایک ملکی خارش ہے اور یہ بھی جلن میں شمار کی جاتی ہے۔
ہر قسم کا درد صرف جلن سے پیدا نہیں ہو تا بلکہ درد کی حقیقت یہ ہے کہ مقام درم کی عرق شعر یہ میں خون حد اعتدال سے زیادہ ہو جاتا ہے تو وہاں سوزش پید ا ہو جاتی ہے جو بذات خود ایک ہلکی قسم کا درد ہے اس کی جلن ہی دوران خون کو اس طرف تیز کر دیتی ہے اور اس طرح خون کی زیادتی سے رگوں کے پر دے میں پھیلے ہوئے اعصاب تن کر دب جاتے ہیں اور درد کرنے لگتے ہیں۔
حرارت گرمی
حرارت گرمی کا احساس ہے جو کسی جسم کو چھونے سے ہوتا ہے۔ چونکہ مقام سوزش کی طرف دوران خون تیز ہوتا ہے اور وہاں خون اکٹھا ہو نا شروع ہو جاتا ہے اس لیے وہ مقام چھونے سے گرم محسوس ہوتا ہے۔
سرخی
اس کا تعلق خون سے ہوتا ہے ہم پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ مقام سوزش کی طرف اجتماع خون ہورہا ہوتا ہے اس لیے اس مقام پر سرخی لازمی ہوتی ہے جب سوزش کا ابتدائی دور ہو تا ہے تو سرخی کا رنگ شوخ گلابی ہوتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ جب دوران خون میں ستی واقع ہو جاتی ہے تو اس مقام کے رنگ میں سرخ زردی یا سرخ سیاہی آجاتی ہے جب سرخی کے ساتھ زردی نمودار ہوتی ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہاں تیزابیت کم ہو گئی ہے اور صفراء زیادہ ہو گیا ہے کیونکہ خون کی باد نسیم آکسیجن کم ہو جائے تو پھر سرخی اپنے اندر تیزابیت رکھتی ہے اور جب خون سیاہی مائل ہو جاتا ہے جو اس امر کی علامت ہے کہ وہاں کار بن بڑھ رہی ہے اور تیزابیت رفتہ رفتہ خلیات کو جلارہی ہے اور جلے ہوئے خلیات کی سیاہی مائل رنگت ظاہر ہونے لگتی ہے۔
رطوبات
یہ وہ رطوبت ہے جس کا ترشح جسم کی غذا بنتا ہے۔ یہ رطوبت طلیہ شبنم یہ رطوبت قدرتی طور پر جسم میں مختلف جگہ پر ترشح پاتی ہے اور حالت صحت میں طبعی طور پر انسان کے جسم کے اندرونی و بیرونی اعضاء پر رطوبات کا ترشح ہو تا رہتا ہے جس سے جسم کے اعضاء نرم رہتے ہیں ان رطوبات کا حاصل ترشح اعتدال کے ساتھ ہے جو صحت کے لیے بنیادی اینٹ تسلیم کی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر نزلہ کو زیادہ وسعت دیں تو مختلف اعضاء مثلا ناک، کان، آنکھ حلق کی رطوبات کی زیادتی نزلہ میں شمار ہو سکتی ہیں یونہی مخرج سے نکلنے والی رطوبات مثلاً پسینہ پیشاب اور اسہال اور تحلیل سے نکلنے والے پسینے پستان سے نکلنے والے دودھ وغیرہ کی رطوبات بھی نزلہ کی صورتیں ہیں اس طرح مردانہ یا زنانه عضوی امراض و علامات مثلاً جریان سیلان استحاضہ مذی ودی و غیرہ کو سامنے رکھا جائے تو یہ بھی نزلہ کی مختلف صورتیں ہیں جو انسانی جسم سے باہر کی طرف گرتی ہیں۔
عربی زبان میں نازل یا نزول اوپر سے نیچے آنے کو کہتے ہیں یہیں بس نہیں حضرت انسان کے اندر بھی گرنے والی مختلف رطوبات کئی قسم کی امراض و علامات بن کر سامنے آتی ہیں یہ سب کیا ہیں یہ سب کہاں سے آتی ہے یہ سب سوزش کا نتیجہ ہیں۔ جو اندرونی اعضاء میں پیدا ہو گئی ہے مثلا نزول الماء استسقاء وغیرہ یہ رطوبات ایک طرف جسم کی غذا بنتی ہیں اور دوسری طرف ان رطوبات ا سے جسم مثلاً ناک، کان، آنکھ وغیرہ میں خشکی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ بیرونی جلد اور اندرونی مجاری اور جوڑوں میں خشکی وغیرہ پیدا نہیں ہوتی بلکہ پیشاب کی نالی مقعد اور رحم میں بھی یہی رطوبات بوقت ضرورت اعتدال کے ساتھ تراوٹ رکھتی ہیں۔ جب کسی حصہ جسم یا مجراء میں سوزش پیدا ہوتی ہے تو اس کو رفع کرنے کے لیے رد عمل کے طور پر یہ رطوبات اعتدال سے زیادہ کرنے لگتی ہیں اور رطوبات کا زیادہ گرنا جسم کی ایک اہم علامت ہے مختلف مقامات کی وجہ سے ان کے نام بھی مختلف ہیں یعنی رطوبت طلیہ کی بجائے اس کو رطوبت دمویہ کا نام دیا گیا ہے۔
مثلار طوبات دمویہ سوزش یاورم پر آکر اس کی کار بن گیس اور تیزابیت کو دھو کر ہلکا کر کے جسم سے خارج کرتی ہے تو طبی زبان میں اس کو ر طوبت غلیظہ کہتے ہیں اگر یہ رطوبت آنکھ سے گیڈ بن کر ۔ ناک سے نزلہ وزکام کی صورت میں ۔ منہ سے رال یا کھنگار بنکر ۔ اور معدے میں رطوبت غلیظ کی صورت میں۔ اور انتڑیوں میں دست و اسہال کے ساتھ سفید لیس دار خارج ہو تو اس کو ڈاکٹر میوکس اور حکیم لوگ اور عوام چر بیلا مواد کہتے ہیں۔ اگر اس رطوبت غلیظ کو جلد بازی میں بند کر دیا جائے تو جسم میں اندر یا باہر لمفاوی گلٹیاں بنے لگتی ہے تو حکیم سادہ رسولی اور ڈاکٹر لائی پوما کہتے ہیں۔ کینسر ماء فی الصدر سینہ میں پانی پڑ جانا مافی الدماغ دماغ میں پانی پڑ جانا ریڑھ کی ہڈی میں پانی پڑ جانا یہ سب اندرونی سوزش اور رطوبت کی زیادتی کی مثالیں ہیں۔
یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ بذات خود امراض نہیں لیکن بعض امراض کی علامتیں ہیں ان علامات کا علاج اس مفرد اعضاء کی سوزش کو رفع کرتا ہے مگر فرنگی طب ان تمام علامات کو جدا جدا امراض سمجھتی ہے اور ان کا علیحدہ علیحدہ علاج تجویز کرتی ہے جب امراض کو ہی غلط سمجھا گیا تو ان کا علاج وہ خاک کرے گی۔ اور اگر ہماری یہ بات غلط ہو تو ہم چیلنج کرتے ہیں۔