
بور والے آٹے کے جامع طبی فوائد جدید سائنس اور طبِ یونانی کی روشنی میں
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
تعارف
گندم، تاریخ کے آغاز سے ہی انسانی تہذیبوں کے لیے ایک بنیادی غذائی ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں اربوں لوگوں کے لیے یہ توانائی اور غذائیت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ تاہم، پچھلی صدی میں صنعتی ترقی نے ہماری خوراک میں ایک خاموش مگر گہری تبدیلی پیدا کی ہے: روایتی، غذائیت سے بھرپور بور والے آٹے (Whole Wheat Flour) کی جگہ بتدریج انتہائی صاف شدہ سفید آٹے (Refined White Flour) نے لے لی ہے، جسے عام طور پر میدہ کہا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی محض ذائقے یا بناوٹ کا معاملہ نہیں، بلکہ اس کے صحت پر دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں، جو جدید دور کی دائمی بیماریوں کے پھیلاؤ میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ رپورٹ اس تبدیلی کے طبی مضمرات کا ایک جامع اور گہرائی پر مبنی تجزیہ پیش کرتی ہے۔ اس کا مقصد بور والے آٹے کی اہمیت کو دو منفرد زاویوں سے پرکھنا ہے: ایک طرف جدید میڈیکل سائنس کے ٹھوس، شواہد پر مبنی کلینیکل نتائج اور دوسری طرف طبِ یونانی کی صدیوں پرانی، целостному (holistic) حکمت۔ ان دونوں نظاموں کو یکجا کر کے، یہ رپورٹ قارئین کو بور والے آٹے کی مکمل غذائی قدر اور صحت و تندرستی کے لیے اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایک مستند

اور مکمل رہنما فراہم کرے گی۔
حصہ 1: گندم کے دانے کی ساخت: بور والے اور سفید آٹے کا فرق
بور والے آٹے اور سفید آٹے کے درمیان فرق کو سمجھنے کے لیے گندم کے دانے کی قدرتی ساخت کو جاننا ضروری ہے۔ یہی ساخت ان دونوں آٹوں کی غذائیت اور صحت پر اثرات میں زمین آسمان کا فرق پیدا کرتی ہے۔ گندم کا ہر دانہ، جسے تکنیکی طور پر کیریوپسس (caryopsis) کہا جاتا ہے، تین بنیادی حصوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔
تین بنیادی اجزاء: چوکر، جنین، اور اینڈوسپرم
چوکر (Bran): یہ دانے کا سب سے بیرونی، سخت اور کثیر تہوں والا خول ہے۔ اسے اکثر محض “کھردرا پن” سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ غذائیت کا خزانہ ہے۔ چوکر میں ناقابلِ حل فائبر (insoluble fiber) کی سب سے زیادہ مقدار پائی جاتی ہے، جو نظامِ ہضم کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس کے علاوہ، یہ بی وٹامنز (خاص طور پر نیاسین، تھایامین، اور وٹامن B6)، ضروری معدنیات جیسے آئرن، میگنیشیم، زنک، اور کاپر، اور طاقتور اینٹی آکسیڈنٹس کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ چوکر میں فائٹو کیمیکلز (Phytochemicals) بھی پائے جاتے ہیں، جو پودوں کے قدرتی مرکبات ہیں اور بیماریوں سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھئے
جنین (Germ): یہ دانے کا اندرونی حصہ اور اس کا غذائیت سے بھرپور مرکز ہے، جہاں سے نیا پودا جنم لیتا ہے۔ جنین صحت بخش چکنائیوں (healthy fats)، وٹامن ای (ایک طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ)، بی وٹامنز، اور دیگر فائٹو کیمیکلز سے مالا مال ہوتا ہے ۔ اس میں موجود چکنائی ہی وہ وجہ ہے جس کی بنا پر اسے تجارتی پراسیسنگ کے دوران نکال دیا جاتا ہے کیونکہ یہ آٹے کی شیلف لائف کو کم کرتی ہے ۔
اینڈوسپرم (Endosperm): یہ دانے کا سب سے بڑا حصہ ہے اور بنیادی طور پر نشاستہ دار کاربوہائیڈریٹس (starchy carbohydrates) اور پروٹین پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی کام جنین کو نشوونما کے لیے توانائی فراہم کرنا ہے۔ سفید آٹا یا میدہ تقریباً مکمل طور پر صرف اسی حصے پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں وٹامنز اور معدنیات کی بہت معمولی مقدار ہوتی ہے ۔
ریفائننگ کا عمل: کیا کچھ کھو جاتا ہے؟
انیسویں صدی کے آخر میں صنعتی رولر ملز (industrial roller mills) کی ایجاد نے اناج کی پراسیسنگ کا طریقہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا ۔ اس عمل میں، گندم کے دانے سے چوکر اور جنین کو جان بوجھ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے دو بڑی تجارتی وجوہات ہیں: اول، ایک ایسا آٹا تیار کرنا جو نرم، ہلکا اور ہوا دار ہو، جو بیکری کی مخصوص مصنوعات کے لیے موزوں ہو؛ اور دوم، آٹے کی شیلف لائف کو ڈرامائی طور پر بڑھانا، کیونکہ جنین میں موجود چکنائی وقت کے ساتھ خراب ہو کر آٹے کو تلخ کر سکتی ہے ۔
یہ تجارتی فوائد غذائیت کی بھاری قیمت پر حاصل کیے جاتے ہیں۔ ریفائننگ کے عمل میں گندم کے 50 فیصد سے زائد بی وٹامنز، 90 فیصد وٹامن ای، اور تقریباً تمام فائبر ضائع ہو جاتا ہے ۔ اگرچہ “فورٹیفائیڈ” یا “انرچڈ” (enriched) آٹے میں کچھ غذائی اجزاء، جیسے بی وٹامنز اور آئرن، مصنوعی طور پر واپس شامل کر دیے جاتے ہیں، لیکن بہت سے اہم اور ناقابلِ تلافی اجزاء جیسے فائبر، وٹامن ای، صحت بخش چکنائیاں، اینٹی آکسیڈنٹس اور فائٹو کیمیکلز ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جاتے ہیں ۔ لہٰذا، جدید غذا میں سفید آٹے کا غلبہ اس کی غذائی برتری کی وجہ سے نہیں، بلکہ صنعتی فوڈ پروڈکشن اور لاجسٹکس کے لیے اس کی موزونیت کی وجہ سے ہے۔ اس نے ایک ایسی بنیادی غذا کو جنم دیا ہے جو قدرتی طور پر غذائیت سے خالی ہے، اور یہی کمی ان دائمی بیماریوں کی بنیاد رکھتی ہے جن کا ذکر اگلے حصے میں کیا جائے گا۔
دو آٹوں کا موازنہ: ایک تقابلی غذائی جائزہ
بور والے آٹے اور سفید آٹے کے درمیان غذائی فرق کو اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے۔ درج ذیل جدول میں 100 گرام بور والے آٹے اور 100 گرام سفید آٹے کا موازنہ پیش کیا گیا ہے۔
جدول 1: غذائی موازنہ: بور والا آٹا بمقابلہ سفید آٹا (فی 100 گرام)
غذائی جزو | بور والا آٹا (Whole Wheat Flour) | سفید آٹا (Refined White Flour) |
غذائی ریشہ (Dietary Fiber) | 10.7 گرام | 3 گرام |
پروٹین (Protein) | 13.2 گرام | 10.7 گرام |
چکنائی (Fat) | 2.5 گرام | 1.5 گرام |
کاربوہائیڈریٹس (Carbohydrates) | 71.2 گرام | 76.3 گرام |
آئرن (Iron) | 3.6 ملی گرام | 1.2 ملی گرام (غیر فورٹیفائیڈ) |
میگنیشیم (Magnesium) | 136 ملی گرام | 22 ملی گرام |
فاسفورس (Phosphorus) | 352 ملی گرام | 108 ملی گرام |
پوٹاشیم (Potassium) | 376 ملی گرام | 107 ملی گرام |
زنک (Zinc) | 2.6 ملی گرام | 0.7 ملی گرام |
نیاسین (B3) | 5.5 ملی گرام | 0.8 ملی گرام (غیر فورٹیفائیڈ) |
گلائیسیمک انڈیکس (Glycemic Index) | ≈69 | ≈85 |
Export to Sheets
ماخذ:
یہ جدول واضح طور پر دکھاتا ہے کہ بور والا آٹا تقریباً ہر غذائی پیمانے پر سفید آٹے سے برتر ہے۔ فائبر میں تقریباً چار گنا اضافہ، پروٹین کی زیادہ مقدار، اور میگنیشیم، زنک اور آئرن جیسی اہم معدنیات کی نمایاں طور پر زیادہ موجودگی اسے ایک غذائیت سے بھرپور انتخاب بناتی ہے۔ اس کے علاوہ، گلائیسیمک انڈیکس (Glycemic Index – GI) کا فرق بھی انتہائی اہم ہے۔ گلائیسیمک انڈیکس اس بات کی پیمائش کرتا ہے کہ کوئی غذا کتنی تیزی سے خون میں شوگر کی سطح کو بڑھاتی ہے۔ بور والے آٹے کا کم GI ($ \approx 69$) اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ توانائی کو آہستہ آہستہ خارج کرتا ہے، جبکہ سفید آٹے کا زیادہ GI ($ \approx 85$) خون میں شوگر کی سطح میں تیزی سے اضافہ اور پھر کمی کا باعث بنتا ہے، جو ذیابیطس اور دیگر میٹابولک مسائل کے لیے ایک خطرے کا عنصر ہے ۔
حصہ 2: کلینیکل شواہد: بور والے آٹے کے طبی فوائد
جدید میڈیکل سائنس نے گزشتہ چند دہائیوں میں وسیع پیمانے پر تحقیق کے ذریعے بور والے آٹے (اور دیگر ثابت اناج) کے صحت پر مثبت اثرات کو ثابت کیا ہے۔ یہ فوائد کسی ایک جزو کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس “مکمل پیکیج” کا نتیجہ ہیں جو گندم کا دانہ اپنی قدرتی حالت میں فراہم کرتا ہے ۔ یہ فائبر، وٹامنز، معدنیات، صحت بخش چکنائیوں اور فائٹو کیمیکلز کا ایک ہم آہنگ امتزاج ہے جو جسم میں بیک وقت متعدد حیاتیاتی راستوں پر کام کرتا ہے۔
2.1. دل کا محافظ: قلبی صحت
قلبی امراض دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں، اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بور والے آٹے کا استعمال دل کی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ متعدد بڑی میٹا-اینالیسس (meta-analyses) مطالعات نے ثابت کیا ہے کہ ثابت اناج کے استعمال اور قلبی امراض (Cardiovascular Disease – CVD) کے خطرے کے درمیان ایک مضبوط معکوس تعلق ہے۔ روزانہ 70 سے 90 گرام ثابت اناج (تقریباً 3 سرونگز) کا استعمال قلبی امراض کے خطرے کو 21 سے 22 فیصد تک کم کر سکتا ہے، جس میں کورونری ہارٹ ڈیزیز (Coronary Heart Disease – CHD) اور فالج دونوں شامل ہیں ۔ ایک تحقیق میں یہ بھی پایا گیا کہ روزانہ 90 گرام ثابت اناج کے استعمال سے CHD کا خطرہ 19 فیصد اور فالج کا خطرہ 12 فیصد کم ہو جاتا ہے ۔
اس کے حفاظتی اثرات کے پیچھے متعدد میکانزم کارفرما ہیں:
کولیسٹرول میں کمی: بور والے آٹے میں موجود حل پذیر فائبر (soluble fiber)، خاص طور پر جو اور جئی میں پایا جاتا ہے، جسم میں “برے” کولیسٹرول (LDL) اور ٹرائی گلیسرائڈز کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے ۔ یہ فائبر آنتوں میں بائل ایسڈز (bile acids) کے دوبارہ جذب کو روکتا ہے، جس سے جگر کو نیا بائل ایسڈ بنانے کے لیے خون سے کولیسٹرول استعمال کرنا پڑتا ہے ۔
بلڈ پریشر پر کنٹرول: ثابت اناج کا استعمال بلند فشار خون (hypertension) کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوا ہے، جو دل کے دورے اور فالج کا ایک بڑا خطرہ ہے ۔
سوزش اور آکسیڈیٹیو تناؤ میں کمی: چوکر اور جنین میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس جیسے وٹامن ای، فیرولک ایسڈ، اور لگنانز جسم میں دائمی سوزش (chronic inflammation) کو کم کرتے ہیں، جو شریانوں کے سخت ہونے (atherosclerosis) کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔
خون کے لوتھڑوں سے بچاؤ: کچھ شواہد بتاتے ہیں کہ فائبر خون کے چھوٹے لوتھڑے بننے کے عمل کو روکنے میں بھی مدد کر سکتا ہے جو دل کے دورے یا فالج کا سبب بن سکتے ہیں ۔
2.2. بلڈ شوگر کا توازن: ذیابیطس سے بچاؤ اور انتظام
ٹائپ 2 ذیابیطس (Type 2 Diabetes – T2D) ایک عالمی وبا بن چکی ہے، اور بور والے آٹے کا استعمال اس سے بچاؤ اور اس کے انتظام دونوں میں انتہائی موثر ثابت ہوا ہے۔ بڑی تحقیقی مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ جو لوگ سب سے زیادہ ثابت اناج استعمال کرتے ہیں، ان میں T2D ہونے کا خطرہ 21 سے 32 فیصد تک کم ہوتا ہے ۔
ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی اس کے فوائد واضح ہیں۔ ایران میں کی گئی ایک 12 ہفتوں کی کلینیکل ٹرائل میں، T2D کے مریضوں کو روزانہ 180 گرام بور والے آٹے کی روٹی دی گئی۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ ان کے جسمانی وزن، HbA1c (تین ماہ کی اوسط شوگر)، ٹرائی گلیسرائڈز، اور کل کولیسٹرول میں نمایاں کمی واقع ہوئی ۔
اس کے میکانزم میں شامل ہیں:
گلوکوز کا سست انجذاب: بور والے آٹے میں موجود فائبر معدے میں نشاستے کو گلوکوز میں تبدیل ہونے کے عمل کو سست کر دیتا ہے۔ اس سے کھانے کے بعد خون میں شوگر کی سطح میں اچانک اور تیز اضافہ نہیں ہوتا، بلکہ توانائی بتدریج خارج ہوتی ہے ۔
انسولین کی حساسیت میں بہتری: بور والے آٹے میں موجود فائبر، فائٹو کیمیکلز، اور خاص طور پر میگنیشیم جیسی معدنیات جسم کے خلیوں کی انسولین کے لیے حساسیت کو بہتر بناتی ہیں، جس سے جسم گلوکوز کو زیادہ موثر طریقے سے استعمال کر پاتا ہے ۔
“سیکنڈ میل افیکٹ” (Second Meal Effect): کچھ ثابت اناج، جیسے جو، نہ صرف موجودہ کھانے کے بعد بلکہ اگلے کھانے کے بعد بھی بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ اثر آنتوں میں فائبر کے خمیر (fermentation) اور اس سے پیدا ہونے والے شارٹ چین فیٹی ایسڈز (SCFAs) کی وجہ سے ہو سکتا ہے ۔
2.3. نظامِ ہضم کا دوست: آنتوں کی صحت اور مائیکروبائیوم
بور والے آٹے کا سب سے مشہور فائدہ قبض سے بچاؤ ہے ، لیکن اس کے اثرات اس سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ جدید تحقیق نے آنتوں میں موجود کھربوں جرثوموں، یعنی گٹ مائیکروبائیوم (Gut Microbiome)، کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، اور بور والا آٹا اس مائیکروبائیوم کا بہترین دوست ہے۔
بور والا آٹا ایک “پری بائیوٹک” (prebiotic) کے طور پر کام کرتا ہے، یعنی یہ آنتوں میں موجود فائدہ مند بیکٹیریا کے لیے خوراک فراہم کرتا ہے ۔ مطالعات سے ثابت ہوا ہے کہ بور والے آٹے کا استعمال خاص طور پر
Bifidobacterium اور Lactobacillus جیسے فائدہ مند بیکٹیریا کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے ۔ یہ بیکٹیریا فائبر کو خمیر کر کے شارٹ چین فیٹی ایسڈز (SCFAs) بناتے ہیں، جن میں سب سے اہم بیوٹائریٹ (Butyrate) ہے۔ بیوٹائریٹ بڑی آنت کے خلیوں کے لیے بنیادی توانائی کا ذریعہ ہے، یہ آنتوں کی دیوار کو مضبوط کرتا ہے، سوزش کو کم کرتا ہے، اور بڑی آنت کے کینسر سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آنتوں کی صحت کا تعلق صرف نظامِ ہضم سے نہیں ہے۔ آنتوں کا مائیکروبائیوم ایک مرکزی ثالث (central mediator) کا کردار ادا کرتا ہے جو ایک غذائی انتخاب (بور والا آٹا کھانا) کو پورے جسم پر مرتب ہونے والے صحت کے فوائد میں تبدیل کرتا ہے۔ جب آنتوں کی دیوار مضبوط ہوتی ہے اور سوزش کم ہوتی ہے، تو نقصان دہ بیکٹیریل مرکبات (endotoxins) خون میں داخل نہیں ہو پاتے، جس سے پورے جسم میں سوزش کم ہوتی ہے۔ یہ کم سوزش براہ راست دل کی صحت کو بہتر بناتی ہے اور انسولین کی حساسیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اس طرح، آنتوں کی صحت قلبی اور میٹابولک صحت سے براہ راست منسلک ہے۔
2.4. وزن کے انتظام میں معاون
وزن کے انتظام میں بور والے آٹے کے کردار پر شواہد دلچسپ اور nuanced ہیں۔ مشاہداتی مطالعات (observational studies) میں یہ بات مسلسل سامنے آئی ہے کہ جو لوگ زیادہ ثابت اناج کھاتے ہیں ان کا باڈی ماس انڈیکس (BMI) کم ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ان کا وزن بڑھنے کا امکان بھی کم ہوتا ہے ۔ اس کے پیچھے وجوہات واضح ہیں:
سیری کا احساس (Satiety): فائبر سے بھرپور غذائیں پیٹ کو زیادہ دیر تک بھرا رکھتی ہیں، جس سے بھوک کم لگتی ہے اور مجموعی طور پر کیلوریز کا استعمال کم ہو جاتا ہے ۔
توانائی کا کم انجذاب: کچھ فائبر چکنائی اور کیلوریز کے ساتھ جڑ کر ان کے انجذاب کو کم کر دیتے ہیں، جس سے کچھ توانائی جسم سے خارج ہو جاتی ہے ۔
تاہم، مختصر مدت کی بے ترتیب کنٹرول شدہ آزمائشوں (Randomized Controlled Trials – RCTs) میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بور والے آٹے کا استعمال سفید آٹے کے مقابلے میں وزن میں کوئی خاص کمی نہیں لاتا ۔ اس تضاد سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بور والے آٹے کا کردار وزن کم کرنے والی “ڈائٹ” سے زیادہ وزن کو طویل مدتی بنیادوں پر
برقرار رکھنے اور عمر کے ساتھ بڑھنے والے وزن کو روکنے میں زیادہ اہم ہے۔ اس کا اثر چھوٹا لیکن مجموعی (cumulative) ہوتا ہے۔ روزانہ 50-100 کیلوریز کی معمولی کمی شاید 12 ہفتوں کی تحقیق میں کوئی بڑا فرق نہ دکھائے، لیکن 10 سال کے عرصے میں یہ کئی کلوگرام وزن بڑھنے سے روک سکتی ہے۔
2.5. وسیع تر حفاظتی اثرات: کینسر کا خطرہ اور اینٹی آکسیڈنٹ طاقت
بور والے آٹے کے فوائد صرف دل اور ذیابیطس تک محدود نہیں۔ بڑی مطالعات سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ثابت اناج کا زیادہ استعمال مجموعی طور پر کینسر کے خطرے اور کینسر سے ہونے والی اموات کو کم کرتا ہے ۔ یہ خاص طور پر بڑی آنت کے کینسر (colorectal cancer) کے خطرے کو کم کرنے میں انتہائی موثر ہے ۔
یہ حفاظتی اثر بڑی حد تک چوکر اور جنین میں پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹس کی وسیع رینج کی وجہ سے ہے، جن میں فینولک ایسڈز، فلیوونائڈز، لوٹین، اور زیازینتھین شامل ہیں ۔ یہ مرکبات خلیوں کو آزاد ریڈیکلز (free radicals) سے ہونے والے نقصان سے بچاتے ہیں، جو کینسر اور دیگر دائمی بیماریوں کی جڑ ہیں۔ لوٹین اور زیازینتھین خاص طور پر آنکھوں کی صحت کے لیے بھی فائدہ مند پائے گئے ہیں ۔
جدول 2: بڑی میٹا-اینالیسس مطالعات سے بور والے آٹے کے صحت پر فوائد کا خلاصہ
صحت کا نتیجہ | کلیدی دریافت | ماخذ |
قلبی امراض (Cardiovascular Disease) | روزانہ 90 گرام کے استعمال سے 22% کم خطرہ | |
کورونری ہارٹ ڈیزیز (Coronary Heart Disease) | روزانہ 90 گرام کے استعمال سے 19% کم خطرہ | |
ٹائپ 2 ذیابیطس (Type 2 Diabetes) | زیادہ استعمال کرنے والوں میں 21-32% کم خطرہ | |
بڑی آنت کا کینسر (Colorectal Cancer) | زیادہ استعمال کرنے والوں میں 17-21% کم خطرہ | |
مجموعی اموات (All-Cause Mortality) | روزانہ 90 گرام کے استعمال سے 17% کم خطرہ |
حصہ 3: روایتی نقطہ نظر: طبِ یونانی میں بور والا آٹا
جدید سائنس جہاں ٹھوس شواہد اور اعداد و شمار پر انحصار کرتی ہے، وہیں طبِ یونانی جیسی روایتی حکمت صحت اور بیماری کو ایک целостному (holistic) نقطہ نظر سے دیکھتی ہے۔ بور والے آٹے کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس روایتی زاویے کو جاننا بھی ضروری ہے۔
3.1. طبِ یونانی میں مزاج کا تصور
طبِ یونانی کی بنیاد نظریہ اخلاط و مزاج پر قائم ہے۔ اس نظریے کے مطابق، انسانی جسم چار بنیادی اخلاط (humors) سے مل کر بنا ہے: دم (خون)، بلغم، صفرا (پت)، اور سودا ۔ ہر خلط کا اپنا ایک مزاج (temperament) ہوتا ہے: دم گرم و تر، بلغم سرد و تر، صفرا گرم و خشک، اور سودا سرد و خشک۔ صحت کی حالت ان اخلاط کے توازن کا نام ہے، اور بیماری اس توازن کے بگڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ غذا (ghiza) اس توازن کو برقرار رکھنے یا بحال کرنے کا سب سے بنیادی اور اہم ذریعہ ہے ۔
3.2. گندم کے مزاج کا تعین
طبِ یونانی کی کتب میں گندم (Wheat) کو بنیادی طور پر معتدل مائل بہ گرم و تر مانا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا مزاج متوازن ہے، جس میں گرمی اور تری کی خصوصیات غالب ہیں۔ یہ درجہ بندی جدید غذائی سائنس کی روشنی میں بالکل منطقی معلوم ہوتی ہے۔ “گرم” مزاج کا تعلق توانائی کی پیداوار اور میٹابولزم سے ہے، اور گندم کاربوہائیڈریٹس کی بدولت توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ “تر” مزاج کا تعلق جسم کی تعمیر اور نشوونما سے ہے، اور گندم میں موجود پروٹین جسم کے ٹشوز کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ چونکہ بور والی گندم صالح خون (یعنی صحت مند خون یا دم) پیدا کرتی ہے، اور دم کا مزاج گرم و تر ہے، اس لیے گندم کا مزاج بھی اسی سے مطابقت رکھتا ہے۔
اس کے برعکس، سفید آٹا یا میدہ، جس سے چوکر اور جنین جیسے زندگی بخش اجزاء نکال دیے گئے ہوں، اپنا متوازن مزاج کھو دیتا ہے۔ یہ ناقص اور غیر صالح خلط پیدا کرتا ہے اور اس کا مزاج سردی اور خشکی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اس کی “خشک” خاصیت اس حقیقت سے بھی عیاں ہے کہ یہ اکثر قبض کا باعث بنتا ہے، جو آنتوں میں خشکی کی علامت ہے ۔
3.3. یونانی استعمال اور علاج بالغذا
طبِ یونانی میں بور والے آٹے کو محض غذا نہیں بلکہ غذاءِ دواء (food-medicine) کا درجہ حاصل ہے۔ اسے جسمانی کمزوری، لاغری، اور نقاہت کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جسم میں قوت پیدا کرتا ہے اور ان افراد کے لیے ایک بہترین اصلاحی غذا ہے جن کا مزاج سرد و خشک ہو۔ اس میں موجود فائبر کا کردار طبِ یونانی کے اصول “تنقیہ” (جسم سے فاسد مادوں کا اخراج) سے بھی مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ یہ آنتوں کو صاف کر کے جسم کو بیماریوں سے بچاتا ہے۔
اس طرح، طبِ یونانی کا مزاج کا تصور جدید سائنس کی زبان میں کسی غذا کے مجموعی میٹابولک اور فزیولوجیکل اثرات کا ایک معیاری (qualitative) خلاصہ ہے۔ دونوں نظام، اگرچہ مختلف زبانیں استعمال کرتے ہیں، اکثر ایک ہی حیاتیاتی حقیقت کو بیان کر رہے ہوتے ہیں۔
حصہ 4: احتیاطی تدابیر، خطرات، اور اہم نکات
بور والے آٹے کے بے شمار فوائد کے باوجود، یہ ہر کسی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ایک متوازن اور ذمہ دارانہ رپورٹ کے لیے اس کے ممکنہ خطرات اور احتیاطی پہلوؤں پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔
4.1. گلوٹن کا مسئلہ: سیلیک بیماری، گندم سے الرجی، اور نان-سیلیک حساسیت
گلوٹن (Gluten) گندم، جو اور رائی میں پایا جانے والا ایک پروٹین ہے جو کچھ افراد میں شدید طبی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ان حالات میں بور والا آٹا نقصان دہ ہے:
سیلیک بیماری (Celiac Disease): یہ ایک آٹو امیون بیماری ہے جس میں گلوٹن کا استعمال چھوٹی آنت کی اندرونی جھلی کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ ایک موروثی بیماری ہے اور اس کا واحد علاج زندگی بھر کے لیے گلوٹن سے مکمل پرہیز ہے، جس میں گندم، جو اور رائی شامل ہیں ۔
گندم سے الرجی (Wheat Allergy): یہ ایک کلاسیکی الرجی ہے جس میں جسم کا مدافعتی نظام گندم میں موجود پروٹینز کو ایک خطرہ سمجھ کر شدید ردِ عمل ظاہر کرتا ہے۔ اس کی علامات ہلکی خارش سے لے کر جان لیوا اینافیلیکسس (anaphylaxis) تک ہو سکتی ہیں۔ ان افراد کو گندم سے پرہیز کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ اکثر دیگر گلوٹن والے اناج (جو، رائی) استعمال کر سکتے ہیں ۔
نان-سیلیک گلوٹن/گندم کی حساسیت (Non-Celiac Gluten/Wheat Sensitivity – NCGWS): یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں افراد کو گندم یا گلوٹن کے استعمال سے سیلیک بیماری جیسی علامات (جیسے پیٹ میں درد، اپھارہ، تھکاوٹ، “دماغی دھند”) کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن ان کے ٹیسٹ سیلیک بیماری یا گندم کی الرجی کے لیے منفی آتے ہیں۔ گلوٹن سے پاک غذا اپنانے سے ان کی علامات ختم ہو جاتی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان افراد میں مسئلہ صرف گلوٹن کا نہیں، بلکہ گندم میں موجود دیگر مرکبات جیسے
امیلیز-ٹرپسن انہیبیٹرز (Amylase-Trypsin Inhibitors – ATIs) اور فوڈ میپس (FODMAPs) بھی ہو سکتے ہیں، جو آنتوں میں سوزش یا گیس پیدا کرتے ہیں ۔
4.2. “اینٹی نیوٹرینٹ” پر بحث: فائٹک ایسڈ اور معدنیات کا انجذاب
بور والے آٹے کے چوکر میں فائٹک ایسڈ (Phytic Acid) نامی ایک مرکب پایا جاتا ہے، جسے بعض اوقات “اینٹی نیوٹرینٹ” بھی کہا جاتا ہے۔ فائٹک ایسڈ آئرن، زنک، اور کیلشیم جیسی معدنیات کے ساتھ جڑ کر ان کے جسم میں جذب ہونے کے عمل کو روک سکتا ہے ۔
تاہم، اس مسئلے کو صحیح تناظر میں دیکھنا ضروری ہے:
تشویش: ان معاشروں میں جہاں خوراک کی کمی ہو اور غذا کا زیادہ تر انحصار اناج پر ہو، فائٹک ایسڈ معدنیات کی کمی کا باعث بن سکتا ہے ۔
متوازن نظریہ: ایک متنوع اور متوازن غذا کھانے والے افراد کے لیے یہ عام طور پر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ وہ دیگر ذرائع سے کافی معدنیات حاصل کر لیتے ہیں ۔ مزید برآں، فائٹک ایسڈ کے اپنے بھی کچھ صحت بخش فوائد ہیں، جیسے اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات اور بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد ۔
روایتی حل: دلچسپ بات یہ ہے کہ فائٹک ایسڈ کا مسئلہ بڑی حد تک ایک جدید مسئلہ ہے جو تیز رفتار فوڈ پراسیسنگ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ روایتی طریقے، جیسے آٹے کو گوندھنے سے پہلے کچھ دیر بھگونا، خمیر اٹھانا (جیسے sourdough bread میں)، یا بیجوں کو انکوریت کرنا (sprouting)، فائٹک ایسڈ کی سطح کو قدرتی طور پر بہت کم کر دیتے ہیں اور معدنیات کی دستیابی کو بڑھا دیتے ہیں ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری روایات میں گہری سائنسی حکمت پوشیدہ تھی۔
حصہ 5: بور والے آٹے کو صحت مند غذا میں شامل کرنے کے لیے عملی رہنما
بور والے آٹے کے فوائد کو جاننے کے بعد، اگلا قدم اسے اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ یہ عمل آسان اور قابلِ عمل ہو سکتا ہے۔
5.1. کتنی مقدار کافی ہے؟ غذائی رہنما اصول
دنیا بھر کے صحت کے ادارے، بشمول امریکی غذائی رہنما خطوط (Dietary Guidelines for Americans)، اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں اپنی خوراک میں شامل اناج کا کم از کم نصف حصہ ثابت اناج پر مشتمل ہونا چاہیے ۔ زیادہ تر بالغوں کے لیے، اس کا مطلب روزانہ
3 سے 5 اونس کے برابر (ounce-equivalents) ثابت اناج کا استعمال ہے ۔
اسے سمجھنا آسان ہے: ایک اونس کے برابر کا مطلب ہے:
100% بور والے آٹے کی روٹی کا 1 سلائس
آدھا کپ پکا ہوا بور والے آٹے کا پاستا یا بھورے چاول
1 کپ ثابت اناج والا سیریل
جدول 3: ثابت اناج کی روزانہ تجویز کردہ مقدار (اونس کے برابر)
عمر/جنس کا گروپ | روزانہ تجویز کردہ مقدار | عملی مثالیں |
بچے (4-8 سال) | 2 سے 3 اونس کے برابر | 1 روٹی + 1 کپ دلیہ |
نوجوان لڑکیاں (14-18 سال) | 3 سے 4 اونس کے برابر | 2 روٹی + آدھا کپ بھورے چاول |
نوجوان لڑکے (14-18 سال) | 3 سے 5 اونس کے برابر | 2 روٹی + 1 کپ ثابت اناج پاستا |
بالغ خواتین (19-59 سال) | 3 سے 3.5 اونس کے برابر | 1.5 روٹی + 1 کپ دلیہ |
بالغ مرد (19-59 سال) | 3.5 سے 5 اونس کے برابر | 2 روٹی + 1.5 کپ بھورے چاول |
Export to Sheets
ماخذ:
5.2. سپر مارکیٹ سے باورچی خانے تک: درست انتخاب
صحیح پروڈکٹ کا انتخاب کرنا پہلا قدم ہے۔ خریداری کرتے وقت ان باتوں کا خیال رکھیں:
اجزاء کی فہرست پڑھیں: ہمیشہ پروڈکٹ کے پیچھے اجزاء کی فہرست کو دیکھیں۔ پہلے جزو کے طور پر “ثابت گندم (whole wheat)” یا “ثابت اناج (whole grain)” لکھا ہونا چاہیے ۔
گمراہ کن اصطلاحات سے بچیں: “ملٹی گرین”، “وہٹ بریڈ”، “اسٹون گراؤنڈ” یا “براؤن بریڈ” جیسی اصطلاحات اس بات کی ضمانت نہیں ہیں کہ پروڈکٹ 100% ثابت اناج سے بنی ہے۔ رنگ بھی ایک قابلِ اعتماد اشارہ نہیں ہے ۔
5.3. آسان تبدیلیاں اور پکوان کی تجاویز
اپنی غذا میں بور والے آٹے کو شامل کرنا مشکل نہیں ہے۔ ان آسان تجاویز پر عمل کریں:
بتدریج آغاز کریں: اگر آپ سفید آٹے کے عادی ہیں، تو شروع میں آدھا سفید آٹا اور آدھا بور والا آٹا ملا کر روٹی، پراٹھے یا بیکنگ کی اشیاء بنائیں۔ اس سے آپ آہستہ آہستہ نئے ذائقے اور بناوٹ کے عادی ہو جائیں گے ۔
ناشتے میں تبدیلی: سفید بریڈ کے ٹوسٹ کی جگہ بور والے آٹے کی بریڈ کا ٹوسٹ استعمال کریں۔ میٹھے سیریلز کی بجائے دلیہ یا بغیر چینی والے ثابت اناج کے سیریلز کا انتخاب کریں ۔
کھانوں میں تبدیلیاں: سفید چاول کی جگہ بھورے چاول، سفید پاستا کی جگہ بور والے آٹے کا پاستا، اور پیزا کے لیے سفید آٹے کی بیس کی بجائے بور والے آٹے کی بیس استعمال کریں ۔
بیکنگ: گھر میں کیک، مفنز یا بسکٹ بناتے وقت سفید میدے کی جگہ بور والا آٹا استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف غذائیت بڑھے گی بلکہ ذائقہ بھی منفرد ہوگا ۔
اسنیکس: چپس کی بجائے پاپ کارن (جو ایک ثابت اناج ہے) کھائیں۔ بازار میں دستیاب ثابت اناج والے کریکرز کا انتخاب کریں ۔
خلاصہ: بہترین صحت کے لیے سائنس اور روایت کا امتزاج
یہ جامع تجزیہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ بور والے آٹے اور سفید آٹے کے درمیان انتخاب کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے ہماری طویل مدتی صحت پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جدید سائنس کے وسیع اور ٹھوس شواہد، جن میں لاکھوں افراد پر کی گئی دہائیوں پر محیط مطالعات شامل ہیں، اس بات کی بھرپور تائید کرتے ہیں کہ بور والے آٹے (اور دیگر ثابت اناج) کا باقاعدہ استعمال دل کی بیماریوں، ٹائپ 2 ذیابیطس، اور بعض اقسام کے کینسر جیسی بڑی دائمی بیماریوں کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کرتا ہے۔
یہ فوائد محض فائبر کی موجودگی کی وجہ سے نہیں، بلکہ گندم کے دانے میں قدرتی طور پر پائے جانے والے غذائی اجزاء کے پیچیدہ اور ہم آہنگ امتزاج کا نتیجہ ہیں، جو جسم میں بیک وقت متعدد حفاظتی میکانزم کو فعال کرتے ہیں۔ یہ سائنسی نتائج طبِ یونانی کی روایتی حکمت سے حیرت انگیز طور پر مطابقت رکھتے ہیں، جو صدیوں سے بور والے آٹے کو ایک متوازن، توانائی بخش، اور صحت کو فروغ دینے والی غذا کے طور پر تسلیم کرتی آئی ہے۔
آخر میں، بور والے آٹے کو اپنی غذا میں واپس لانا کسی نئے غذائی رجحان کی پیروی نہیں، بلکہ یہ ایک زیادہ غذائیت بخش، صحت مند، اور آباء و اجداد کے آزمودہ طریقۂ خوراک کی طرف ایک باشعور واپسی ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جس کی توثیق جدید سائنس کی سخت ترین کسوٹیوں نے بھی کی ہے اور جس کی گونج روایتی طب کی حکمت میں بھی سنائی دیتی ہے۔ بہترین صحت کے حصول کے لیے، سائنس اور روایت کا یہ امتزاج ہمیں ایک واضح اور روشن راستہ دکھاتا ہے