When should I take medicine for my daughter or son?
سوال :
بیٹی یا بیٹے کے لیےدوا کب کھائیں؟
دوائی تیسرے یا پہلے مہینے شروع کرنی چاہیے یعنی بیٹا یا بیٹی کی جنس کی بنیاد پہلے مہینے یا تیسرے مہینے رکھی جاتی ہے ؟
آجکل جینیٹک انجیئنز کے ذریعہ ٹیکے لگوا کر یا پیوند کاری کر کے پھل دار درختوں، پودوں ، سبزیوں اور جانوروں کو جلدی اور تیزی سے پروان چڑھایا جاتا ہے۔
دجال نے بھی فطری قانون کے تحت ہی لوگوں کو مارنا اور زندہ کرنا ہے۔ وہ بہت بڑا سا ئنسدان ہوگا۔
اس نے قانون فطرت کو پا لیا اور سمجھ لیا ہوگا ۔ اس کے تحت ہی وہ اپنی مرضی کے مطابق مردہ کو زندہ اور زندہ کو مردہ یا زمین سے فوری فصل اگا سکے گا۔
اسی طرح آج کل کے سائنسدانوں نے x.y کے قانون کو کچھ کچھ پالیا ہے ۔
احادیث کے مطابق نطفہ میں جان تو تیسرے مہینے ہی پڑتی ہے مگر بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب مالی اسلام نے فرما دیا یا ہے وہ حق ہے۔
وہ جس کو چاہے بیٹا دیتا ہے ،جس کو چاہتا ہے بیٹی دیتا ہے ، جس کو چاہتا ہے دونوں بیٹا بیٹی دیتا
ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ رکھتا ہے۔
یہ سب کچھ ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مگر کسی نہ کسی فطری قانون اور قاعدے کے تحت ہی ہے۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ نطفہ جب پیدا ہوتا ہے ، تو اس کے تحقیقی : خلیقی جوہر میں یہ خاصیت ودیعت
جواب :
تسخیر کائنات ہونا ہی ہے ، جیسے جیسے ہمیں قونین فطرت کا پتہ چلتا جاتا ہے ، ہم اس کی تسخیر کرتے چلے جاتے ہیں ۔
ہوتی ہے کہ بیٹا پیدا کرے گا یا بیٹی اس حقیقت کو سمجھ جنس کو بدلنے کیلئے لنے کیلئے دوائی یا کسی و لینے کے بعد جن دیگر تدابیر سے پہلے یا تیسرے مہینے کوشش کرنا دل کو تسلی واطمنان دینے والی بات ہے ۔
جس نے بھی غور و فکر اور تحقیق سے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ قانون کو پالیا ، سمجھ لیا یا اس پر اس قانون فطرت کا انکشاف ہو گیا تو وہ اس کو پالے گا اور بیٹی یا بیٹا اپنی چاہت مطابق حاصل کر سکے گا، یہی معاملہ تقدیر کا بھی ہے۔ ہر چیز کے کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہے ۔ جو کرتا ہے اللہ تعالیٰ کرتا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ کے کائنات کے لیے بنائے ہوئے فطری قوانین کے تحت ہی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے تیار کیے ہوئے قوانین فطرت میں تبدیلی بھی نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا ایمان ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو مجبور محض نہیں بنایا، اس نے انسان کو اپنی قدرت کاملہ سے کچھ اختیارات دئیے ہیں، اسی وجہ سے اسے قیامت کے دن اس کو جزاء وسزا کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر انسان کے پاس اختیار ہی نہ ہوتا تو پھر جزاء و سزاء کیسی !!
ورنہ وہ اللہ تعالیٰ سے کہے گا کہ اس سے جو گناہ یا ظلم و زیادتی یا اللہ تعالی کی نافرمانی ہوئی ، وہ اس کی تقدیر میں لکھا گیا تھا وہ مجبور محض تھا ۔
اصل میں بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علیم و بصیر و خبیر ہے ، اس کو علم و خبر ہے کہ فلاں انسان نے اپنے اختیارات کا استعمال کس طرح کرنا ہے ، فطری قوانین دین و انبیاء) کی پیروی و تابعداری میں گزارے گا، یا من مرضی اور نفسانی خواہشات کی رو میں بہہ کر نافرمانیاں ہی کرتا رہے گا۔ یا بین بین عمل کرے گا ۔ آخر موت و انجام کیسا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی علیم و خبیر کی صفت کے تحت لکھا ہوا ہے جسے تقدیر کہتے ہیں ۔
جیسے ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ حاضر ناظر ہے ۔ اللہ تعالٰی اپنی صفات ذاتیہ علیم و بصیر و خبیر سے ہر جگہ حاضر ناظر ہے اور اسی طرح اپنی صفات ربوبیت و الوہیت سے ہر کسی کو ہر جگہ رزق دینے والا اور پالنے ہر کسی کیلیئے ہر جگہ معبود والہ ہے ۔ ورنہ اللہ والا ہے۔ ہر سی۔ – تعالی تو ساتوں آسمانوں سے اوپر بلند و بالا عرش معلی پر جلوہ فرما ہے ۔ اللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ، اپنی صفاتِ کاملہ سے وہ آسمانوں ، زمینوں اور انکے درمیان تمام موجودات کے افعال و کردار کو جانتا اور تمام ضروریات کو پورا کرنے کے اسباب پیدا فرماتا رہتا ہے۔ اللہ کی ہر لمحہ ہر آن نئی شان ہے ، ہر وقت متحرک ہے ، کل یوم ہوئی شان (رحمن)