
چلے وظائف، عبادات میں پاکی کی غرض و غایت۔
سم کیا ضروری ہے کہ فتنہ محشر بھی بنوں
وجہ تخلیق جہاں ہوں یہ سزا کافی نہیں ہے
عملیات میں انسان دوسروں سے تفوق چاہتا ہے اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں، مسلمان عاملین پاکی و طہارت پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ اور ہر عمل سے پہلے طہارت لازم قرار دیتے ہیں۔ کئی کتابوں میں تو عمل سے پہلے غسل ، یا نیا وضو لازمی قرار دیتے ہیں۔ عملیات میں پاکی اتنی اہم کیوں ہے ؟ یہ بات وضاحت طلب ہے۔ کافی تلاش کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ کی کتاب فیوض الحرمین میں کچھ اشارات ملے ہیں ۔ شاہ صاحت لکھتے ہیں : جب کبھی بندہ کو نماز میں دیر ہو جاتی ہے یا اس پر ناپاکی اور کثافتوں کا ہجوم ہوتا ہے تو اس کے حواس میں طرح طرح کے رنگ اور آوازیں بھر جاتی ہیں۔ فیوض الحرمین صفحہ 134) میدان عملیات بہت حساس ہے۔ یہاں پر ہر اس چیز کی تاکید کی جاتی ہے جس سے مراد پانے میں آسانی رہے۔ جس طرح پاکیزگی فرشتوں اور نیک ارواح کے لئے کشش کا سبب ہے ایسے ہیں گندگی اور بد بو شیاطین اور خبائث کے لئے باعث کشش ہے۔
پاکی کا ایک سبب یہ بھی ہے انسانی جسم سے مسامات سے فضلات کا اخراج ہر وقت جاری رہتا ہے، اگر کسی سبب سے یہ اخراج رک جائے تو بہت گھٹن ہوتی ہے انسانی جلد کا رنگ بدل جاتا ہے۔ الرجی ، خارش۔ جلد کی سیاہی۔ اور سوئیاں چبھنا وغیرہ علامات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جن اعضاء کو وضو یا یا مخصو پاکی کے دوران دھویا جاتا ہے جیسے ہاتھ پائوں چہرہ وغیرہ یہ کھلے رہتے ہیں، بیرونی گرد و غبار پڑتا ہے بالخصوص آج کے زہر یلے دھوئیں سے بھر پور فضاء میں پاکی و طہارت کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ جب مسامات بند ہوں، تو کسی بھی لطیف چیز کا دخول و خروج مشکل ہوتا ہے۔ جب یہ حالت ہو تو باہر سے آنے والی کا سمک شعاعیں جذب کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ یوں عامل اور اس کے عمل اور ذہنی یکسوئی میں خلل پیدا ہوتا ہے، اور عملیات کی تاثیر ہونے اور اخز فوائد میں تاخیر ہوتی ہے۔ عام حالات میں بھی غسل یا وضو کرنے سے طبیعت میں ایک قسم کی فرحت و بشاشت محسوس ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کے تمام مسامات جہاں دیگر امور سے متاثر ہوتے ۔ اخذ و جذب اور اخراب کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ جب راستے مسدود ہو جائیں تو کسی بھی چیز کے اخذ وجذب میں دشواری تو ہو گی۔ اس لئے عملیات کا صاف ہو نا اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جس طرح ہم انسانوں کو میلے کے قومیتوں کا صاف ہونا کچیلے لوگوں سے طبعی کراہت ہوتی ہے ایسے ہی روحانیات بھی نفرت کرتے ہیں۔اس لئے کچھ ایسے اسباب اختیار کرنا فائدہ سے کالی نہیں ہے
جب آپ عملیاتی کتب کا مطالعہ کریں گے تو بہت سے اعمال کے ساتھ بخورات اور دھونیاں لکھی ہوئی ملتی ہیں۔ عاملین اپنے اعمال کے لئے ایسی فضاء قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں انسانی ذہن سمجھنے پر مجبور ہو جائے کہ یہاں خیر وشر کے جس قسم کے اثرات درکار ہیں پیدا ہو جائیں۔ خیر والے اعمال میں خوشبویات۔ شہر والے اعمال میں بدبودار اشیاء سلگائی جاتی ہیں۔ مذہبی و دینی لوگ پاکیزگی و طہارت پر زور دیتے ہیں۔ مشاہدہ بھی یہی ہے کہ پاکی کی حالت میں دل جمعی و نشاط عمل پیدا ہوتا ہے۔ ماہر اساتذہ کرام زندگی بھر ایسی باتیں تلاش کرتے رہتے ہیں جو حصول

مقصد میں معاونت کریں۔
عمومی طور پر کچھ لوازمات اس لئے بھی بروئے کار لائے جاتے ہیں کہ ہمارا اپنا ذہن اس بات کو قبول کرلے کہ اتنا سارا اہتمام خوامخواہ تو نہیں ضرور اس محنت و مشقت کے کچھ نہ کچھ فوائد ضرور ہو نگے جن کی تاکید کی جارہی ہے۔ نفسیاتی طور پر جو چیز جس قدر مشکل سے حاصل ہوتی ہے اس کی اہمت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ جو چیز آسانی اور معمولی قیمت کے عوض مل جائے ذہن میں اس کی اہمیت قائم نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے عمیاتی شرائط میں ان لوازمات کو اس لئے شرائط عمل کے طور پر رکھا گیا ہو کہ عمل کی اہمیت بڑھ جائے۔
دروس العملیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قاری محمد یونس شاہد میو
Page | 10