علاج بالغذاء
روزہ اور کنٹرول غذا
روزہ اسلام کا بنیادی تیسرا رکن ہے اور اسلام میں فرض مین کا درجہ رکھتا ہے ۔ ہر سال ماہ رمضان میں ایک ماہ کے روزے ہر مسلمان عاقل بالغ مرد و عورت پر فرض ہے روز و ابتداء صبح صادق سے غروب آفتاب تک ہے ۔ طبی لحاظ سے روزہ بیماری صحت اور جسم کا حافظ ہے اور یہ مضم غذا کے مکمل نظام کو چلاتا ہےاور قائم رکھتا ہے جس سے ہمارے جسم کی مکمل صفائی ہوتی ہے اور خون کیمیائی طور پر مکمل ہو جاتا ہے۔ اور تمام اعضاء کا اعتدال اور انسجہ درست ہو جاتے ہیں۔ روزہ قدرت کی طرف سے ضابطہ غذا اور ہماری جسمانی اور روحانی عبادت کا بہت براذ ریعہ ہے۔ اس پر ہر قسم کا کھانا چنا بند ہو جاتا ہے۔
انسان غذائی چیزوں کو دیکھتا ہی نہیں اسی وجہ سے اس کو غذا کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے جب سارا دن انسان کچھ نہیں کھاتا تو جسم کو انسانی ہضم کی محنت بھی نہیں کرنی پڑتی اس لئے پورے جسم میں سکون ہو جاتا ہے اور صحت بحال ہو جاتی ہے۔ اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان بیماری سے دور رہتا ہے۔ روزے سے صحت کی بحالی کے ساتھ ساتھ تقویٰ بھی حاصل ہوتا ہے۔
دیسی گھی
یہ حیوانی چیز ہے جو دودھ دہی ، دہی سے مکھن کھن سے گھی کی شکل میں ملتا ہے اس کا مزاج
گرم تر ہے اسے اگر ارحانہ ہوگا۔
بناسپتی گھی
یہ دراصل گھی نہیں ہے اور نہ ہی حیوانی روغن ہے بلکہ نباتاتی تیلوں کو مصنوعی اور بناوٹی طریقوں سے گھی کی شکل دے دی گئی ہے۔ یہ انسانی صحت کے لئے اعصابی سوزش پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے جسم میں رطوبات کی زیادتی ہو جاتی ہے، زیادہ تر یماریاں جیسے نزلہ بلغم کی زیادتی موٹا پر پیشاب کی کثرت، شوگر وغیرہ ای گئی ہے پیدا ہوتی ہے اس لئے اسکا استعمال
انسانی جسم اور صحت کیلئے انتہائی مضر ہے۔
کوکنگ آئل
یہ نباتاتی روغن ہے جو صدیوں سے مختلف طریقوں سے استعمال ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یہ روغن بیجوں سے مشینوں کے ذریعے نکالا جاتا ہے اسکو بطور گھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تیل مکمل طور پر غذائیت سے بھر پور نہیں ہوتا کیوں کہ یہ زیادہ حرارت پر مشینوں سے نکالا جاتا ہے۔
طب فرنگی
یہ طریقہ علاج عارضی ہے ۔ اس سے صرف علامات کو روکا جاتا ہے جسم کا جز آدمی سے کاٹ کر جسم سے الگ کر دیا جاتا ہے یہ حقیقی معنوں میں علاج نہیں ہے اس طریقہ علاج میں غذائیت وافادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سب مریض ہزاروں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
علاج بالمثل
یہ طریقہ علاج بھی علامات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جس کا ہومیو پیتھک ڈاکٹر کرتے ہیں اور ہومیو پیتھک یہ بھی اعتراف کرتی ہے کہ مرض کوئی حقیقت نہیں ہے یہ کتنی خوفناک بات ہے کہ اس طریقہ علاج میں بنیادی حقیقت مرض کو بھی علم نہیں کہا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا حقائق سے معلوم ہوا کہ دونوں طریقہ علاج عارضی علامتی طریقہ علاج ہیں۔
علاج بلغذا کی اہمیت و وسعت
غذا ہماری زندگی کا اہم جز ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت بحال رکھ سکتے ہیں ۔ قانون مفرد اعضاء میں غذا کی بڑی اہمیت ہے جس طرح جسم کا سارا دارو مدار خون پر ہے اور خون غذا سے بنتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندہ رہنے اور بیماریوں سے بچنے کے لئے غذا کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور مختلف امراض میں جو خلطوں کے بگاڑ سے پیدا ہوتے ہیں غذا کی تبدیلی سے رفع کئے جاسکتے ہیں ۔ فن علاج میں غذا کی اہمیت ریڑھ کی ہڈی کی حقیقت رکھتی ہے۔ حکیم انقلاب جناب دوست محمد صابر ملتانی کی تحقیق اور عمل کے مطابق علاج ہمیشہ غذا سے شروع کرنا چاہئیے تا کہ مرض کی شدت کم ہو اور خون صالح بنے اور اگر بعد میں دوا کی ضروریات پڑے تو بھی غذائی دواد ینی چاہئیے کیونکہ اس کے کوئی مضر اثرات نہیں ہوتے ۔ اب معالج پر فرض ہے کہ غذا کے مزاج کو سمجھے اور یہ بھی سمجھے کہ یہ غذا کس مرض میں کس مزاج میں بنی ہے۔ اسے کس وقت اور کتنی مقدار میں دینی چاہئیے اور اسکے برعکس اس کو گرانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ غذائی اصولوں پر عمل کرنا ہی کسی معالج کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
غذا کی اہمیت
علاج بالغذا کی اہمیت اس امر سے لگائی جائے کہ ہر قسم کے جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ غذا کی مناسب مقدار اور پر ہیز قرار دی جاتی ہے اگر علاج کے ساتھ غذا کی اہمیت کو توجہ نہ دی گئی تو یقینی علاج بھی کامیاب نہیں ہوگا اکسیر اور تریاق جیسے ادویات بے کار اور بے معنی ہو کر رہ جائیں گی اصل علاج ہے مکمل خون صالح کا بنا اور وہ غذائی علاج سے بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ علم العلاج کا دوسرا حصہ علم صحت ہے جو تمام غذا پر انحصار کرتا ہے اور صحت کو بغیر مناسب غذا کے محال رکھنا ممکن ہے اس لئے انقلابی معالیین علاج الامراض میں غذا کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔