
ہڈیوں کی شکست و ریخت: وجوہات، علاج اور تدارک
Table of Contents
ہڈیوں کی شکست و ریخت: وجوہات، علاج اور تدارک.. 5
باب 1: ہڈیوں کی شکست و ریخت کی تفہیم…. 5
فریکچر کی تعریف اور حیاتیات.. 5
2.1 شفا یابی کے مراحل (Stages of Healing) 10
2.2 شفا یابی پر اثرانداز ہونے والے عوامل.. 11
باب 3: غذائی تدارک: شفا یابی اور مضبوطی کے لیے خوراک.. 13
3.2 غذائی ذرائع اور تجویز کردہ مقدار 15
3.3 پرہیز اور احتیاطی تدابیر.. 16
باب 4: جدید طبی اور کلینیکل علاج. 17
4.3 جراحی کی مداخلت (Surgical Interventions) 18
باب 5: روایتی اور ہربل طریقہائے علاج: ایک تنقیدی جائزہ 20
5.1 روایتی ہڈی جوڑ (پہلوان/TBS) 21
5.2 روایتی علاج سے منسلک خطرات اور پیچیدگیاں. 21
5.4 جدید اور روایتی علاج کا موازنہ. 23
باب 6: بچاؤ کی حکمت عملی: مضبوط ہڈیاں، محفوظ زندگی. 24
جدول 6.2: ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے تجویز کردہ ورزشیں… 25
تمہید
ہڈیوں کی شکست و ریخت، جسے طبی اصطلاح میں فریکچر کہا جاتا ہے، ایک عام اور تکلیف دہ طبی مسئلہ ہے جو کسی بھی عمر کے فرد کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ نہ صرف شدید درد اور عارضی یا مستقل معذوری کا باعث بنتا ہے، بلکہ اس کا علاج اور بحالی کا عمل بھی طویل اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد ہڈیوں کے فریکچر کی وجوہات، اقسام، اور اس کے علاج کے جدید طبی، غذائی اور روایتی پہلوؤں کا ایک جامع اور گہرائی پر مبنی جائزہ پیش کرنا ہے۔ یہ رپورٹ طبی ماہرین، طلباء، اور صحت کے بارے میں باشعور عوام کے لیے ایک مستند وسیلہ فراہم کرنے کی کوشش ہے، جس میں فریکچر کی بنیادی تفہیم سے لے کر اس کی تشخیص، علاج اور روک تھام تک کے تمام مراحل کا احاطہ کیا گیا ہے، اور اس کی بنیاد سائنسی شواہد اور طبی تحقیق پر رکھی گئی ہے۔
باب 1: ہڈیوں کی شکست و ریخت کی تفہیم
فریکچر کی تعریف اور حیاتیات
فریکچر سے مراد ہڈی کے تسلسل میں کسی بھی قسم کا وقفہ یا ٹوٹ پھوٹ ہے۔ یہ ایک معمولی سی دراڑ سے لے کر ہڈی کے مکمل طور پر کئی ٹکڑوں میں ٹوٹ جانے تک ہو سکتا ہے 1۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فریکچر صرف ہڈی کی چوٹ نہیں ہے؛ اس سے اکثر اردگرد کے نرم بافتوں (soft tissues)، پٹھوں اور خون کی نالیوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے 1۔
جب ہڈی ٹوٹتی ہے تو جسم کا ایک فوری حیاتیاتی ردعمل شروع ہو جاتا ہے۔ متاثرہ جگہ پر خون کی نالیاں پھٹنے سے خون جمع ہو جاتا ہے، جو ایک لوتھڑا یا ہیماتوما (hematoma) بناتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شدید سوزش کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس ابتدائی مرحلے میں، ہڈی کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے خون کی فراہمی منقطع ہونے کی وجہ سے اکثر مر جاتے ہیں، اس عمل کو نیکروسس (necrosis) کہا جاتا ہے 5۔ یہ ابتدائی حیاتیاتی ردعمل، اگرچہ تکلیف دہ ہوتا ہے، لیکن یہی ہڈی کے جڑنے کے پیچیدہ عمل کا نقطہ آغاز بھی ہے۔
فریکچر کی اقسام
فریکچر کی درجہ بندی ان کی خصوصیات، مقام اور شدت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ درست تشخیص اور مناسب علاج کے لیے ان اقسام کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
کھلے (Open/Compound) بمقابلہ بند (Closed/Simple) فریکچر
بند یا سادہ فریکچر (Closed/Simple Fracture): اس قسم میں ہڈی ٹوٹ جاتی ہے لیکن اس کے اوپر کی جلد متاثر نہیں ہوتی اور اپنی جگہ برقرار رہتی ہے 2۔
کھلا یا کمپاؤنڈ فریکچر (Open/Compound Fracture): یہ ایک زیادہ شدید قسم ہے جس میں ٹوٹی ہوئی ہڈی کے سرے جلد کو پھاڑ کر باہر نکل آتے ہیں۔ اس سے ہڈی بیرونی ماحول کے سامنے آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے انفیکشن کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے 1۔
فریکچر کے پیٹرن کی بنیاد پر درجہ بندی
ٹرانسورس فریکچر (Transverse Fracture): ہڈی اپنی لمبائی کے عموداً، ایک سیدھی افقی لائن میں ٹوٹتی ہے۔ یہ اکثر براہ راست ضرب لگنے سے ہوتا ہے 4۔
اوبلیک فریکچر (Oblique Fracture): اس میں ہڈی ایک زاویے پر ٹوٹتی ہے 4۔
سرپل فریکچر (Spiral Fracture): یہ فریکچر گھومنے والی یا مروڑ دینے والی قوت کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ کھیل کے دوران پاؤں زمین پر جما ہو اور جسم گھوم جائے 1۔
کمیونٹیڈ فریکچر (Comminuted Fracture): ہڈی تین یا اس سے زیادہ ٹکڑوں میں ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ شدید صدمے، جیسے کار حادثے، کا نتیجہ ہو سکتا ہے 4۔
خصوصی آبادیوں میں فریکچر
گرین اسٹک فریکچر (Greenstick Fracture): یہ فریکچر خاص طور پر 10 سال سے کم عمر بچوں کی نرم اور لچکدار ہڈیوں میں ہوتا ہے۔ اس میں ہڈی مکمل طور پر ٹوٹنے کے بجائے ایک طرف سے ٹوٹتی ہے اور دوسری طرف سے مڑ جاتی ہے، بالکل ایک ہری ٹہنی کی طرح 5۔
ٹورس یا بکل فریکچر (Torus/Buckle Fracture): یہ بھی بچوں میں عام ہے، جہاں ہڈی کا ایک حصہ قوت کی وجہ سے دب جاتا ہے یا باہر کی طرف ابھر جاتا ہے لیکن مکمل طور پر ٹوٹتا نہیں 2۔
دیگر اہم اقسام
اسٹریس یا ہیئر لائن فریکچر (Stress/Hairline Fracture): یہ ہڈی میں بار بار پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والی چھوٹی چھوٹی دراڑیں ہوتی ہیں۔ یہ کھلاڑیوں، خاص طور پر دوڑنے والوں میں عام ہیں 4۔
پیتھولوجیکل فریکچر (Pathological Fracture): یہ فریکچر کسی بنیادی بیماری کی وجہ سے کمزور ہونے والی ہڈی میں ہوتا ہے۔ اس کے لیے بہت کم طاقت درکار ہوتی ہے۔ عام وجوہات میں آسٹیوپوروسس، ہڈیوں کا کینسر، یا انفیکشن شامل ہیں 5۔
کمپریشن فریکچر (Compression Fracture): یہ عام طور پر ریڑھ کی ہڈی کے مہروں (vertebrae) میں ہوتا ہے، جہاں مہرہ دباؤ کی وجہ سے پچک جاتا ہے۔ یہ آسٹیوپوروسس کے شکار بزرگ افراد میں بہت عام ہے 7۔
جدول 1.2: ہڈیوں کے فریکچر کی اقسام اور ان کی خصوصیات |
فریکچر کی قسم |
بند/سادہ فریکچر |
کھلا/کمپاؤنڈ فریکچر |
ٹرانسورس فریکچر |
کمیونٹیڈ فریکچر |
گرین اسٹک فریکچر |
اسٹریس/ہیئر لائن فریکچر |
پیتھولوجیکل فریکچر |
کمپریشن فریکچر |
وجوہات اور خطرے کے عوامل
فریکچر کی وجوہات کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: تکلیف دہ واقعات اور بنیادی طبی حالات۔
تکلیف دہ واقعات (Traumatic Events): زیادہ تر فریکچر کسی زیادہ طاقت والے صدمے کے نتیجے میں ہوتے ہیں۔ ان میں اونچائی سے گرنا، گاڑیوں کے حادثات، کھیلوں کے دوران لگنے والی چوٹیں، یا کسی چیز سے براہ راست ٹکرانا شامل ہے 4۔
بنیادی طبی حالات (Underlying Medical Conditions): بعض اوقات ہڈیاں کسی اندرونی بیماری کی وجہ سے اس قدر کمزور ہو جاتی ہیں کہ معمولی سی چوٹ یا دباؤ بھی فریکچر کا باعث بن جاتا ہے۔
آسٹیوپوروسس (Osteoporosis): یہ ہڈیوں کی کثافت میں کمی کی بیماری ہے، جسے “ہڈیوں کا بھربھرا پن” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہڈیوں کو کمزور اور نازک بنا دیتی ہے، جس سے فریکچر کا خطرہ نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے 5۔ یہ حالت خاص طور پر رجونورتی (menopause) سے گزرنے والی خواتین اور بزرگ مردوں میں عام ہے 5۔ پاکستان میں، ناقص خوراک اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے ہر 4 میں سے 1 بوڑھی عورت کو آسٹیوپوروسس کا خطرہ ہے 12۔
کینسر (Cancer): جب کینسر کے خلیے ہڈی میں پھیلتے ہیں (metastasis) یا ہڈی میں ہی ٹیومر بنتا ہے، تو وہ ہڈی کے ڈھانچے کو کمزور کر دیتے ہیں، جس سے پیتھولوجیکل فریکچر ہو سکتا ہے 5۔
ہڈیوں کا انفیکشن (Osteomyelitis): ہڈی میں بیکٹیریل یا فنگل انفیکشن بھی اسے کمزور کر کے فریکچر کا باعث بن سکتا ہے 10۔
دیگر خطرے کے عوامل: عمر (بچے اور بزرگ)، غیر فعال طرز زندگی، تمباکو نوشی (جو کیلشیم کے جذب کو کم کرتی ہے)، اور بعض ادویات جیسے طویل مدتی کورٹیکوسٹیرائڈز کا استعمال بھی فریکچر کے خطرے کو بڑھاتا ہے 4۔
یہاں یہ سمجھنا کلیدی ہے کہ فریکچر کی وجہ اس کے علاج کی سمت متعین کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک نوجوان کھلاڑی میں اسٹریس فریکچر کا علاج آرام اور بحالی پر مرکوز ہو گا، جبکہ ایک بزرگ خاتون میں کولہے کا فریکچر، جو معمولی گرنے سے ہوا ہو، صرف ٹوٹی ہوئی ہڈی کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ اکثر آسٹیوپوروسس جیسی ایک بنیادی، خاموش بیماری کی پہلی اور واضح علامت ہوتا ہے 5۔ لہٰذا، اس صورت میں علاج کا منصوبہ دوہرا ہونا چاہیے: فریکچر کی فوری مرمت اور آسٹیوپوروسس کا طویل مدتی علاج تاکہ مستقبل میں مزید جان لیوا فریکچرز سے بچا جا سکے۔ اس نقطہ نظر کو نظر انداز کرنا مریض کو بار بار فریکچر کے خطرے میں مبتلا کر سکتا ہے۔
علامات اور فوری تشخیص
فریکچر کی علامات عام طور پر واضح ہوتی ہیں، لیکن ان کی شدت مختلف ہو سکتی ہے۔
عام علامات: سب سے نمایاں علامت شدید اور فوری درد ہے، جو حرکت کرنے سے بڑھتا ہے 7۔ دیگر علامات میں متاثرہ حصے میں سوجن، جلد کے نیچے خون جمنے سے اس کا رنگ نیلا یا جامنی ہونا (bruising)، متاثرہ عضو کو حرکت دینے یا اس پر وزن ڈالنے میں ناکامی، اور ہڈی کی شکل میں واضح خرابی یا ٹیڑھا پن شامل ہیں 3۔
تشخیصی آوازیں: کچھ لوگ چوٹ لگنے کے وقت ہڈی کے ٹوٹنے یا چٹخنے (snap) یا آپس میں رگڑ کھانے (grinding) کی آواز سن سکتے ہیں 7۔
طبی امداد کب طلب کریں: اگر شدید درد ہو، عضو کو حرکت دینا ناممکن ہو، ہڈی کی شکل بگڑی ہوئی نظر آئے، سوجن تیزی سے بڑھ رہی ہو، یا چوٹ کے وقت ٹوٹنے کی آواز سنی ہو، تو فوری طور پر طبی امداد حاصل کرنا ناگزیر ہے 1۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بعض اوقات فریکچر کے باوجود عضو کو تھوڑا بہت ہلانا ممکن ہوتا ہے، لہٰذا حرکت کرنے کی صلاحیت کو فریکچر نہ ہونے کی ضمانت نہیں سمجھنا چاہیے 1۔
باب 2: ہڈیوں کے جڑنے کا قدرتی عمل اور پیچیدگیاں
ہڈیوں میں خود کو ٹھیک کرنے کی ایک قابل ذکر صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ عمل ایک منظم حیاتیاتی ترتیب کے تحت کئی مراحل میں مکمل ہوتا ہے۔
2.1 شفا یابی کے مراحل (Stages of Healing)
سوزش اور ہیماتوما کی تشکیل (Inflammation and Hematoma Formation): چوٹ لگنے کے پہلے چند گھنٹوں اور دنوں میں، ٹوٹی ہوئی ہڈی کے سروں کے درمیان خون جمع ہو کر ایک لوتھڑا (ہیماتوما) بناتا ہے۔ یہ ہیماتوما نہ صرف خون کے بہاؤ کو روکتا ہے بلکہ شفا یابی کے لیے ایک ابتدائی ڈھانچہ بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، سوزشی خلیے (inflammatory cells) اس جگہ پر پہنچ کر مردہ ٹشوز اور جراثیم کو صاف کرتے ہیں 5۔
نرم کیلس کی تشکیل (Soft Callus Formation): چوٹ کے چند دنوں بعد، جسم کے تعمیری خلیے (فائبروبلاسٹ اور کونڈروبلاسٹ) فریکچر کی جگہ پر ایک نرم، ربڑ جیسا ٹشو بنانا شروع کر دیتے ہیں جسے “نرم کیلس” کہتے ہیں۔ یہ کیلس ہڈی کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑتا ہے لیکن ابھی اتنا مضبوط نہیں ہوتا کہ وزن برداشت کر سکے 15۔
سخت کیلس کی تشکیل (Hard Callus Formation): فریکچر کے تقریباً 2 سے 3 ہفتوں بعد، ہڈی بنانے والے خلیے (آسٹیوبلاسٹ) نرم کیلس کو کیلشیم اور دیگر معدنیات سے بھر کر ایک سخت، بونی کیلس میں تبدیل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ عمل کئی ہفتوں تک جاری رہتا ہے اور ہڈی کو بتدریج استحکام فراہم کرتا ہے 15۔
ہڈی کی ازسرِنو تشکیل (Bone Remodeling): یہ شفا یابی کا آخری اور سب سے طویل مرحلہ ہے، جو کئی مہینوں سے لے کر سالوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ اس مرحلے میں، ہڈی کو توڑنے والے خلیے (آسٹیوکلاسٹ) اور ہڈی بنانے والے خلیے (آسٹیوبلاسٹ) مل کر کام کرتے ہیں تاکہ اضافی بونی کیلس کو ہٹایا جا سکے اور ہڈی کو اس کی اصل، مضبوط شکل میں واپس لایا جا سکے 6۔
2.2 شفا یابی پر اثرانداز ہونے والے عوامل
ہڈی کے جڑنے کا عمل ایک خودکار لیکن نازک نظام ہے۔ کئی عوامل اس عمل کی رفتار اور کامیابی پر اثرانداز ہو سکتے ہیں:
عمر: بچے اور نوجوان، بہتر خون کی فراہمی اور زیادہ فعال خلیوں کی وجہ سے، بوڑھوں کے مقابلے میں بہت تیزی سے ٹھیک ہوتے ہیں 6۔
غذائیت: کیلشیم، وٹامن ڈی اور پروٹین جیسے غذائی اجزاء کی مناسب فراہمی شفا یابی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ان کی کمی سے ہڈی جڑنے کا عمل سست پڑ سکتا ہے 6۔
فریکچر کی نوعیت: شدید، کھلے، یا کئی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے فریکچر کو جڑنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔
خون کی فراہمی: ہڈی کے جن حصوں میں خون کی فراہمی کم ہوتی ہے (جیسے فیمر کی گردن یا کلائی کی اسکافائیڈ ہڈی)، وہاں شفا یابی سست ہو سکتی ہے اور ہڈی کے مر جانے (osteonecrosis) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے 4۔
استحکام (Immobilization): ہڈی کے ٹکڑوں کو اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم رکھنا (چاہے پلاسٹر کاسٹ سے ہو یا سرجری سے) کامیاب شفا یابی کے لیے سب سے اہم شرط ہے۔ اگر فریکچر کی جگہ پر حرکت ہوتی رہے تو ہڈی ٹھیک طرح سے نہیں جڑ پاتی 6۔
بنیادی بیماریاں اور طرز زندگی: ذیابیطس اور ہارمونل عدم توازن جیسے مسائل شفا یابی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اسی طرح، تمباکو نوشی اور الکوحل کا استعمال خون کی گردش کو متاثر کرکے اور ہڈی بنانے والے خلیات کو نقصان پہنچا کر شفا یابی کے عمل میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں 4۔
2.3 فریکچر کی ممکنہ پیچیدگیاں
اگرچہ زیادہ تر فریکچر مناسب علاج سے ٹھیک ہو جاتے ہیں، لیکن کچھ صورتوں میں سنگین پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں:
انفیکشن: کھلے فریکچر میں یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ بیکٹیریا زخم کے ذریعے ہڈی تک پہنچ کر آسٹیومائلائٹس (osteomyelitis) نامی سنگین انفیکشن کا باعث بن سکتے ہیں، جس کا علاج طویل اور مشکل ہوتا ہے 8۔
شریانوں اور اعصاب کو نقصان: ٹوٹی ہوئی ہڈی کے تیز کنارے قریبی خون کی نالیوں یا اعصاب کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، جس سے خون بہنا، بے حسی، یا فالج ہو سکتا ہے 4۔
کمپارٹمنٹ سنڈروم (Compartment Syndrome): یہ ایک ہنگامی طبی حالت ہے۔ شدید سوجن کی وجہ سے پٹھوں کے اردگرد موجود جھلی (fascia) کے اندر دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ خون کی گردش رک جاتی ہے۔ اگر فوری طور پر سرجری (fasciotomy) کے ذریعے دباؤ کم نہ کیا جائے تو پٹھے اور اعصاب مستقل طور پر مر سکتے ہیں 8۔
شفا یابی کے مسائل:
نان-یونین (Non-union): جب ہڈی کے ٹوٹے ہوئے سرے آپس میں جڑنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ اکثر خون کی ناقص فراہمی، انفیکشن، یا ناکافی استحکام کی وجہ سے ہوتا ہے 19۔
مال-یونین (Mal-union): جب ہڈی جڑ تو جاتی ہے لیکن غلط پوزیشن یا زاویے میں، جس سے عضو کی شکل بگڑ جاتی ہے اور اس کی فعالیت متاثر ہوتی ہے 19۔
خون کے لوتھڑے (Deep Vein Thrombosis – DVT): فریکچر کے بعد، خاص طور پر ٹانگ یا کولہے کے فریکچر کے بعد، طویل عرصے تک غیر فعال رہنے سے ٹانگوں کی گہری رگوں میں خون کے لوتھڑے بن سکتے ہیں۔ اگر یہ لوتھڑا اپنی جگہ سے ہٹ کر پھیپھڑوں تک پہنچ جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے 23۔
ان پیچیدگیوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فریکچر کا علاج صرف ہڈی جوڑنے تک محدود نہیں ہے۔ ایک کامیاب آرتھوپیڈک علاج کا مقصد نہ صرف ہڈی کو اس کی صحیح اناٹومیکل پوزیشن میں جوڑنا ہے بلکہ انفیکشن، خون کے لوتھڑوں اور طویل مدتی معذوری جیسے خطرات کی پیش گوئی، روک تھام اور انتظام کرنا بھی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں جدید طبی علاج اور غیر تربیت یافتہ روایتی طریقوں کے درمیان ایک بنیادی اور گہرا فرق سامنے آتا ہے۔
باب 3: غذائی تدارک: شفا یابی اور مضبوطی کے لیے خوراک
فریکچر کے بعد ہڈیوں کے جڑنے کے عمل کو تیز کرنے اور مستقبل میں ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے متوازن اور غذائیت سے بھرپور خوراک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ علاج کے دوران جسم کو اضافی توانائی اور مخصوص تعمیراتی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے۔
3.1 ہڈیوں کی صحت کے لیے کلیدی غذائی اجزاء
ہڈیوں کی شفا یابی کا عمل ایک پیچیدہ تعمیراتی منصوبے کی مانند ہے جس کے لیے مختلف خام مال کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف ایک جزو پر انحصار کرنا ناکافی ہے۔
پروٹین: ہڈی کی ساخت کا تقریباً نصف حصہ کولیجن نامی پروٹین پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ہڈی کا بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ فریکچر کے بعد، جسم کو نئی ہڈی اور اردگرد کے ٹشوز کی مرمت کے لیے پروٹین کی اشد ضرورت ہوتی ہے 17۔ فریکچر کے مریضوں کو عام طور پر روزانہ 1 سے 1.5 گرام پروٹین فی کلوگرام جسمانی وزن استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے 25۔
کیلشیم: یہ ہڈیوں کا سب سے اہم معدنی جزو ہے، جو انہیں سختی اور مضبوطی فراہم کرتا ہے۔ شفا یابی کے عمل کے دوران، جسم نئے “سخت کیلس” کی تشکیل کے لیے کیلشیم کا استعمال کرتا ہے 17۔ بالغوں کو روزانہ 1,000 سے 1,200 ملی گرام کیلشیم کی ضرورت ہوتی ہے 12۔
وٹامن ڈی: یہ وٹامن کیلشیم کے میٹابولزم کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ آنتوں میں کیلشیم کو جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ وٹامن ڈی کے بغیر، کیلشیم سے بھرپور غذا کا استعمال بھی غیر موثر ہو سکتا ہے 12۔ پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں آبادی کے ایک بڑے حصے میں وٹامن ڈی کی کمی پائی جاتی ہے، اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے 12۔
وٹامن سی: یہ وٹامن کولیجن کی پیداوار کے لیے لازمی ہے، جو ہڈی کے میٹرکس کا بنیادی پروٹین ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ایک طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہے جو چوٹ کی جگہ پر سوزش کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے 17۔
وٹامن کے: یہ وٹامن ہڈیوں میں پائے جانے والے پروٹینز (جیسے آسٹیوکیلسن) کو فعال کرتا ہے اور کیلشیم کو ہڈی کے ڈھانچے کے ساتھ جوڑنے میں مدد دیتا ہے، جس سے ہڈی کی معدنی کثافت بڑھتی ہے 17۔
دیگر اہم معدنیات: زنک، آئرن، پوٹاشیم، اور میگنیشیم جیسے معدنیات بھی ہڈیوں کی مرمت اور مجموعی صحت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آئرن کی کمی سے شفا یابی کا عمل سست ہو سکتا ہے، جبکہ پوٹاشیم جسم میں کیلشیم کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے 17۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہڈیوں کی صحت کے لیے غذائیت ایک “ٹیم ورک” ہے۔ صرف کیلشیم (اینٹیں) کافی نہیں ہیں؛ انہیں اپنی جگہ پر رکھنے کے لیے پروٹین (فریم ورک)، وٹامن ڈی (مستری)، وٹامن سی (سیمنٹ بنانے والا) اور وٹامن کے (سیمنٹ کو مضبوط کرنے والا) سب کی ضرورت ہوتی ہے۔
3.2 غذائی ذرائع اور تجویز کردہ مقدار
ایک متوازن غذا جس میں ان تمام اجزاء کے قدرتی ذرائع شامل ہوں، سپلیمنٹس سے بہتر تصور کی جاتی ہے۔
جدول 3.2: ہڈیوں کی شفا یابی کے لیے ضروری غذائی اجزاء اور ان کے ذرائع |
غذائی جزو |
پروٹین |
کیلشیم |
وٹامن ڈی |
وٹامن سی |
وٹامن کے |
زنک، آئرن، پوٹاشیم |
اومیگا-3 فیٹی ایسڈ |
3.3 پرہیز اور احتیاطی تدابیر
جس طرح کچھ غذائیں شفا یابی کو فروغ دیتی ہیں، اسی طرح کچھ عادات اور غذائیں اس عمل میں رکاوٹ بھی بن سکتی ہیں۔ لہٰذا، غذائی تدارک کا ایک اہم حصہ پرہیز بھی ہے۔
الکوحل: الکوحل کا استعمال ہڈی بنانے والے خلیات کی سرگرمی کو سست کرتا ہے اور شفا یابی کے عمل میں تاخیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ عدم استحکام پیدا کرکے دوبارہ گرنے اور چوٹ لگنے کا خطرہ بھی بڑھاتا ہے 17۔
اضافی نمک (سوڈیم): خوراک میں نمک کی زیادتی پیشاب کے ذریعے کیلشیم کے اخراج کو بڑھا دیتی ہے، جس سے جسم میں کیلشیم کی سطح کم ہو جاتی ہے اور ہڈیاں کمزور پڑ سکتی ہیں 25۔
اضافی کیفین اور شوگر والے مشروبات: روزانہ 400 ملی گرام سے زائد کیفین (تقریباً 4 کپ کافی) کا استعمال بھی کیلشیم کے اخراج کو بڑھا سکتا ہے۔ اسی طرح، چینی سے بھرپور مشروبات کیلشیم کے جذب میں مداخلت کرتے ہیں اور ان میں کوئی غذائیت نہیں ہوتی 12۔
جنک فوڈ: پراسیس شدہ اور جنک فوڈز میں عام طور پر غذائیت کم اور نمک، چینی اور غیر صحت بخش چکنائی زیادہ ہوتی ہے، جو سوزش کو بڑھا کر شفا یابی کے عمل کو سست کر سکتے ہیں 17۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فریکچر کے بعد بحالی صرف چند “سپر فوڈز” کھانے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک جامع طرز زندگی اپنانے کا نام ہے جس میں صحت بخش غذاؤں کا استعمال اور نقصان دہ عادات سے پرہیز دونوں شامل ہیں۔
باب 4: جدید طبی اور کلینیکل علاج
جدید آرتھوپیڈکس نے فریکچر کے علاج میں انقلابی ترقی کی ہے، جس کا مقصد نہ صرف ہڈی کو جوڑنا ہے بلکہ مریض کی مکمل فعالیت کو جلد از جلد بحال کرنا بھی ہے۔
4.1 تشخیصی طریقے
درست علاج کا انحصار درست تشخیص پر ہوتا ہے۔
جسمانی معائنہ: ڈاکٹر سب سے پہلے متاثرہ حصے کا بغور معائنہ کرتا ہے تاکہ سوجن، خرابی، درد کی شدت اور جلد کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکے 1۔
امیجنگ ٹیسٹ:
ایکس رے (X-ray): یہ فریکچر کی تشخیص کے لیے سب سے پہلا اور سب سے عام ٹیسٹ ہے۔ یہ ہڈی کی دو جہتی تصویر فراہم کرتا ہے جس سے فریکچر کی موجودگی، مقام اور قسم کا تعین کیا جا سکتا ہے 1۔
کمپیوٹڈ ٹوموگرافی (CT Scan): یہ ٹیسٹ ایکس رے کی نسبت بہت زیادہ تفصیلی، کراس سیکشنل تصاویر فراہم کرتا ہے۔ یہ خاص طور پر پیچیدہ فریکچرز، خاص طور پر جو جوڑوں کے اندر ہوں، کی تشخیص کے لیے مفید ہے 2۔
میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (MRI): ایم آر آئی ہڈیوں کے ساتھ ساتھ نرم بافتوں جیسے لیگامنٹس، ٹینڈنز اور پٹھوں کی بھی بہترین تصاویر فراہم کرتا ہے۔ یہ اسٹریس فریکچر یا جہاں نرم بافتوں کو شدید نقصان کا شبہ ہو، وہاں استعمال ہوتا ہے 2۔
4.2 غیر جراحی علاج (Non-Surgical Treatment)
زیادہ تر بند اور مستحکم (stable) فریکچرز کا علاج بغیر سرجری کے کیا جاتا ہے۔
کاسٹنگ اور اسپلنٹنگ (Casting and Splinting): اس طریقہ کار کا بنیادی مقصد فریکچر کو غیر متحرک (immobilize) کرنا ہے تاکہ ہڈی کے ٹوٹے ہوئے سرے اپنی جگہ پر قائم رہیں اور شفا یابی کا قدرتی عمل بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل ہو سکے 2۔
پلاسٹر کاسٹ: یہ روایتی طور پر استعمال ہوتے ہیں، سستے ہوتے ہیں اور انہیں آسانی سے شکل دی جا سکتی ہے۔ تاہم، یہ بھاری ہوتے ہیں اور مکمل خشک ہونے میں 2 سے 3 دن لگتے ہیں 41۔
فائبر گلاس کاسٹ: یہ جدید، ہلکے، مضبوط اور زیادہ پائیدار ہوتے ہیں۔ یہ مختلف رنگوں میں دستیاب ہیں اور تقریباً ایک گھنٹے میں خشک ہو جاتے ہیں 2۔
کاسٹ کی دیکھ بھال: کاسٹ کو گیلا ہونے سے بچانا، اس کے اندر خارش کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ڈالنا، اور سوجن کی صورت میں متاثرہ عضو کو دل کی سطح سے بلند رکھنا انتہائی ضروری ہے 41۔
ٹریکشن (Traction): اس تکنیک میں وزن اور پلیوں (pulleys) کا استعمال کرتے ہوئے متاثرہ عضو کو آہستہ سے کھینچا جاتا ہے۔ اس کا مقصد پٹھوں کے کھچاؤ کو کم کرنا اور ہڈی کے ٹکڑوں کو سرجری سے پہلے عارضی طور پر سیدھ میں لانا ہوتا ہے 7۔
4.3 جراحی کی مداخلت (Surgical Interventions)
پیچیدہ، غیر مستحکم، کھلے، یا جوڑوں میں ہونے والے فریکچرز کے لیے اکثر سرجری ناگزیر ہوتی ہے۔ جدید آرتھوپیڈک علاج کا بنیادی اصول “اناٹومیکل بحالی اور مستحکم فکسیشن” ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہڈی کے ٹکڑوں کو ان کی قدرتی پوزیشن میں واپس لانا اور انہیں اتنی مضبوطی سے جوڑنا کہ وہ شفا یابی کے دوران حرکت نہ کر سکیں۔
اوپن ریڈکشن اینڈ انٹرنل فکسیشن (Open Reduction and Internal Fixation – ORIF): یہ سب سے عام جراحی کا طریقہ کار ہے۔
اوپن ریڈکشن: سرجن چیرا لگا کر براہ راست فریکچر کی جگہ تک پہنچتا ہے اور ہڈی کے ٹکڑوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ان کی صحیح اناٹومیکل پوزیشن میں واپس لاتا ہے 44۔
انٹرنل فکسیشن: ہڈیوں کو اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم رکھنے کے لیے خاص طور پر ڈیزائن کردہ دھاتی امپلانٹس جیسے پلیٹس، اسکرو، پن، یا انٹرا میڈولری راڈز (جو ہڈی کے اندر ڈالی جاتی ہیں) کا استعمال کیا جاتا ہے 10۔
جوڑوں کی تبدیلی (Joint Replacement/Arthroplasty): جب فریکچر سے جوڑ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے، خاص طور پر بزرگوں میں کولہے کے فریکچر کی صورت میں، تو خراب شدہ جوڑ کو ایک مصنوعی جوڑ (prosthesis) سے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس میں جزوی تبدیلی (Hemiarthroplasty) یا مکمل تبدیلی (Total Hip Arthroplasty) شامل ہو سکتی ہے 23۔
4.4 بحالی اور فزیوتھراپی
فریکچر کا علاج پلاسٹر اترنے یا سرجری کے ٹانکے نکلنے پر ختم نہیں ہوتا؛ بلکہ یہیں سے بحالی کا سب سے اہم مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ فزیوتھراپی کا مقصد متاثرہ عضو کی طاقت، لچک، اور مکمل فعالیت کو بحال کرنا ہے 18۔
اہمیت: طویل عرصے تک غیر متحرک رہنے کی وجہ سے جوڑ سخت ہو جاتے ہیں اور پٹھے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ فزیوتھراپی ان مسائل کو دور کرکے مریض کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں واپس لانے میں مدد کرتی ہے۔
طریقہ کار: ایک ماہر فزیوتھراپسٹ مریض کی مخصوص چوٹ اور ضروریات کے مطابق ایک جامع بحالی پروگرام ترتیب دیتا ہے، جس میں شامل ہیں:
حرکت کی رینج کی مشقیں (Range-of-motion exercises): جوڑوں کی سختی کو کم کرنے اور لچک کو بحال کرنے کے لیے 50۔
مضبوطی کی مشقیں (Strengthening exercises): کمزور پٹھوں کو دوبارہ مضبوط بنانے کے لیے 52۔
توازن اور چال کی تربیت (Balance and gait training): خاص طور پر نچلے اعضاء کے فریکچر کے بعد، گرنے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے۔
وزن برداشت کرنے کی بتدریج مشقیں (Progressive weight-bearing): ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق آہستہ آہستہ متاثرہ ٹانگ یا بازو پر وزن ڈالنا شروع کرنا 44۔
یہ ایک ٹیم ورک ہے جس میں آرتھوپیڈک سرجن، فزیوتھراپسٹ، اور خود مریض کی فعال شرکت شامل ہے۔ علاج کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک بحالی کے پروگرام پر پوری ایمانداری سے عمل کرنے پر ہوتا ہے۔ اصل فعالیت کی بحالی کا سفر سرجری کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس میں کئی ہفتوں سے کئی مہینے لگ سکتے ہیں 47۔
باب 5: روایتی اور ہربل طریقہائے علاج: ایک تنقیدی جائزہ
جدید طبی علاج کے ساتھ ساتھ، پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں ہڈیوں کے فریکچر کے لیے روایتی طریقہائے علاج، خاص طور پر روایتی ہڈی جوڑ (Traditional Bone Setters – TBS) کا استعمال بھی بہت عام ہے۔
5.1 روایتی ہڈی جوڑ (پہلوان/TBS)
روایتی ہڈی جوڑنے کا فن، جسے اکثر “پہلوانی” بھی کہا جاتا ہے، صدیوں سے رائج ہے اور یہ علم عموماً خاندان میں نسل در نسل منتقل ہوتا ہے 19۔ ان کی مقبولیت کی کئی سماجی و اقتصادی وجوہات ہیں، جن میں جدید طبی سہولیات کے مقابلے میں کم لاگت، دیہی علاقوں میں آسان رسائی، علاج میں تاخیر کا نہ ہونا، اور جدید سرجری یا عضو کاٹنے (amputation) کا خوف شامل ہے 19۔ لوگ اکثر ثقافتی عقائد اور دوستوں یا خاندان کے دباؤ میں آکر بھی ان کے پاس جاتے ہیں 20۔
ان کا طریقہ کار عام طور پر اناٹومی کے سائنسی علم کے بجائے تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ تشخیص کے لیے ایکس رے جیسی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرتے، بلکہ متاثرہ حصے کو چھو کر اور دبا کر فریکچر کا اندازہ لگاتے ہیں۔ علاج میں عموماً مالش، ہڈی کو “اپنی جگہ پر بٹھانا”، اور پھر اسے غیر متحرک کرنے کے لیے لکڑی یا بانس کی کھپچیوں کو کپڑے سے مضبوطی سے باندھنا شامل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف جڑی بوٹیوں کے لیپ یا تیل کا بھی استعمال کیا جاتا ہے 19۔
5.2 روایتی علاج سے منسلک خطرات اور پیچیدگیاں
اگرچہ کچھ سادہ فریکچر روایتی طریقوں سے ٹھیک ہو سکتے ہیں، لیکن سائنسی شواہد اور پاکستان کے مختلف ہسپتالوں (بشمول گوجرانوالہ، پشاور، اور جامشورو) میں کی گئی طبی تحقیقات نے TBS کے علاج سے وابستہ سنگین اور اکثر ناقابل تلافی پیچیدگیوں کی ایک خطرناک تصویر پیش کی ہے 20۔
عام پیچیدگیاں:
مال-یونین اور نان-یونین: چونکہ تشخیص اور ہڈی کو سیدھ میں لانے کا عمل اناٹومیکل درستگی کے بغیر کیا جاتا ہے، اس لیے ہڈی کا غلط پوزیشن میں جڑ جانا (مال-یونین) یا بالکل نہ جڑنا (نان-یونین) سب سے عام پیچیدگیاں ہیں 19۔
گینگرین اور ایمپوٹیشن: کھپچیوں کو بہت سختی سے باندھنے سے خون کی گردش مکمل طور پر رک سکتی ہے، جس سے ٹشوز مر جاتے ہیں (گینگرین) اور بالآخر متاثرہ عضو کو کاٹنا پڑتا ہے 19۔
انفیکشن: غیر جراثیمی آلات کا استعمال اور کھلے زخموں پر براہ راست جڑی بوٹیوں کا لیپ لگانے سے شدید انفیکشن (بشمول ٹیٹنس اور آسٹیومائلائٹس) ہو سکتا ہے 19۔
جوڑوں کی سختی (Stiffness) اور کنٹریکچر (Contracture): جوڑوں کو غلط پوزیشن میں طویل عرصے تک غیر متحرک رکھنے سے وہ مستقل طور پر سخت ہو سکتے ہیں 19۔
یہاں روایتی علاج کے دو مختلف پہلوؤں میں فرق کرنا ضروری ہے: ایک طرف ہربل فارماکولوجی (جڑی بوٹیوں کا علم) ہے اور دوسری طرف مکینیکل پریکٹس (ہڈی جوڑنے کا عمل)۔ کچھ جڑی بوٹیوں میں واقعی شفا بخش خصوصیات ہو سکتی ہیں، لیکن بغیر سائنسی تشخیص اور اناٹومی کے علم کے ہڈیوں کو مکینیکل طور پر جوڑنے کی کوشش انتہائی خطرناک ہے اور جدید طبی اصولوں سے متصادم ہے۔
5.3 ہڈی جوڑنے والی عام جڑی بوٹیاں اور ان کی افادیت
کچھ جڑی بوٹیاں اور قدرتی مادے روایتی طور پر ہڈیوں کی شفا یابی کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں، اور جدید سائنس بھی ان کی خصوصیات پر تحقیق کر رہی ہے۔
Cissus quadrangularis (ہڑجوڑ): آیوروید میں اسے “استھی سمہارک” یعنی “ہڈیوں کو جوڑنے والا” کہا جاتا ہے۔ روایتی طور پر اسے فریکچر کے علاج کے لیے اندرونی اور بیرونی طور پر استعمال کیا جاتا ہے 61۔ سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں کیلشیم، فاسفورس، اور اینٹی آکسیڈنٹ مرکبات پائے جاتے ہیں جو ہڈیوں کی تشکیل کرنے والے خلیات (osteoblasts) کی سرگرمی کو بڑھا کر شفا یابی کے عمل کو تیز کر سکتے ہیں 62۔
سلاجیت (Shilajit): یہ ایک قدرتی معدنی مادہ ہے جو ہمالیہ کے پہاڑوں میں پایا جاتا ہے۔ قدیم طب میں اسے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے لیے ایک طاقتور علاج مانا جاتا تھا 65۔ اس میں کیلشیم، میگنیشیم، آئرن سمیت 20 سے زائد معدنیات اور فلوک ایسڈ پایا جاتا ہے۔ کچھ مطالعات نے فریکچر کی شفا یابی میں اس کی ممکنہ افادیت کی تصدیق کی ہے 66۔ تاہم، خام سلاجیت میں سیسہ (lead) جیسی زہریلی بھاری دھاتیں بھی ہو سکتی ہیں، اس لیے اس کا استعمال صرف تصدیق شدہ اور صاف شدہ شکل میں ہی کیا جانا چاہیے 65۔
Boswellia serrata (لوبان/Salai Guggul): روایتی طور پر اسے جوڑوں کے درد اور سوزش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے 68۔ جدید تحقیق نے اس میں موجود بوسویلک ایسڈز کی طاقتور اینٹی انفلیمیٹری (سوزش کم کرنے والی) خصوصیات کی تصدیق کی ہے۔ چونکہ فریکچر کے بعد سوزش ایک بڑا مسئلہ ہوتی ہے، اس لیے یہ شفا یابی کے ابتدائی مراحل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے 70۔
5.4 جدید اور روایتی علاج کا موازنہ
جدول 5.4: جدید اور روایتی علاج کا تقابلی جائزہ |
پہلو |
تشخیص |
علاج کا اصول |
استعمال شدہ مواد |
پیچیدگیوں کی شرح |
لاگت |
رسائی |
بحالی |
روایتی ہڈی جوڑنے والوں کی مسلسل مقبولیت صرف ایک ثقافتی رجحان نہیں، بلکہ یہ صحت کے نظام کی ناکامیوں کی بھی عکاسی کرتی ہے، خاص طور پر دیہی اور غریب علاقوں میں جہاں جدید صحت کی دیکھ بھال یا تو ناقابل رسائی ہے، بہت مہنگی ہے، یا اس سے خوف محسوس کیا جاتا ہے 55۔ اس مسئلے کا حل صرف TBS پر پابندی لگانا نہیں، بلکہ جدید صحت کی سہولیات کو سب کے لیے قابل رسائی، سستا، اور مریض دوست بنانا ہے۔
باب 6: بچاؤ کی حکمت عملی: مضبوط ہڈیاں، محفوظ زندگی
فریکچر کا بہترین علاج اس کی روک تھام ہے۔ مضبوط ہڈیاں اور ایک محفوظ طرز زندگی اپنا کر فریکچر کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔
6.1 تاحیات ہڈیوں کی صحت کے لیے متوازن غذا
ہڈیوں کی صحت ایک “بینک اکاؤنٹ” کی طرح ہے۔ آپ جوانی میں صحت مند عادات کے ذریعے جتنا زیادہ “بون ماس” (ہڈیوں کی کثافت) جمع کرتے ہیں، بڑھاپے میں آسٹیوپوروسس اور فریکچر کا خطرہ اتنا ہی کم ہوتا ہے۔ ہڈیوں کی کثافت عام طور پر 20 کی دہائی کے آخر میں اپنے عروج پر ہوتی ہے اور 40 سال کی عمر کے بعد قدرتی طور پر کم ہونا شروع ہو جاتی ہے 12۔
بنیادی اصول: کیلشیم، وٹامن ڈی، اور پروٹین سے بھرپور متوازن غذا بچپن سے ہی ضروری ہے 30۔ دودھ کی مصنوعات، ہری پتوں والی سبزیاں، پھلیاں، گری دار میوے، اور مچھلی کو خوراک کا حصہ بنانا چاہیے 28۔
غذائی عادات: ناشتہ چھوڑنا اور دودھ کو میٹھے کاربونیٹیڈ مشروبات سے تبدیل کرنا ہڈیوں کے لیے انتہائی نقصان دہ عادات ہیں جو نوجوانوں میں عام ہیں 39۔
6.2 ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے ورزش
ورزش نہ صرف پٹھوں بلکہ ہڈیوں کو بھی مضبوط بناتی ہے۔ جب ہڈیوں پر دباؤ پڑتا ہے، تو وہ اس کے جواب میں خود کو زیادہ مضبوط اور کثیف بناتی ہیں۔
وزن اٹھانے والی ورزشیں (Weight-bearing exercises): یہ وہ سرگرمیاں ہیں جن میں آپ کا جسم کشش ثقل کے خلاف کام کرتا ہے۔ ان سے ہڈیوں کی کثافت میں اضافہ ہوتا ہے۔
طاقت کی تربیت (Strength training): وزن اٹھانے یا مزاحمتی بینڈز کا استعمال پٹھوں کو مضبوط کرتا ہے۔ مضبوط پٹھے جوڑوں کو سہارا دیتے ہیں، توازن کو بہتر بناتے ہیں، اور گرنے کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔
جدول 6.2: ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے تجویز کردہ ورزشیں |
ورزش کی قسم |
وزن اٹھانے والی ورزشیں (High-Impact) |
وزن اٹھانے والی ورزشیں (Low-Impact) |
طاقت کی تربیت |
توازن کی مشقیں |
ماہرین ہفتے میں کم از-کم کئی بار 30 سے 45 منٹ کی ورزش کی تجویز دیتے ہیں 29۔
6.3 طرزِ زندگی میں تبدیلیاں
تمباکو نوشی سے پرہیز: تمباکو میں موجود نکوٹین ہڈی بنانے والے خلیات (osteoblasts) کی پیداوار کو روکتا ہے اور کیلشیم کے جذب میں رکاوٹ بنتا ہے 4۔
الکوحل کا محدود استعمال: الکوحل کا زیادہ استعمال کورٹیسول کی سطح کو بڑھاتا ہے، جو ہڈیوں کو توڑنے والے خلیات (osteoclasts) کو متحرک کرتا ہے۔ یہ گرنے کا خطرہ بھی بڑھاتا ہے 30۔
صحت مند وزن: جسمانی وزن کا بہت کم ہونا (underweight) یا بہت زیادہ ہونا (obese) دونوں ہی ہڈیوں کی صحت کے لیے مضر ہیں 30۔
6.4 گرنے سے بچاؤ کی تدابیر (Fall Prevention)
بزرگوں میں زیادہ تر فریکچر گرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ لہٰذا، فریکچر کی روک تھام کا ایک بڑا حصہ گرنے سے بچاؤ ہے۔ یہ ایک کثیر جہتی حکمت عملی ہے جس میں جسمانی، ماحولیاتی اور نفسیاتی عوامل شامل ہیں۔
گھریلو حفاظتی اقدامات: گھر کو محفوظ بنانا سب سے پہلا قدم ہے۔ اس میں فرش پر بکھری چیزوں اور ڈھیلے قالینوں کو ہٹانا، مناسب روشنی کا انتظام کرنا، سیڑھیوں پر ہینڈریل اور باتھ روم میں گراب بارز نصب کرنا شامل ہے 9۔
ذاتی اقدامات: مناسب اور آرام دہ جوتے پہننا، باقاعدگی سے نظر چیک کروانا، اور ایسی ادویات کے بارے میں ڈاکٹر سے بات کرنا جو چکر یا غنودگی کا باعث بن سکتی ہیں۔
گرنے کا خوف (Fear of Falling): یہ ایک اہم نفسیاتی مسئلہ ہے۔ گرنے کے خوف سے بزرگ افراد اپنی نقل و حرکت محدود کر دیتے ہیں، جس سے ان کے پٹھے مزید کمزور ہو جاتے ہیں اور توازن بگڑ جاتا ہے، جو بالآخر گرنے کے خطرے کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔ اس خوف کا اندازہ لگانے کے لیے طبی پیمانے (جیسے ABC-U اور FES-I-U) موجود ہیں اور اس سے نمٹنے کے لیے فزیوتھراپی اور مشاورت مددگار ثابت ہو سکتی ہے 78۔
فریکچر کی روک تھام صرف مضبوط ہڈیوں تک محدود نہیں، بلکہ اس میں مضبوط پٹھے، اچھا توازن، ایک محفوظ ماحول، اور گرنے کے خوف پر قابو پانا بھی شامل ہے۔ یہ ایک جامع نقطہ نظر ہے جو فرد کی مجموعی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
خلاصہ و سفارشات
رپورٹ کا خلاصہ
یہ رپورٹ ہڈیوں کی شکست و ریخت (فریکچر) کے مسئلے کا ایک کثیر الجہتی اور جامع جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس میں فریکچر کی تعریف، اس کی متعدد اقسام (جیسے بند، کھلا، گرین اسٹک، اور پیتھولوجیکل) اور ان کی وجوہات (جیسے صدمہ، آسٹیوپوروسس، اور کینسر) پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں ہڈیوں کے جڑنے کے قدرتی حیاتیاتی عمل اور اس پر اثرانداز ہونے والے عوامل (جیسے عمر، غذائیت، اور طرز زندگی) کا تجزیہ کیا گیا، اور اس کے ساتھ ہی جدید طبی علاج سے وابستہ پیچیدگیوں جیسے انفیکشن، مال-یونین، اور نان-یونین پر بھی بحث کی گئی۔
علاج کے حوالے سے، رپورٹ نے تین اہم شعبوں کا احاطہ کیا:
غذائی تدارک: پروٹین، کیلشیم، وٹامن ڈی، سی، اور کے جیسے کلیدی غذائی اجزاء کی اہمیت اور ان کے غذائی ذرائع کو اجاگر کیا گیا۔
جدید طبی علاج: تشخیص (ایکس رے، سی ٹی اسکین)، غیر جراحی علاج (پلاسٹر کاسٹ)، اور جراحی کے جدید طریقوں (جیسے ORIF اور جوڑوں کی تبدیلی) کے ساتھ ساتھ بحالی اور فزیوتھراپی کے کلیدی کردار کی وضاحت کی گئی۔
روایتی علاج: روایتی ہڈی جوڑ (TBS) کے طریقوں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا، ان کی مقبولیت کی وجوہات اور ان سے منسلک سنگین خطرات کو سائنسی شواہد کی روشنی میں پیش کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی، ہڑجوڑ اور سلاجیت جیسی روایتی جڑی بوٹیوں کی ممکنہ افادیت پر بھی بات کی گئی۔
آخر میں، رپورٹ نے فریکچر کی روک تھام کے لیے ایک جامع حکمت عملی پیش کی، جس میں تاحیات متوازن غذا، وزن اٹھانے والی ورزشیں، صحت مند طرز زندگی، اور خاص طور پر بزرگوں کے لیے گرنے سے بچاؤ کی تدابیر شامل ہیں۔
سفارشات
اس جامع تجزیے کی بنیاد پر، درج ذیل سفارشات پیش کی جاتی ہیں:
انفرادی سطح پر:
صحت مند طرز زندگی: بچپن سے ہی کیلشیم اور وٹامن ڈی سے بھرپور متوازن غذا کا استعمال یقینی بنائیں اور باقاعدگی سے وزن اٹھانے والی ورزشوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
روک تھام: تمباکو نوشی اور الکوحل کے زیادہ استعمال سے پرہیز کریں۔ گھر، خاص طور پر بزرگوں کے لیے، گرنے کے خطرات سے محفوظ بنائیں۔
باخبر فیصلہ: فریکچر کی صورت میں، روایتی ہڈی جوڑ کے پاس جانے کے سنگین خطرات سے آگاہ رہیں اور ہمیشہ کسی مستند آرتھوپیڈک سرجن سے رجوع کریں۔ علاج کے بعد فزیوتھراپی کے پروگرام پر مکمل عمل کریں۔
صحت عامہ کی سطح پر:
آگاہی مہم: حکومت اور صحت کے اداروں کو آسٹیوپوروسس، فریکچر کی روک تھام، اور روایتی ہڈی جوڑنے کے طریقوں سے وابستہ خطرات کے بارے میں وسیع پیمانے پر عوامی آگاہی مہم چلانی چاہیے۔
اسکریننگ پروگرام: 50 سال سے زائد عمر کی خواتین اور 70 سال سے زائد عمر کے مردوں کے لیے آسٹیوپوروسس کی اسکریننگ (جیسے DEXA اسکین) کو صحت کے نظام کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔
صحت کی سہولیات تک رسائی: دیہی اور پسماندہ علاقوں میں جدید آرتھوپیڈک سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ لوگ خطرناک روایتی طریقوں کا سہارا لینے پر مجبور نہ ہوں۔
TBS کی تربیت اور انضمام: روایتی ہڈی جوڑنے والوں پر مکمل پابندی لگانے کے بجائے، ان کی تربیت اور انہیں صحت کے نظام میں ضم کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے، تاکہ وہ کم از کم ابتدائی طبی امداد فراہم کر سکیں اور سنگین کیسز کو فوری طور پر ہسپتال ریفر کر سکیں۔
تحقیقی سطح پر:
مقامی تحقیق: پاکستان میں آسٹیوپوروسس کے پھیلاؤ، وٹامن ڈی کی کمی، اور فریکچر کے سماجی و اقتصادی بوجھ پر مزید مقامی تحقیق کی ضرورت ہے۔
ہربل میڈیسن کی تحقیق: ہڑجوڑ، سلاجیت، اور دیگر روایتی جڑی بوٹیوں کی افادیت، حفاظت، اور درست خوراک کا تعین کرنے کے لیے سخت سائنسی اور کلینیکل ٹرائلز کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تاکہ ان کے ممکنہ فوائد سے محفوظ طریقے سے استفادہ کیا جا سکے۔