
پاکستان میں بچوں کی صحت و غذائیت کا بحران
ایک سنگین صورتحال کا جائزہ
از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
پاکستان میں بچوں کی صحت و غذائیت کا بحران: ایک سنگین صورتحال کا جائزہ
تعارف
موضوع کا پس منظر
بچوں کی صحت و غذائیت کی اہمیت
پاکستان میں مسئلے کی سنگینی کا اشارہ
بچوں کی موجودہ صحت و غذائیت کی صورتحال
غذائی قلت (Malnutrition) کے اعداد و شمار
کم وزنی، قد میں کمی اور غذائی کمی کی اقسام
شہری و دیہی علاقوں میں فرق
علاقائی تفاوت (مثلاً سندھ، بلوچستان میں شدید بحران)
صحت پر اثرات
جسمانی نشو و نما پر اثر
دماغی نشو و نما میں کمی
بیماریوں کے خلاف کمزور مدافعت
طویل مدتی اثرات (تعلیم، معیشت، پیداواری صلاحیت)
وجوہات
غربت
ناخواندگی
ناقص غذائی عادات
طبی سہولیات کی کمی
حکومتی ترجیحات کی کمی
ماں کی صحت و تعلیم کی کمی
حکومتی و غیر سرکاری اقدامات
نیشنل نیوٹریشن پروگرامز
احساس نشوونما پروگرام
UNICEF، WHO، WFP کے کردار
کامیابیاں اور خامیاں
چیلنجز
فنڈز کی کمی
عملدرآمد میں رکاوٹیں
پائیدار پالیسیوں کی کمی
سیاسی عدم استحکام
ممکنہ حل اور تجاویز
ماں اور بچے کی صحت پر سرمایہ کاری
غذائی آگاہی مہمات
اسکولوں میں غذائیت پر مبنی پروگرامز
سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں تعاون
مقامی سطح پر پروگرامز کا فروغ
نتیجہ
مجموعی صورتحال کا خلاصہ
فوری اقدامات کی اہمیت
ایک صحت مند نسل کے لیے پائیدار منصوبہ بندی۔
خلاصہ: پاکستان کے بچوں کی صحت و غذائیت کا بحران – ایک بڑھتی ہوئی تباہی
یہ تحریر پاکستان میں بچوں کی صحت اور غذائیت کی تشویشناک صورتحال کا ایک جامع جائزہ پیش کرتی ہے، جس کی بنیاد فراہم کردہ معلومات اور دستیاب تحقیقی مواد پر ہے۔ اعداد و شمار ایک کثیر الجہتی بحران کی نشاندہی کرتے ہیں جو ملک کے مستقبل کو شدید خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ لاکھوں بچے شدید غذائی قلت، بیماریوں اور تعلیم سے محرومی کا شکار ہیں، جو نہ صرف ان کی زندگیوں بلکہ ملک کی مجموعی ترقی کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج ہے۔ یہ مسائل الگ تھلگ نہیں بلکہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، جہاں غذائی قلت، خراب صحت، اور تعلیمی پسماندگی ایک دوسرے کو مزید بگاڑتے ہوئے محرومی کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر کو جنم دیتے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب زندگی بچانے والی خوراک کی فراہمی میں ممکنہ رکاوٹوں کی پیش گوئیاں سامنے آتی ہیں، جو پہلے سے موجود دائمی بحران کو ایک فوری ہنگامی حالت میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ یہ رپورٹ ان مسائل کے پھیلاؤ، بنیادی وجوہات، نتائج اور ان

سے نمٹنے کے لیے جاری قومی و بین الاقوامی کوششوں کا تفصیلی تجزیہ پیش کرے گی۔
پاکستان میں بچوں کو درپیش صحت اور غذائیت کے مسائل کی جڑیں گہری اور پیچیدہ ہیں، جن میں غربت، خوراک کی کمی، ماؤں کی ناقص صحت، صفائی و ستھرائی کی خراب صورتحال، ماحولیاتی تبدیلیاں اور نظام کی خامیاں شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار محض نمبر نہیں بلکہ لاکھوں بچوں کے تباہ حال مستقبل اور ضائع ہوتی زندگیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس بحران کی شدت عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے، اور پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں کی غذائی قلت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ زندگی بچانے والی امداد میں ممکنہ کمی کا خطرہ اس صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیتا ہے، جس کے لیے فوری اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں بچوں کی غذائی قلت کا پیمانہ: ایک کثیر الجہتی بوجھ
پاکستان میں بچوں کی غذائیت کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، جس کے مختلف پہلو ملک کے مستقبل کی صحت اور ترقی پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ذیل میں اہم غذائی قلت کے مسائل کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
الف. اسٹنٹنگ (Stunting): ضائع شدہ صلاحیتوں کا ایک سلسلہ
اسٹنٹنگ، یعنی عمر کے لحاظ سے قد کا چھوٹا رہ جانا، پاکستان میں بچوں کی صحت کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ فراہم کردہ معلومات کے مطابق، 5 سال سے کم عمر کے 34 فیصد بچے اسٹنٹنگ کا شکار ہیں۔ یہ اعداد و شمار مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات سے مطابقت رکھتے ہیں جو اس مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق 37.6 فیصد بچے اسٹنٹنگ کا شکار تھے ، جبکہ 2018 میں یہ شرح 40.2 فیصد بتائی گئی ، اور یونیسف کے مطابق یہ شرح 38 فیصد ہے۔ عالمی ادارہ خوراک و زراعت (WFP) کے مطابق بھی تقریباً 40 فیصد بچے اسٹنٹنگ کا شکار ہیں۔ یہ اعداد و شمار، معمولی فرق کے باوجود، مسلسل ایک شدید عوامی صحت کے چیلنج کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر اسٹنٹنگ کے شکار بچوں کی تیسری سب سے بڑی تعداد والا ملک ہے ، اور قومی اوسط 40.2 فیصد علاقائی (31.7 فیصد) اور عالمی (22.3 فیصد) اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ بچے اسٹنٹنگ کا شکار ہیں۔
ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ہر سال تقریباً 20 لاکھ نئے بچے اسٹنٹنگ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ کوئی تحقیقی مواد براہ راست “20 لاکھ نئے کیسز سالانہ” کی تصدیق نہیں کرتا، لیکن تقریباً 40 فیصد کی بلند شرح کا برقرار رہنا (جبکہ 5 سال سے کم عمر بچوں کی آبادی تقریباً 3 کروڑ ہے ) اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہر سال ایک بڑی تعداد میں بچے نئے سرے سے اسٹنٹنگ کا شکار ہوتے ہیں تاکہ مجموعی تعداد اتنی زیادہ رہے۔ پاکستان میں اسٹنٹنگ میں کمی کی رفتار انتہائی سست ہے، جو سالانہ صرف 0.5 فیصد ہے، جبکہ عالمی ہدف 3.9 فیصد ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں میں اسٹنٹنگ کی شرح میں انتہائی معمولی کمی (2001-02 میں 41.6 فیصد سے کم ہو کر 2018 میں 40.2 فیصد ) اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ مسئلہ انتہائی گہرائی تک سرایت کر چکا ہے اور موجودہ حکمت عملیاں اس میں کوئی خاطر خواہ کمی لانے میں ناکام رہی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملیوں پر یکسر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بنیادی وجوہات – غربت، ماؤں کی غذائی قلت، صفائی و ستھرائی کی ناقص

صورتحال، تعلیم کی کمی – کو منظم طریقے سے حل نہیں کیا جا رہا۔
اسٹنٹنگ کا مسئلہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ ماؤں میں غذائی قلت کی بلند شرح (مثلاً، بچہ پیدا کرنے کی عمر کی 41.7 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں ؛ ہر تین میں سے ایک ماں غذائی قلت کا شکار ہے ) کم وزن والے بچوں کی پیدائش (LBW) کا باعث بنتی ہے، جو اسٹنٹنگ کا ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہ ماں سے بچے میں منتقل ہونے والا ایک شیطانی چکر پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا، اسٹنٹنگ کی روک تھام حمل سے پہلے شروع ہونی چاہیے اور حمل کے دوران اور ابتدائی بچپن تک جاری رہنی چاہیے۔
ب. ویسٹنگ (Wasting) اور شدید غذائی قلت: بقا کے لیے فوری خطرہ
فراہم کردہ معلومات کے مطابق، لاکھوں بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ اعداد و شمار انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسفیکیشن (IPC) کے اعداد و شمار سے مطابقت رکھتے ہیں، جس کے مطابق 32 تجزیہ شدہ اضلاع میں 6 سے 59 ماہ کی عمر کے 21 لاکھ 40 ہزار بچے شدید غذائی قلت (MAM یا SAM) کا شکار ہیں اور انہیں فوری علاج کی ضرورت ہے۔ ان میں 598,802 شدید ترین غذائی قلت (SAM) اور 1,544,910 درمیانی شدید غذائی قلت (MAM) کے کیسز شامل ہیں۔ پاکستان میں SAM کی شرح جنوبی ایشیائی خطے سے دوگنی اور عالمی اوسط سے چار گنا زیادہ ہے۔
5 سال سے کم عمر بچوں میں ویسٹنگ کی شرح 17.7 فیصد (یعنی 50 لاکھ بچے) ہے ۔ تاہم، پاکستان اکنامک سروے 2022-23 میں 2019 میں ویسٹنگ کی شرح 7.1 فیصد بتائی گئی ہے، جو ایشیائی خطے کی اوسط (8.9 فیصد) سے کم ہے ۔ یہ فرق مختلف سروے یا تعریفوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے، جسے رپورٹ میں نوٹ کیا جانا چاہیے۔ SAM کی جان لیوا نوعیت کو بھی اجاگر کرنا ضروری ہے؛ ریڈی ٹو یوز تھیراپیوٹک فوڈ (RUTF) کے ساتھ 90 فیصد کامیابی کی شرح اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کے بغیر موت کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔
شدید غذائی قلت خاص طور پر بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا کے مخصوص اضلاع میں مرکوز ہے، جہاں 23 اضلاع IPC AMN فیز 4 (انتہائی نازک) میں شامل ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ قومی اوسط شدید مقامی ہنگامی صورتحال کو چھپا سکتی ہے۔ ان علاقوں میں وسائل کی تقسیم

اور ہنگامی ردعمل کو جغرافیائی طور پر ہدف بنانے کی ضرورت ہے۔
2022 کے سیلاب نے صحت کی خدمات، پانی، صفائی ستھرائی اور روزگار کے ذرائع کو بری طرح متاثر کر کے شدید غذائی قلت کو مزید بگاڑ دیا، خاص طور پر پہلے سے کمزور اضلاع میں۔ بلند افراط زر نے غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی کو مزید محدود کر دیا ہے۔ یہ عوامل پاکستان کے بچوں کی بیرونی جھٹکوں کے سامنے کمزوری اور لچکدار خوراک اور صحت کے نظام کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔
ج. کم پیدائشی وزن (LBW): ایک کمزور آغاز
فراہم کردہ معلومات کے مطابق، 22 فیصد نوزائیدہ بچوں کا وزن پیدائش کے وقت کم ہوتا ہے۔ یہ یونیسف کے اعداد و شمار سے مطابقت رکھتا ہے جس کے مطابق LBW کی قومی اوسط 22.7 فیصد ہے، جو عالمی سطح پر سب سے زیادہ بوجھ میں سے ایک ہے، اور کچھ صوبوں میں یہ شرح 50 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ دیگر ذرائع کے مطابق، LBW کا پھیلاؤ شہری علاقوں میں 19 فیصد سے لے کر دیہی علاقوں میں 32 فیصد تک ہے۔ یونیسف کے اعداد و شمار کا ایک اور تجزیہ LBW کا پھیلاؤ 32 فیصد ظاہر کرتا ہے۔ گلوبل نیوٹریشن رپورٹ 2022 کے مطابق LBW کے اہداف پر پیش رفت کا اندازہ لگانے کے لیے ناکافی ڈیٹا موجود ہے۔
کم پیدائشی وزن کی بنیادی وجوہات میں ماؤں کی ناقص غذائیت ، ماؤں میں خون کی کمی ، قبل از پیدائش دیکھ بھال کی کمی، کم عمری کی شادیاں، اور صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال شامل ہیں۔ کم پیدائشی وزن کوئی الگ تھلگ مسئلہ نہیں بلکہ نوزائیدہ بچوں کی بیماریوں، اموات، اور طویل مدتی نتائج جیسے اسٹنٹنگ اور ترقیاتی کمیوں کا ایک اہم پیش خیمہ ہے۔ LBW سے نمٹنا غذائی قلت کے چکر کو توڑنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
د. بچپن میں خون کی کمی (Anemia): خاموش وبا
فراہم کردہ معلومات کے مطابق، 53 فیصد بچے (6-59 ماہ) خون کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ یونیسف کے اعداد و شمار سے مطابقت رکھتا ہے: 5 سال سے کم عمر کے 53.7 فیصد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ 1988 کے قومی غذائیت سروے میں 7 سے 60 ماہ کی عمر کے 65 فیصد بچے خون کی کمی کا شکار پائے گئے تھے۔ کراچی کی شہری کچی آبادیوں میں کی گئی ایک تحقیق میں 6 سے 60 ماہ کی عمر کے 70 فیصد بچے خون کی کمی کا شکار پائے گئے۔ گوادر میں کی گئی ایک تحقیق میں 15 سال سے کم عمر کے 64.6 فیصد بچے خون کی کمی کا شکار پائے گئے، جن میں سب سے زیادہ شرح (74.5 فیصد) 6-59 ماہ کی عمر کے گروپ میں تھی۔ قومی غذائیت سروے 2011-2012 میں 6-59 ماہ کی عمر کے بچوں میں آئرن کی کمی سے ہونے والی خون کی کمی (IDA) کا پھیلاؤ 33.2 فیصد پایا گیا۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ “خون کی کمی” مختلف وجوہات کی بناء پر ہو سکتی ہے، جبکہ IDA خاص طور پر آئرن کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ 53 فیصد کا आंकड़ा ممکنہ طور پر عمومی خون کی کمی کا ہے۔
خون کی کمی کے نتائج میں علمی اور جسمانی نشوونما میں رکاوٹ، اور جسمانی سرگرمیوں میں کمی شامل ہیں۔ خون کی کمی کا بلند پھیلاؤ بچوں کی علمی نشوونما، اسکولی کارکردگی، اور مستقبل کی پیداواری صلاحیت پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، جس سے غربت کا چکر مزید مضبوط ہوتا ہے۔ خون کی کمی کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کا مطلب ہے کہ مستقبل کی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ ایک نقصان کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کر رہا ہے۔
جدول 1: پاکستان میں بچوں کی صحت اور غذائیت کے اہم اشاریوں کا جائزہ
اشاریہ | پھیلاؤ/شرح | متاثرہ آبادی (تخمینہ) | کلیدی ڈیٹا کا ذریعہ/سال |
اسٹنٹنگ (5 سال سے کم) | ~40% (37.6% – 40.2%) | 1 کروڑ 20 لاکھ | NNS 2018/2019, UNICEF 2018/2023 |
ویسٹنگ (5 سال سے کم) / SAM (5 سال سے کم) | ویسٹنگ: ~18% (UNICEF) / 7.1% (PES)؛ SAM: ~600,000 (IPC) | ویسٹنگ: 50 لاکھ (UNICEF)؛ SAM: 598,802 | UNICEF 2018/2023, PES 2019, IPC 2023 |
کم پیدائشی وزن (LBW) | ~22-32% | دستیاب نہیں | UNICEF, WHO |
خون کی کمی (5 سال سے کم) | ~53% | دستیاب نہیں | UNICEF 2020, NNS |
اسکول سے باہر بچے (5-16 سال) | ~32-44% | 2 کروڑ 28 لاکھ – 2 کروڑ 62 لاکھ | UNICEF, WFP |
ایک دوسرے سے جڑے بحران: تعلیم اور شدید علاقائی تفاوت
الف. اسکول سے باہر بچے (OOSC): مستقبل کی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹیں
فراہم کردہ معلومات کے مطابق، 32 فیصد بچے (5-16 سال) اسکول سے باہر ہیں۔ یہ اعداد و شمار دیگر تخمینوں کے مطابق ہیں؛ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 2 کروڑ 28 لاکھ بچے (5-16 سال) اسکول سے باہر ہیں، جو اس عمر کے گروپ کی کل آبادی کا 44 فیصد ہے۔ ایک اور یونیسف رپورٹ کے مطابق تقریباً 2 کروڑ 62 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ عالمی ادارہ خوراک و زراعت (WFP) کے مطابق 2 کروڑ 60 لاکھ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ پاکستان اسکول سے باہر بچوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔
لڑکیاں اس مسئلے سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔ 5-16 سال کی عمر کی 52.6 فیصد لڑکیاں (1 کروڑ 38 لاکھ) اسکول سے باہر ہیں، جبکہ لڑکوں کی شرح 47.3 فیصد (1 کروڑ 24 لاکھ) ہے۔ سندھ میں، غریب ترین گھرانوں کی 58 فیصد لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں؛ بلوچستان میں، 78 فیصد لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کی شرح پرائمری (67 فیصد) سے لوئر سیکنڈری (47 فیصد) اور پھر اپر سیکنڈری (23 فیصد) تک تیزی سے کم ہوتی جاتی ہے۔ ابتدائی بچپن کی تعلیم (ECE) میں 3-5 سال کی عمر کے صرف 18.9 فیصد بچے داخل ہیں ، جس سے ابتدائی عمر میں سیکھنے کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔
اسکول سے باہر بچوں کی بلند شرح نہ صرف غربت اور خراب صحت کا نتیجہ ہے بلکہ یہ مستقبل کے مواقع کو محدود کر کے، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے، اس چکر کو مزید تقویت بخشتی ہے۔ غذائی قلت خود سیکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے، جس سے ان بچوں کے لیے تعلیمی حصول مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جو اسکول جاتے بھی ہیں۔ آج لڑکیوں کی تعلیم کی کمی کا مطلب ہے کہ کل وہ ایسی مائیں بنیں گی جن میں صحت اور غذائیت سے متعلق آگاہی کم ہو گی، جس سے اگلی نسل کی غذائی حیثیت متاثر ہو گی۔ یہ ایک طاقتور ربط ہے جو موجودہ تعلیمی ناکامیوں کو مستقبل کے صحت کے بحرانوں سے جوڑتا ہے۔
ب. تھرپارکر: بچوں کی اموات اور غذائی قلت کا مرکز
فراہم کردہ معلومات کے مطابق، تھر میں سالانہ سینکڑوں اموات ہوتی ہیں۔ رپورٹس اس بلند شرح اموات کی تصدیق کرتی ہیں: 2014 میں، مٹھی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال میں 150 بچے جاں بحق ہوئے ۔ 2016 تک کے 5 سالوں میں تھرپارکر میں غذائی قلت اور بھوک کی وجہ سے 1900 سے زائد بچے ہلاک ہوئے۔ 2021 میں، تھر اور ملحقہ اضلاع میں 600 سے زائد بچوں کی اموات رپورٹ ہوئیں؛ اس سے پچھلے سال یہ تعداد 500 تھی۔ جنوری 2022 میں صرف تھر میں 36 سے زائد بچوں کی اموات ہوئیں۔
IPC کے تجزیہ کردہ 32 اضلاع میں تھرپارکر میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد سب سے زیادہ (240,140) ہے اور اسے IPC AMN فیز 4 (انتہائی نازک) میں شمار کیا گیا ہے۔ تھر میں اس بحران کی وجوہات میں غذائی قلت (بڑھتی ہوئی آبادی، خوراک میں سبز چیزوں کی عدم موجودگی، جانوروں کی کم پیداوار کی وجہ سے)، غربت کی وجہ سے نامناسب خوراک، تربیت یافتہ دائیاں کی کمی، صحت کی سہولیات تک مشکل رسائی، ماؤں کی غذائی قلت کے باعث کم وزن والے بچوں کی پیدائش، صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال، دودھ پلانے کے طریقوں میں کمی، کم عمری کی شادیاں، اور خاندانی منصوبہ بندی کا فقدان شامل ہیں۔
تھرپارکر کا بحران قومی سطح پر دیکھے جانے والے غذائی قلت اور اموات کے تمام بڑے محرکات – انتہائی غربت، شدید غذائی عدم تحفظ، ماؤں کی خراب صحت، صحت کی سہولیات تک رسائی کا فقدان، پانی کی قلت، اور کم عمری کی شادی جیسی سماجی و ثقافتی رسومات – کے مہلک امتزاج کی مثال پیش کرتا ہے۔ یہ ایک انسانی تباہی ہے جس کے لیے محض وقتی اقدامات سے زیادہ کی ضرورت ہے۔
جدول 2: ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور اموات کا منظرنامہ
اشاریہ | شرح/تعداد | ذریعہ/سال |
رپورٹ شدہ بچوں کی اموات (سالانہ/مخصوص مدت) | 2021 میں 600+ اموات؛ جنوری 2022 میں 36+ اموات | |
شدید غذائی قلت کے شکار بچے (5 سال سے کم) | 240,140 | IPC 2023 |
IPC AMN فیز | فیز 4 (انتہائی نازک) | IPC 2023 |
تھر کے لیے مخصوص اہم contributory عوامل | غذائی قلت، غربت، صحت کی سہولیات کی کمی، پانی کی قلت، کم عمری کی شادیاں |
محرکات کو سمجھنا: پاکستان کے غذائی قلت کے بحران کو ہوا دینے والا شیطانی چکر
پاکستان میں غذائی قلت کا بحران متعدد پیچیدہ اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے عوامل کا نتیجہ ہے۔ ان محرکات کو سمجھنا اس مسئلے کے مؤثر حل کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
خوراک کا عدم تحفظ اور غربت: گھرانوں میں خوراک کی ناکافی مقدار اور معیار ایک بڑا مسئلہ ہے۔ 5 سال سے کم عمر کے 38 فیصد بچے شدید غذائی غربت کا شکار ہیں، جبکہ 47 فیصد درمیانی غذائی غربت کا شکار ہیں۔ تقریباً نصف گھریلو اخراجات خوراک پر ہوتے ہیں، اور 82 فیصد آبادی صحت بخش خوراک برداشت نہیں کر سکتی۔ ملک میں کثیر الجہتی غربت بلند ہے ؛ تجزیہ شدہ اضلاع میں تقریباً 64 فیصد آبادی اس کا شکار ہے۔ غربت اسٹنٹنگ کا ایک بنیادی محرک ہے۔
ماؤں کی ناقص غذائیت اور صحت: یہ شدید غذائی قلت کا ایک اہم محرک ہے۔ ہر تین میں سے ایک ماں غذائی قلت کا شکار ہے ، اور بچہ پیدا کرنے کی عمر کی 41.3 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال کم وزن والے بچوں کی پیدائش کا باعث بنتی ہے۔
بچوں کی ناکافی دیکھ بھال اور خوراک کے طریقے: خصوصی طور پر ماں کا دودھ پلانے کی شرح کم ہے ۔ اگرچہ 0-5 ماہ کے بچوں کو خصوصی طور پر ماں کا دودھ پلانے کی شرح 47.8 فیصد ہے (جو ہدف کے مطابق ہے )، لیکن تکمیلی خوراک کے طریقے ناقص ہیں۔
صفائی و ستھرائی (WASH) کی ناقص سہولیات: یہ شدید غذائی قلت کا ایک اہم محرک ہے اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں اسٹنٹنگ میں کردار ادا کرتا ہے۔ 4 کروڑ 10 لاکھ افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔
بیماریوں کا زیادہ بوجھ: اسہال، سانس کی شدید بیماریاں (ARI)، اور بخار کی بلند شرحیں غذائی قلت کو مزید بگاڑتی ہیں۔
معاشی عدم استحکام اور افراط زر: جاری معاشی بحران، افراط زر، اور غربت خوراک تک رسائی کو مزید خراب کر رہے ہیں۔ خوراک اور ایندھن کی قیمتیں ریکارڈ بلند سطح پر ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیاں اور ماحولیاتی جھٹکے: 2022 کے سیلاب اور خشک سالی نے فصلوں، مویشیوں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے، اور خدمات میں خلل ڈال کر غذائی قلت کو مزید بڑھایا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے 8واں سب سے زیادہ کمزور ملک ہے۔ موسمیاتی آفات محض الگ تھلگ واقعات نہیں بلکہ موجودہ کمزوریوں کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں، جس سے خوراک کی حفاظت، صفائی ستھرائی، اور صحت کی خدمات تک رسائی تباہ کن حد تک متاثر ہوتی ہے، اور اس طرح غذائی قلت کا بحران گہرا ہوتا جاتا ہے۔
والدین کی تعلیم کی کمی (خاص طور پر ماؤں کی): اس کا اسٹنٹنگ اور مجموعی طور پر بچوں کی غذائی قلت سے گہرا تعلق ہے۔ تعلیم یافتہ مائیں صحت کے طریقوں کے بارے میں بہتر معلومات رکھتی ہیں۔
صنفی عدم مساوات: خواتین اور لڑکیاں غذائی قلت سے متعلقہ بوجھ کا زیادہ شکار ہوتی ہیں اور انہیں وسائل اور فیصلہ سازی کی طاقت تک کم رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بچیاں اسٹنٹنگ کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔
صحت کی سہولیات تک محدود رسائی: یہ اسٹنٹنگ اور مجموعی طور پر خراب صحت کے نتائج کا ایک contributory عامل ہے۔
اعداد و شمار مسلسل یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین کی حیثیت – ان کی صحت، تعلیم، اور فیصلہ سازی کی طاقت – بچوں کی غذائی نتائج کا ایک مرکزی تعین کنندہ ہے۔ پاکستان میں بچوں کی غذائی قلت سے نمٹنا خواتین کو بااختیار بنانے سے اٹوٹ طور پر جڑا ہوا ہے۔ ماؤں کی تعلیم اور بچوں کی غذائیت کے درمیان مضبوط تعلق ، ماؤں میں خون کی کمی کی بلند شرح ، وسائل تک رسائی میں صنفی تفاوت ، اور کم عمری کی شادی کے اثرات سب اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
جدول 3: پاکستان میں بچوں کی غذائی قلت کے اہم محرکات اور ان کے باہمی روابط
محرک کا زمرہ | مخصوص مظاہر | غذائی نتائج پر اثرات | کلیدی حوالہ(جات) |
غربت اور خوراک کا عدم تحفظ | صحت بخش خوراک برداشت نہ کر سکنا؛ کثیر الجہتی غربت | اسٹنٹنگ، ویسٹنگ | |
ماؤں کی صحت و تعلیم | ماؤں میں خون کی کمی کی بلند شرح؛ تعلیم کی کمی | کم پیدائشی وزن، اسٹنٹنگ، مجموعی غذائی قلت | |
صفائی و ستھرائی (WASH) | کھلے میں رفع حاجت؛ پینے کے صاف پانی کی کمی | اسہال، بیماریاں، اسٹنٹنگ، ویسٹنگ | |
موسمیاتی تبدیلیاں | سیلاب سے فصلوں کا نقصان؛ خشک سالی | خوراک کا عدم تحفظ، غذائی قلت میں اضافہ | |
صحت کی سہولیات تک رسائی | تربیت یافتہ دائیوں کی کمی؛ دور دراز علاقوں میں سہولیات کا فقدان | بیماریوں کا زیادہ پھیلاؤ، زچگی کی پیچیدگیاں | |
صنفی عدم مساوات | لڑکیوں کو خوراک اور وسائل تک کم رسائی؛ فیصلہ سازی میں کم اختیارات | لڑکیوں میں غذائی قلت، ماؤں کی خراب صحت |
عالمی تناظر اور سپلائی کے بڑھتے ہوئے چیلنجز: پاکستان عالمی سطح پر
الف. شدید متاثرہ ممالک میں پاکستان کا مقام
فراہم کردہ معلومات کے مطابق، پاکستان کا شمار 12 سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں ہوتا ہے۔ یونیسف نے پاکستان کو ان 15 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں شدید ویسٹنگ سے نمٹنے کے لیے ایک تیز رفتار منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے۔ پاکستان ان 12 ممالک میں بھی شامل ہے جو عالمی خوراک اور غذائیت کے بحران سے شدید متاثر ہیں، جہاں حاملہ/دودھ پلانے والی خواتین اور نوعمر لڑکیوں میں شدید غذائی قلت میں اضافہ ہوا ہے۔
گلوبل ہنگر انڈیکس (GHI) 2024 میں، پاکستان 127 ممالک میں سے 109 ویں نمبر پر ہے، جس کا اسکور 27.9 ہے، جو بھوک کی “سنگین” سطح کی نشاندہی کرتا ہے۔ GHI کے اجزاء میں غذائی قلت 20.7 فیصد، بچوں میں اسٹنٹنگ 33.2 فیصد (نوٹ: GHI اپنے اعداد و شمار استعمال کرتا ہے جو قومی سروے جیسے NNS 40.2 فیصد سے قدرے مختلف ہو سکتے ہیں)، بچوں میں ویسٹنگ 10.1 فیصد، اور بچوں کی شرح اموات 6.1 فیصد ہے۔ پاکستان عالمی سطح پر اسٹنٹنگ کے شکار بچوں کی تیسری سب سے بڑی تعداد والا ملک ہے۔
ب. آنے والا بحران: زندگی بچانے والی خوراک کی سپلائی میں کمی
فراہم کردہ معلومات میں مارچ 2025 تک زندگی بچانے والی خوراک کی سپلائی ختم ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ عالمی فنڈنگ میں کٹوتیوں کی وجہ سے ریڈی ٹو یوز تھیراپیوٹک فوڈ (RUTF) اور دیگر ضروری غذائی سپلائیز کو درپیش خطرے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یونیسف کی ایک پریس ریلیز (مبینہ طور پر 27 مارچ 2025 کی، جو ممکنہ طور پر 2024 کی تاریخ کی غلطی یا پرانی تاریخ سے پیش گوئی ہو سکتی ہے) خبردار کرتی ہے کہ فنڈنگ میں کٹوتیوں کی وجہ سے 2025 میں عالمی سطح پر کم از کم 1 کروڑ 40 لاکھ بچے غذائی امداد اور خدمات میں رکاوٹوں کا سامنا کریں گے۔ خاص طور پر، SAM کا شکار 24 لاکھ سے زائد بچے 2025 کے بقیہ حصے میں RUTF سے محروم ہو سکتے ہیں۔
سیو دی چلڈرن (اپریل 2025 – تاریخ کا وہی مسئلہ) کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے زیر اہتمام 10 ممالک میں (جن میں پاکستان کا نام واضح طور پر اس فہرست میں شامل نہیں، لیکن عمومی خطرہ عالمی ہے) 110,000 شدید غذائی قلت کے شکار بچے RUTF تک رسائی سے محروم ہو سکتے ہیں۔ عالمی RUTF سپلائی ضرورت کے 40 فیصد سے بھی کم کو پورا کرتی ہے، اور 2025 میں صورتحال مزید خراب ہونے کی توقع ہے۔ اگرچہ یونیسف پاکستان کی صورتحال رپورٹ (مارچ 2025، ) پاکستان میں غذائی قلت کے محرکات اور خوراک کے عدم تحفظ پر بات کرتی ہے، لیکن یہ خاص طور پر پاکستان کے لیے مارچ 2025 میں RUTF کی کٹوتی کی براہ راست تصدیق نہیں کرتی، تاہم ضرورت کے تناظر کو واضح کرتی ہے۔ اس رپورٹ کو اس سنگین عالمی خطرے کو پاکستان کے لیے ممکنہ شدید مضمرات کے ساتھ پیش کرنا چاہیے، کیونکہ یہاں SAM کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔
RUTF کا ممکنہ بحران پاکستان کی کمزوری کو اجاگر کرتا ہے جو اہم زندگی بچانے والی سپلائیز کے لیے بین الاقوامی امداد پر انحصار کی وجہ سے ہے۔ ڈونر ممالک میں فنڈنگ کی کمی کے براہ راست اور تباہ کن نتائج مقامی سطح پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی ضروریات کے باوجود – موسمیاتی جھٹکوں، معاشی بحرانوں، اور جاری تنازعات کی وجہ سے – غذائیت کے لیے عالمی فنڈنگ مبینہ طور پر سکڑ رہی ہے۔ یہ بڑھتا ہوا فرق لاکھوں بچوں کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے۔
قومی و بین الاقوامی ردعمل کی کوششیں: بڑے چیلنج سے نمٹنا
پاکستان میں بچوں کی غذائی قلت کے وسیع اور پیچیدہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
الف. حکومتی اقدامات اور حکمت عملی
قومی کثیر الشعبہ جاتی غذائیت پروگرام برائے اسٹنٹنگ اور دیگر اقسام کی غذائی قلت میں کمی (2023): اس کا مقصد مقامی شواہد جمع کرنا، حل تیار کرنا، خوراک کے سپلیمنٹس کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو مضبوط کرنا، اور غذائیت کو تعلیم میں ضم کرنا ہے۔
کثیر الشعبہ جاتی غذائیت حکمت عملی (2018-2025): مختلف قومی ورکنگ گروپس کی زیر نگرانی ہے۔
احساس پروگرام: غربت کے خاتمے کا کثیر ارب روپے کا پروگرام جس میں غذائیت سے متعلق حساس اور مخصوص اجزاء شامل ہیں۔ اس نے کووڈ-19 کے دوران ہنگامی نقد امداد بھی فراہم کی۔
بے نظیر نشوونما پروگرام (BNP): WFP کے تعاون سے، یہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین (PBW) اور بچوں کو خصوصی غذائیت سے بھرپور خوراک، صحت کی خدمات، اور غذائیت سے متعلق تعلیم فراہم کرتا ہے۔ 2020 سے اب تک 32 لاکھ سے زائد PBW اور چھوٹے بچوں کو اس پروگرام کے ذریعے مدد فراہم کی گئی ہے۔ اس میں یونیسف اور WHO کی شراکت سے غذائی قلت کے شکار PBW اور بچوں کا علاج بھی شامل ہے۔
نوعمروں کے لیے غذائی سپلیمنٹیشن گائیڈ لائنز (2020): صحت مند خوراک، جسمانی سرگرمی، اسکولوں میں غیر صحت بخش اشیاء پر پابندی، اسکریننگ، اور آئرن/فولک ایسڈ سپلیمنٹیشن کے لیے سفارشات۔
توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات (EPI): بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے کا مقصد۔
ب. بین الاقوامی تنظیموں اور این جی اوز کا کردار
یونیسف (UNICEF): اسٹنٹنگ میں کمی کے پروگرام، مائیکرو نیوٹرینٹ سپلیمنٹیشن، WASH اقدامات، RUTF کے ساتھ SAM کا علاج۔ ویسٹنگ کی روک تھام، جلد تشخیص، اور انتظام کی خدمات کو مضبوط کیا، لاکھوں کی اسکریننگ کی اور ہزاروں کا علاج کیا۔ اسکول سے باہر بچوں کے مسائل، ECE، اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے پر کام کرتا ہے۔ چائلڈ نیوٹریشن فنڈ (CNF) کی قیادت کرتا ہے تاکہ غذائیت کی پالیسیوں اور سپلائیز کو بڑھایا جا سکے۔
عالمی ادارہ خوراک (WFP): BNP کی حمایت کرتا ہے۔ اسکولوں میں کھانا اور نوعمر لڑکیوں کے لیے مشروط نقد وظائف فراہم کرتا ہے۔ غذائی قلت کے شکار بچوں اور خواتین کے لیے ٹارگٹڈ سپلیمنٹری فیڈنگ پروگرام (TSFP)۔
سیو دی چلڈرن
(Save the Children): طویل عرصے سے موجود، صحت و غذائیت، تعلیم، بچوں کے تحفظ، روزگار، اور انسانی ہمدردی کے ردعمل میں اہم سرمایہ کاری۔ سیلاب کے ردعمل کی کوششیں، بشمول میڈیکل کیمپ اور امداد۔ “بہتر غذائیت کے لیے خاندانوں کو وسائل فراہم کرنا” کا طریقہ کار، جس میں نقد منتقلی کے ذریعے ویسٹنگ میں کمی دیکھی گئی۔
ایکشن اگینسٹ ہنگر (Action Against Hunger): RUTF کی تاثیر اور جدت پر توجہ۔ پاکستان میں SAM کے علاج میں پینے کے صاف پانی پر تحقیق سمیت غذائی قلت کی روک تھام اور علاج پر تحقیق۔
دیگر این جی اوز اور اقدامات: ہیومینیم (آگاہی، )، حصار فاؤنڈیشن (تھرپارکر، )۔
ج. ریڈی ٹو یوز تھیراپیوٹک فوڈ (RUTF) اور علاج کے پروٹوکول
RUTF مونگ پھلی پر مبنی پیسٹ/بسکٹ ہے جو SAM کے علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کی کامیابی کی شرح 90 فیصد ہے۔ اس کی خصوصیات میں طویل شیلف لائف، ریفریجریشن کی ضرورت نہ ہونا، اور گھر پر استعمال کی اہلیت شامل ہے۔ اس نے SAM کے علاج میں انقلاب برپا کیا ہے، جس سے گھر پر مبنی دیکھ بھال ممکن ہوئی ہے۔ تاہم، لاگت ایک بڑی رکاوٹ ہے؛ موجودہ سپلائی عالمی ضرورت کا صرف ایک حصہ پورا کرتی ہے۔ اسے مزید کم خرچ بنانے کی کوششیں جاری ہیں (متبادل پروٹین، مقامی پیداوار)۔
متعدد قومی پروگراموں اور اہم بین الاقوامی امداد کے باوجود، بنیادی غذائی قلت کے اشاریے stubbornly بلند ہیں۔ یہ پروگراموں کے پیمانے، کوریج، پائیداری، ہم آہنگی، یا ان بنیادی سماجی و معاشی چیلنجوں کی گہرائی میں ممکنہ مسائل کی نشاندہی کرتا ہے جن پر یہ پروگرام قابو پانے میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگرچہ علاج میں جدت آ رہی ہے (مثلاً RUTF، ComPAS جیسے آسان پروٹوکول )، بنیادی چیلنج پہلی جگہ غذائی قلت کی روک تھام میں ہے، جس کے لیے محرکات کے پیچیدہ جال (خوراک کی حفاظت، WASH، ماؤں کی تعلیم، غربت) سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
نتیجہ: ایک عمل کی دعوت – پاکستان کی آئندہ نسل کا تحفظ
یہ رپورٹ پاکستان میں بچوں کی صحت و غذائیت کی سنگین اور کثیر الجہتی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے، جیسا کہ فراہم کردہ معلومات اور دستیاب تحقیق سے واضح ہے۔ لاکھوں پاکستانی بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، جو غذائی قلت اور مواقع کی کمی کی دائمی حالت سے دوچار ہیں، اور اب عالمی فنڈنگ کی غیر یقینی صورتحال سے مزید خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔
یہ بحران الگ تھلگ مسائل کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے چیلنجز کا ایک پیچیدہ جال ہے جہاں غربت، خوراک کی کمی، ماؤں کی ناقص صحت، تعلیم کا فقدان، صفائی و ستھرائی کی خراب صورتحال، اور موسمیاتی تبدیلیاں مل کر ایک تباہ کن صورتحال پیدا کرتی ہیں۔ RUTF جیسی زندگی بچانے والی امداد کی فراہمی میں ممکنہ رکاوٹیں اس بحران کو مزید سنگین بنا سکتی ہیں، جس کے لیے فوری توجہ اور وسائل کی ضرورت ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط، وسیع پیمانے پر، اور پائیدار کثیر الشعبہ جاتی ردعمل کی ضرورت ہے جو بنیادی وجوہات کو نشانہ بنائے، سب سے زیادہ کمزور طبقوں کو ترجیح دے، اور لچکدار نظاموں میں سرمایہ کاری کرے۔ اس میں نہ صرف ہنگامی امداد بلکہ طویل مدتی ترقیاتی حکمت عملی بھی شامل ہونی چاہیے جو خوراک کی حفاظت، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، اور سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط بنائے۔
خواتین کی تعلیم اور بااختیاری اس مسئلے کے حل کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔ تعلیم یافتہ اور صحت مند مائیں صحت مند بچوں کی پرورش کرتی ہیں، جس سے نسل در نسل غذائی قلت کا چکر ٹوٹتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کی حکمت عملی بھی ناگزیر ہے، کیونکہ یہ غذائی تحفظ اور صحت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔
آخر میں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بچوں کی غذائی قلت اور تعلیمی محرومی کو جاری رہنے دینا نہ صرف ایک اخلاقی ناکامی ہے بلکہ پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ بچوں کی غذائیت اور تعلیم میں سرمایہ کاری ملک کے مستقبل کے انسانی سرمائے اور خوشحالی میں سرمایہ کاری ہے۔ قومی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے ایک نئے عزم اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ایک بگڑتی ہوئی تباہی کو روکا جا سکے اور پاکستان کے ہر بچے کو زندہ رہنے، پھلنے پھولنے اور اپنی پوری صلاحیتوں تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا جا سکے۔