Thursday, July 17, 2025
Home Blog قانون (نظریہ) مفرد اعضاءبانی، شارحین، اور علمی وراثت

قانون (نظریہ) مفرد اعضاءبانی، شارحین، اور علمی وراثت

by admin
قانون (نظریہ) مفرد اعضاء بانی، شارحین، اور علمی وراثت
قانون (نظریہ) مفرد اعضاء بانی، شارحین، اور علمی وراثت
قانون (نظریہ) مفرد اعضاء بانی، شارحین، اور علمی وراثت

نظریہ مفرد اعضاء: بانی، شارحین، اور علمی وراثت پر ایک تحقیقی جائزہ

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

حصہ اول: نظریہ مفرد اعضاء کا تعارف اور بنیادی اصول

طب کی دنیا میں بیسویں صدی کے دوران متعدد نئے نظریات اور اصلاحی تحریکوں نے جنم لیا، جن کا مقصد قدیم طبی روایات کو جدید سائنسی تفہیم اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں، اسی نوعیت کی ایک اہم اور প্রভাবশালী تحریک “نظریہ مفرد اعضاء” یا “قانونِ مفرد اعضاء” کے نام سے ابھری۔ یہ طبی فلسفہ، جو کہ اپنی اساس میں ایک کلّیاتی (Holistic) طریقِ علاج ہے 1، انسانی صحت، مرض اور علاج کو ایک منفرد زاویے سے دیکھتا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد اس تصور پر قائم ہے کہ انسانی جسم کے تمام افعال اور امراض کا مرکز تین بنیادی یا رئیس اعضاء (Principal Organs) ہیں: قلب (دل اور عضلاتی نظام)، دماغ (دماغ اور اعصابی نظام)، اور جگر (جگر اور غددی نظام)۔ یہ نظریہ طبِ یونانی کے روایتی اور پیچیدہ تصورِ اخلاطِ اربعہ (خون، بلغم، صفرا، سودا) کو ایک سادہ، منظم اور قابلِ فہم سہ رکنی نظام میں پیش کرتا ہے، جس نے اسے اطباء کی ایک بڑی تعداد کے لیے پرکشش بنا دیا۔

یہ بھی مطالعہ کریں

رہبر نظریہ مفرد اعضاء

تعریف اور فلسفہ

قانونِ مفرد اعضاء، جسے انگریزی میں “Single Organ Philosophy” بھی کہا جاتا ہے 1، اس اصول پر مبنی ہے کہ جسم میں کوئی بھی بیماری پورے جسم پر یکساں اثر انداز نہیں ہوتی، بلکہ اس کا آغاز کسی ایک بنیادی عضو (مفرد عضو) میں کیمیائی یا فعلیاتی تبدیلی سے ہوتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، انسانی جسم تین بڑے نظاموں پر مشتمل ہے جن کی سربراہی تین اعضائے رئیسہ کرتے ہیں:

عضلاتی نظام (Muscular System): اس کا مرکز قلب (Heart) ہے۔ اس نظام کا تعلق جسم کی حرکات، توانائی اور ساخت سے ہے۔

اعصابی نظام (Nervous System): اس کا مرکز دماغ (Brain) ہے۔ یہ نظام احساسات، شعور، اور جسم کے تمام حصوں تک پیغامات کی ترسیل کا ذمہ دار ہے۔

غددی نظام (Glandular System): اس کا مرکز جگر (Liver) ہے۔ یہ نظام جسم کے کیمیائی افعال، ہارمونز کی پیداوار، اور استحالہ (Metabolism) کو کنٹرول کرتا ہے۔

نظریے کے مطابق ہر عضو کی تین حالتیں ہوتی ہیں: تحریک (Stimulation)، تحلیل (Deterioration/Analysis)، اور تسکین (Sedation)۔ جب ایک عضو میں تحریک ہوتی ہے تو وہ اپنے افعال میں تیز ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں دوسرے عضو میں تحلیل کا عمل شروع ہوتا ہے اور تیسرا عضو حالتِ تسکین میں چلا جاتا ہے۔ مرض دراصل اسی توازن کے بگڑنے کا نام ہے۔ تشخیص اور علاج کا تمام تر انحصار اسی بات پر ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ کون سا عضو غیر طبعی طور پر متحرک ہے، کون سا تحلیل ہو رہا ہے اور کون سا تسکین کی حالت میں ہے۔

طب یونانی سے تعلق

نظریہ مفرد اعضاء کے بانی اور پیروکار اس بات پر شدت سے زور دیتے ہیں کہ یہ کوئی نئی طب نہیں ہے، بلکہ یہ طبِ یونانی کی ہی ایک جدید، آسان اور “ایڈوانس شکل” ہے 2۔ اس کے بانی، حکیم دوست محمد صابر ملتانی، نے بارہا یہ واضح کیا کہ وہ خود کو طبِ یونانی کا ہی ایک نمائندہ سمجھتے ہیں اور ان کا مقصد طبِ یونانی کی تجدید کر کے اسے ایک ایسے انداز میں پیش کرنا تھا جو بیسویں صدی کے معالجین کے لیے زیادہ قابلِ عمل اور قابلِ فہم ہو 2۔

یہ فکری پوزیشن نہایت حکمتِ عملی پر مبنی تھی۔ ایک مکمل طور پر نئے طبی نظام کا دعویٰ کرنے کی بجائے، جو شاید روایتی طبی حلقوں میں شدید مخالفت کا باعث بنتا، اسے “تجدید” (renewal) کا نام دیا گیا۔ اس حکمتِ عملی نے نظریے کو طبِ یونانی کی صدیوں پرانی تاریخ اور علمی وقار سے منسلک رہنے کا موقع فراہم کیا، جبکہ ساتھ ہی ساتھ اسے روایتی طب کی پیچیدگیوں اور مبہم تصورات پر تنقید اور اصلاح کا جواز بھی مہیا کیا۔ اس طرح، یہ نظریہ ایک ہی وقت میں روایت کا وارث بھی بن گیا اور جدت کا علمبردار بھی، جس کی وجہ سے یہ طبِ یونانی کے موجودہ practitioners کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ محض ایک طبی نظریہ نہیں تھا، بلکہ ایک اصلاحی تحریک تھی جس کا مقصد طبِ یونانی کو از سرِ نو زندہ کرنا تھا۔

سائنسی بنیادوں کا دعویٰ

نظریہ مفرد اعضاء کے حامی اسے محض روایتی علم تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ اس کی بنیادوں کو سائنسی اور جدید اصولوں پر استوار قرار دیتے ہیں۔ اس دعوے کی ایک دلچسپ مثال ایک تحقیق میں ملتی ہے جس کا ذکر ایک دستاویز میں کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق، قانونِ مفرد اعضاء کی فارماکوپیا میں شامل تمام مرکبات کے ایک فیصد محلول (1% solution) ڈسٹل واٹر میں تیار کیے گئے اور ان کی pH (تیزابیت اور اساسیت کا پیمانہ) کو نوٹ کیا گیا۔ نتائج کے مطابق، تمام مرکبات کی pH بالکل اسی مزاج (Temperament) کے مطابق پائی گئی جو حکیم صابر ملتانی نے بیان کیا تھا 3۔

یہ کوشش اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ نظریے کے پیروکار روایتی تصورات (جیسے مزاج) اور جدید سائنسی پیمانوں (جیسے pH) کے درمیان ایک تعلق قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحریک طبِ قدیم کو جدید سائنس کی زبان میں بیان کرنے کی شعوری کوشش ہے تاکہ اسے معاصر علمی دنیا کے لیے زیادہ قابلِ قبول بنایا جا سکے۔ اگرچہ اس قسم کے دعوؤں کو وسیع تر سائنسی برادری میں قبولیت کے لیے مزید سخت اور ہم مرتبہ نظرثانی شدہ (peer-reviewed) تحقیق کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ اس تحریک کی فکری سمت کو واضح کرتا ہے۔

بنیادی تشخیصی اصول

اس نظریے میں تشخیص کے لیے نبض کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ نبض کو چھ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے، جو تینوں بنیادی اعضاء (قلب، دماغ، جگر) کی تحریک، تحلیل اور تسکین کی حالتوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ نبض کی درست پرکھ سے معالج یہ جان لیتا ہے کہ جسم کا کون سا نظام عدم توازن کا شکار ہے اور اسی کے مطابق علاج تجویز کرتا ہے۔

تشخیص کے علاوہ، علاج میں “علاج بالغذا” (treatment with food) کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ حکیم صابر ملتانی کی تحریروں میں اس اصول پر بہت زور ملتا ہے 4۔ نظریے کے مطابق، ہر غذا کا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے جو جسم کے تین نظاموں میں سے کسی ایک کو تحریک دیتا ہے۔ لہٰذا، درست غذا کا انتخاب کر کے بگڑے ہوئے مزاج کو متوازن کیا جا سکتا ہے۔ ادویات کا استعمال ثانوی حیثیت رکھتا ہے اور صرف اسی وقت کیا جاتا ہے جب مرض شدید ہو یا صرف غذا سے قابو میں نہ آ رہا ہو۔ ایک دستاویز میں کھانے کے اوقات کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے، جس کے مطابق ایک وقت کے کھانے کو ہضم ہونے کے لیے مناسب وقت دینا ضروری ہے تاکہ جسم میں زہریلے مواد پیدا نہ ہوں، جو بیماری کا سبب بنتے ہیں 5۔ یہ اصول بھی علاج بالغذا کے وسیع تر فلسفے کا ہی حصہ ہے۔

حصہ دوم: بانیِ نظریہ – حکیم انقلاب دوست محمد صابر ملتانیؒ

ہر بڑی فکری تحریک کے پیچھے ایک مرکزی شخصیت کا ہاتھ ہوتا ہے، اور نظریہ مفرد اعضاء کے معاملے میں یہ شخصیت حکیم دوست محمد صابر ملتانی کی ہے۔ انہیں نہ صرف اس نظریے کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ ان کے پیروکار انہیں “حکیمِ انقلاب” کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں، جو طب کے میدان میں ان کے انقلابی کام کی طرف اشارہ کرتا ہے 4۔ ان کی زندگی اور کام نے برصغیر میں طبِ یونانی کی روایت پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے۔

سوانحی خاکہ

دستیاب معلومات کے مطابق، حکیم صابر ملتانی کا اصل نام حکیم دوست محمد صابر تھا اور وہ ‘صابر ملتانی’ کو بطور تخلص استعمال کرتے تھے 6۔ ان کی پیدائش 1906 میں ہوئی اور انہوں نے 30 مئی 1980 کو وفات پائی 7۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ طب و حکمت کی تحقیق، تصنیف و تالیف اور اپنے نظریے کی اشاعت میں گزرا۔ ان کی شخصیت محض ایک حکیم کی نہیں تھی، بلکہ ایک ایسے مصلح اور مفکر کی تھی جس نے طب کے مروجہ تصورات کو چیلنج کیا اور ایک نیا فکری نظام وضع کیا۔

علمی و تحقیقی خدمات

حکیم صابر ملتانی کو بلاشبہ قانونِ مفرد اعضاء کا بانی (Founder) مانا جاتا ہے 4۔ ان کی کتب کو ان کی زندگی بھر کے علم اور تجربے کا نچوڑ قرار دیا جاتا ہے، جسے انہوں نے انسانیت کی بھلائی کے لیے پیش کیا 4۔ ان کے کام کا ایک اہم پہلو ان کا تنقیدی اور اصلاحی موقف تھا۔ انہوں نے نہ صرف طبِ یونانی کی تجدید کی بلکہ مغربی طب (ایلوپیتھی) پر بھی شدید تنقید کی۔ ان کی ایک کتاب کا عنوان ہی

‘فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہے’ ہے 4۔ یہ عنوان محض ایک کتاب کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل نظریاتی موقف کا اعلان ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صابر ملتانی صرف ایک معالج نہیں تھے، بلکہ ایک طبی نظریہ دان (medical ideologue) تھے جو ایک متبادل طبی پیراڈائم قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔

“حکیمِ انقلاب” کا لقب بھی اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ “انقلاب” ایک طاقتور سماجی اور سیاسی اصطلاح ہے، اور اس کا اطلاق ایک حکیم پر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ان کے کام کو محض چند نئے نسخے یا علاج متعارف کروانے کے بجائے ایک بنیادی اور انقلابی تبدیلی کے طور پر دیکھا گیا۔ ان کی دیگر کتابوں کے نام، جیسے ‘تحقیقات ملیریا کوئی بخار نہیں’ 4، بھی روایتی طبی علم کو چیلنج کرنے والے اور توجہ طلب نوعیت کے ہیں، جو ان کے باغیانہ اور اصلاحی مزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔

تصانیف اور کتب

حکیم صابر ملتانی نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لیے تصنیف و تالیف کا سہارا لیا اور متعدد کتابیں اور رسائل تحریر کیے۔ ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ “کلیاتِ تحقیقاتِ صابر ملتانی” ہے، جو ان کی بیشتر اہم تصانیف کا دو جلدوں پر مشتمل مجموعہ ہے 4۔ اس کلیات کو نظریہ مفرد اعضاء کے پیروکاروں کے لیے ایک بنیادی اور لازمی متن کی حیثیت حاصل ہے اور اسے طب کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کے لیے مفید قرار دیا گیا ہے.4

کسی مصنف کے کام کو “کلیات” کی شکل میں جمع کرنا محض اشاعت کا عمل نہیں ہوتا، بلکہ یہ اس کے کام کو ایک “مستند متن” یا “Canon” کا درجہ دینے کی شعوری کوشش ہوتی ہے۔ یہ عمل اس بات کی علامت ہے کہ مصنف کے بکھرے ہوئے کام کو ایک مکمل، جامع اور خود کفیل علمی نظام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ “کلیاتِ صابر” کی اشاعت نے بھی یہی کردار ادا کیا اور نظریہ مفرد اعضاء کو ایک مربوط اور منظم علمی ورثے کے طور پر مستحکم کیا۔

ذیل میں حکیم صابر ملتانی کی اہم تصانیف کی ایک جامع فہرست پیش کی جا رہی ہے، جس میں کلیات میں شامل کتب اور دیگر دستیاب عنوانات شامل ہیں۔

جدول 1: حکیم صابر ملتانی کی منتخب تصانیف

شمارکتاب کا عنوان (اردو)انگریزی ترجمہ / موضوعحوالہ
1کلیاتِ تحقیقاتِ صابر ملتانیCollected Research of Sabir Multani (Magnum Opus)4
2تحقیقاتِ علم الادویہResearch on Pharmacology4
3تحقیقاتِ علاج بالغذاResearch on Treatment with Food4
4تحقیقاتِ خواص المفرداتResearch on Properties of Single Drugs4
5تحقیقاتِ فارما کوپیاResearch on Pharmacopoeia4
6مبادیاتِ طبPrinciples of Medicine4
7تحقیقاتِ امراض و علاماتResearch on Diseases and Symptoms4
8تحقیقاتِ سوزش و اورامResearch on Inflammation and Swellings4
9تحقیقاتِ حمیات (بخار)Research on Fevers4
10تحقیقاتِ نزلہ و زکامResearch on Cold and Flu4
11تحقیقاتِ نزلہ و زکام (وبائی)Research on Epidemic Cold and Flu4
12تحقیقاتِ تپ دق و سل (ٹی بی)Research on Tuberculosis (TB)4
13تحقیقاتِ تپ دق و خوراکResearch on Tuberculosis and Diet4
14تحقیقات ملیریا کوئی بخار نہیںResearch: Malaria is Not a Fever4
15تحقیقات و علاج جنسی امراضResearch and Treatment of Sexual Diseases4
16اسلام اور جنسیاتIslam and Sexuality4
17تحقیقاتِ اعادۂ شبابResearch on Rejuvenation4
18تحقیقات کیا بڑھاپا قابلِ علاج ہے؟Research: Is Old Age Curable?4
19تحقیقات تین انسانی زہرResearch on Three Human Poisons4
20فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہےWestern Medicine is Unscientific and Wrong4
21سوانح حیات و خطابات صابر ملتانیBiography and Speeches of Sabir Multani4
22قانونِ صابرThe Law of Sabir10
23تحقیقات المجرباتResearch on Tried Remedies4
24مفادیاتِ طبBenefits of Medicine12
25طبی ڈائریکٹریMedical Directory12

ان کی کتابیں صرف پاکستان اور ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا بھر میں دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر، ریختہ فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر ان کی 36 ای-کتابیں موجود ہیں، جن میں سے اکثر ان کے زیرِ ادارت شائع ہونے والے رسالے “رجسٹریشن فرنٹ لاہور” کے مختلف شمارے ہیں 6۔ یہ ڈیجیٹل دستیابی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ان کا علمی ورثہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رہے اور نئے محققین کو بھی اس تک رسائی حاصل ہو۔

حصہ سوم: نظریہ مفرد اعضاء کے نامور مصنفین اور ان کی کتب

حکیم صابر ملتانی کے بعد ان کے شاگردوں اور پیروکاروں نے ان کے علمی مشن کو آگے بڑھایا اور نظریہ مفرد اعضاء پر تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان مصنفین نے نہ صرف بانی کے کام کی تشریح کی بلکہ اس نظریے کو جدید امراض پر لاگو کیا، تدریسی مواد تیار کیا اور اس کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس علمی تسلسل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نظریہ مفرد اعضاء محض ایک شخص کا پیش کردہ خیال نہیں تھا، بلکہ یہ ایک زندہ اور ارتقا پذیر طبی روایت بن چکا ہے۔ اس حصے میں ہم ان نامور مصنفین اور ان کی تخلیقات کا جائزہ لیں گے۔

حکیم محمد یاسین دنیا پوری

حکیم صابر ملتانی کے بعد جن اطباء نے نظریہ مفرد اعضاء کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا، ان میں حکیم محمد یاسین دنیا پوری کا نام سرِفہرست ہے۔ ان کا تعلق پاکستان کے علاقے دنیا پور سے تھا، اور وہ “ماہنامہ قانونِ مفرد اعضاء” نامی جریدے کے ناشر بھی تھے 13۔ ان کی تحریروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اس نظریے کو معاصر طبی چیلنجز پر لاگو کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے ایڈز اور کینسر جیسے جدید اور پیچیدہ امراض پر قانونِ مفرد اعضاء کے نقطہ نظر سے کتابیں لکھیں 14۔ یہ کوشش اس طبی نظام کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے اور اس کی افادیت کو جدید دور میں ثابت کرنے کے لیے انتہائی اہم تھی۔ ان کا کام محض بانی کی فکر کا اعادہ نہیں، بلکہ اس کی توسیع اور اطلاق ہے۔ ان کی اہم تصانیف میں شامل ہیں:

ایڈز اور قانونِ مفرد اعضاء: اس کتاب میں انہوں نے ایڈز جیسے مہلک مرض کو نظریے کے اصولوں کے تحت سمجھنے اور اس کے علاج کی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کی 14۔

کینسر اور قانونِ مفرد اعضاء (نظریہ): یہ کتاب کینسر کے مرض پر نظریے کے اطلاق سے متعلق ہے 15۔

تاریخِ طب و اطباء (نظریہ): اس تصنیف سے ان کی دلچسپی طب کی تاریخ اور اس کے نظریاتی پہلوؤں میں ظاہر ہوتی ہے 14۔

قانونِ مفرد اعضاء کے طبی مشورے: یہ کتاب عام قاری اور مبتدی اطباء کے لیے طبی مشوروں پر مبنی ہے 13۔

تحقیقات امراضِ اطفال: بچوں کے امراض پر ان کی تحقیقی تصنیف 15۔

حکیم محمد شریف

نظریہ مفرد اعضاء کے مصنفین میں ایک اور اہم نام حکیم محمد شریف کا ہے۔ یہاں یہ وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ یہ حکیم محمد شریف اٹھارہویں صدی کے مشہور شاہی طبیب، حکیم محمد شریف خان (1722–1807) سے یکسر مختلف شخصیت ہیں 16۔ نظریہ مفرد اعضاء سے وابستہ حکیم محمد شریف ایک جدید مصنف ہیں جنہوں نے خاص طور پر اسی موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اس قسم کی ناموں کی مماثلت جنوبی ایشیا کی علمی تاریخ میں عام ہے اور ایک محقق کے لیے ان کے درمیان فرق کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہو۔

حکیم محمد شریف کا سب سے نمایاں کام ان کی کتاب “سوانح حیات موجدِ نظریہ مفرد اعضاء” ہے 17۔ یہ کتاب حکیم صابر ملتانی کی سوانح حیات ہے اور اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کسی بھی تحریک کے بانی کی زندگی کے حالات کو قلمبند کرنا اس تحریک کی تاریخ کو محفوظ کرنے اور بانی کی شخصیت کو ایک مثالی نمونے کے طور پر پیش کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس کتاب نے نظریہ مفرد اعضاء کی فکری بنیادوں کو ایک تاریخی اور ذاتی حوالہ فراہم کیا۔

ان کی دیگر اہم تصانیف میں شامل ہیں:

رھبرِ مفرد اعضاء (سوالاً جواباً): یہ کتاب انہوں نے حکیم محمد یاسین دنیا پوری کے ساتھ مل کر لکھی۔ یہ سوال و جواب کی صورت میں ایک تدریسی نوعیت کی کتاب ہے جس میں نظریے سے متعلق پیچیدہ سوالات کے مفصل جوابات دیے گئے ہیں۔ اس میں خاندانی اور ذاتی طور پر آزمودہ نسخہ جات (مجربات) بھی شامل کیے گئے ہیں، جو اسے عملی طور پر بہت کارآمد بناتے ہیں 18۔

نظریہ مفرد اعضاء اور دمہ: اس کتاب میں دمہ کے مرض کا علاج نظریے کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے 19۔

دیگر اہم مصنفین

حکیم یاسین اور حکیم شریف کے علاوہ بھی کئی دیگر مصنفین نے اس علمی روایت کو آگے بڑھایا:

حکیم محمد اشرف شاکر: ان کی کتاب “حقیقت نظریہ مفرد اعضاء اربعہ” 20 کا عنوان دلچسپی کا حامل ہے۔ “اربعہ” (چار) کا لفظ اس امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شاید انہوں نے صابر ملتانی کے سہ رکنی نظام میں کسی چوتھے عنصر کا اضافہ کیا ہو یا اس کی کوئی نئی تشریح پیش کی ہو۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ نظریہ اپنے اندر مزید ترقی اور تشریح کی گنجائش رکھتا ہے۔

حکیم محمد یاسین چاولہ: ان کی کتاب “مختصر تشریح قانونِ مفرد اعضاء” 21 ایک تعارفی اور تشریحی نوعیت کی تصنیف ہے، جس کا مقصد نظریے کو آسان زبان میں پیش کرنا ہے۔ اس طرح کی کتابیں نئے طلباء اور عام لوگوں تک نظریے کو پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

حکیم محمد اقبال: ان کا ذکر ایک موبائل ایپلیکیشن کے حوالے سے ملتا ہے جہاں ان کی ویڈیوز اور کتابیں، جیسے “مجرباتِ اقبال” اور “اسرار النبض”، نظریے کی تفہیم کے لیے دستیاب ہیں 22۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نظریے کے فروغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

حکیم الٰہی بخش: ایک تحقیقی نوٹ

صارف کی جانب سے فراہم کردہ سوال میں حکیم الٰہی بخش کا نام بھی شامل تھا۔ تاہم، دستیاب تحقیقی مواد کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس نام کے کسی بھی حکیم کا تعلق نظریہ مفرد اعضاء پر تصنیف و تالیف یا اس کی ترویج سے نہیں پایا جاتا 5۔ تحقیقی مواد میں ان کا کوئی ذکر یا ان کی کسی کتاب کا حوالہ موجود نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یا تو وہ اس تحریک کا حصہ نہیں تھے، یا ان کا کام زیرِ نظر مواد کی دسترس سے باہر ہے۔ یہ تحقیق کا ایک اہم نکتہ ہے جو براہِ راست سوال کے ایک حصے کا جواب فراہم کرتا ہے۔

ذیل کے جدول میں حکیم صابر ملتانی کے علاوہ دیگر اہم مصنفین اور ان کی کتب کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

جدول 2: نظریہ مفرد اعضاء پر دیگر مصنفین کی کتب

مصنفکتاب کا عنوان (اردو)انگریزی ترجمہ / موضوعناشر / نوٹسحوالہ
حکیم محمد یاسین دنیا پوریایڈز اور قانونِ مفرد اعضاءAIDS and the Law of Single Organsقانون مفرد اعضاء کے تحت ایڈز پر تحقیق14
حکیم محمد یاسین دنیا پوریکینسر اور قانونِ مفرد اعضاء (نظریہ)Cancer and the Law of Single Organs (Theory)کینسر کے مرض پر نظریاتی بحث15
حکیم محمد یاسین دنیا پوریتاریخِ طب و اطباء (نظریہ)History of Medicine and Physicians (Theory)طب کی تاریخ پر نظریاتی کتاب14
حکیم محمد یاسین دنیا پوریقانونِ مفرد اعضاء کے طبی مشورےMedical Advice of the Law of Single Organsماہنامہ قانون مفرد اعضاء، دنیاپور13
حکیم محمد شریفسوانح حیات موجدِ نظریہ مفرد اعضاءBiography of the Inventor of the Theory of Single Organsحکیم صابر ملتانی کی سوانح حیات17
حکیم محمد شریفنظریہ مفرد اعضاء اور دمہThe Theory of Single Organs and Asthmaدمہ کے علاج پر مبنی19
حکیم محمد یاسین و حکیم محمد شریفرھبرِ مفرد اعضاء (سوالاً جواباً)Guide to Single Organs (Q&A Format)سوال و جواب پر مبنی تدریسی کتاب18
حکیم محمد اشرف شاکرحقیقت نظریہ مفرد اعضاء اربعہThe Reality of the Four-fold Theory of Single Organsممکنہ طور پر نظریے کی ایک نئی تشریح20
حکیم محمد یاسین چاولہمختصر تشریح قانونِ مفرد اعضاءA Brief Explanation of the Law of Single Organsنظریے کا آسان تعارف21
حکیم محمد اقبالمجرباتِ اقبال / اسرار النبضIqbal’s Tried Remedies / Secrets of the Pulseڈیجیٹل ایپس پر دستیاب22
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوتحریک امراض علاج www.tibb4all.com 

حصہ چہارم: نظریہ کے فروغ میں اداروں کا کردار

کسی بھی علمی یا فکری تحریک کی بقا اور فروغ کے لیے صرف نظریات اور کتابیں ہی کافی نہیں ہوتیں، بلکہ اسے ادارہ جاتی پشت پناہی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ نظریہ مفرد اعضاء کے معاملے میں بھی فاؤنڈیشنز اور اشاعتی اداروں نے اس کی ترویج اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ ادارے اس تحریک کے لیے نہ صرف فکری مراکز کا کام کرتے ہیں بلکہ اس کی وکالت اور سیاسی نمائندگی کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔

صابر شاہین فاؤنڈیشن

تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ “صابر شاہین” کسی فرد کا نام نہیں بلکہ ایک تنظیم، “صابر شاہین فاؤنڈیشن”، کا نام ہے 2۔ یہ فاؤنڈیشن نظریہ مفرد اعضاء کے پیروکاروں کی ایک نمائندہ تنظیم ہے جس کی قیادت حکیم محمد رفیق شاہین (چیئرمین) اور حکیم ظفر علی عباسی (جنرل سیکرٹری) جیسے اطباء کر رہے ہیں 2۔ اس فاؤنڈیشن کا بنیادی مقصد نظریہ مفرد اعضاء کی وکالت کرنا اور اسے طبِ یونانی کی جدید اور ترقی یافتہ شکل کے طور پر منوانا ہے۔

تاہم، اس فاؤنڈیشن کی سرگرمیاں محض علمی فروغ تک محدود نہیں ہیں۔ اس نے ایک واضح سیاسی کردار بھی اپنایا ہے۔ فاؤنڈیشن نے “متحدہ نظریاتی اطباء محاذ” کے نام سے ایک سیاسی پلیٹ فارم قائم کیا ہے جس کا مقصد نیشنل کونسل فار طب (پاکستان میں طبِ یونانی کی سرکاری ریگولیٹری باڈی) کے انتخابات میں حصہ لینا ہے 2۔ فاؤنڈیشن کے رہنماؤں کے بیانات کے مطابق، یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا تاکہ “تجارتی ذہنیت کی حامل نمائندہ جماعتوں” کا مقابلہ کیا جا سکے اور عام اطباء کو کونسل میں نمائندگی کا حق دلایا جا سکے۔

یہ پیشرفت انتہائی اہم ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نظریہ مفرد اعضاء اب محض ایک طبی مکتبِ فکر نہیں رہا، بلکہ یہ ایک منظم سماجی و سیاسی تحریک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کے پیروکار اب صرف کتابیں لکھنے یا علاج کرنے پر اکتفا نہیں کر رہے، بلکہ وہ ریاستی سطح پر تسلیم شدہ اداروں میں فیصلہ سازی کے اختیارات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ جدوجہد دراصل طبِ یونانی کے اندر موجود مختلف گروہوں کے درمیان وسائل، شناخت اور قانونی حیثیت حاصل کرنے کی کشمکش کی عکاسی کرتی ہے۔ صابر شاہین فاؤنڈیشن اس نظریے کو ایک نظریاتی اساس فراہم کرتی ہے جس کی بنیاد پر اس کے حامی اپنی اجتماعی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

سعد طبیہ کالج برائےفروغ طب نبوی کاہنہ نو لاہور۔کئی کتب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ یومیہ بنیادوں پر آرٹیکل۔کتب۔مضامین طبیہ،کے عنوان سے مختلف شوشل میڈیاز اور ویب سائٹس پر شائع کئے جاتے ہیں،

اشاعتی ادارے

کسی بھی علمی تحریک کے لیے اشاعتی ادارے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف نظریات کو کتابی شکل میں محفوظ کرتے ہیں بلکہ انہیں وسیع تر قارئین تک پہنچا کر ایک فکری برادری کی تشکیل میں بھی مدد دیتے ہیں۔ نظریہ مفرد اعضاء کے ادب کو پھیلانے میں متعدد اشاعتی اداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے، جن میں سے “ادارہ مطبوعاتِ سلیمانی” کا نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

اس ادارے کی بنیاد 1968 میں حکیم عبدالوحید سلیمانی نے اپنے والد، حکیم محمد عبداللہ، کے علمی و طبی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے رکھی تھی 20۔ ادارہ مطبوعاتِ سلیمانی نے نظریہ مفرد اعضاء پر متعدد اہم کتب شائع کی ہیں، جن میں حکیم محمد یاسین دنیا پوری اور حکیم محمد شریف کی تصانیف بھی شامل ہیں 14۔ ایک مخصوص مکتبِ فکر کی کتابوں کو ایک ہی پلیٹ فارم سے شائع کرنے سے ایک مربوط علمی ماحولیاتی نظام (ecosystem) پیدا ہوتا ہے۔ اس سے طلباء اور محققین کے لیے اس موضوع پر تمام اہم مواد تک رسائی آسان ہو جاتی ہے۔ یہ ادارہ محض ایک کاروباری ادارہ نہیں، بلکہ اس تحریک کا ایک اہم ادارہ جاتی ستون ہے جو اس کے علمی ورثے کی حفاظت اور نشر و اشاعت کو یقینی بناتا ہے۔

اس کے علاوہ دیگر ناشرین، جیسے دنیا پور میں قائم “یسین دواخانہ طبی کتب خانہ” 19، نے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مزید برآں، جدید دور میں متعدد آن لائن پلیٹ فارمز اور موبائل ایپلیکیشنز بھی نظریہ مفرد اعضاء پر مبنی کتابیں اور مواد فراہم کر رہی ہیں، جس سے اس کی رسائی عالمی سطح پر ممکن ہو گئی ہے 22۔ یہ تمام ادارے مل کر اس تحریک کو زندہ رکھنے اور اسے نئی نسلوں تک منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔

حصہ پنجم: مجموعی جائزہ اور مستقبل کے امکانات

اس تحقیقی جائزے میں نظریہ مفرد اعضاء کے بانی، اس کے کلیدی مصنفین، ان کی علمی خدمات، اور اس تحریک کو فروغ دینے والے اداروں کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا۔ یہ تجزیہ ایک ایسی طبی تحریک کی تصویر پیش کرتا ہے جو بیسویں صدی کے وسط میں طبِ یونانی کی تجدید کے دعوے کے ساتھ ابھری اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک منظم اور متحرک مکتبِ فکر میں تبدیل ہو گئی۔ اب ہم اس تحقیق کے مجموعی نتائج، اس نظریے کی علمی اہمیت اور اس کے مستقبل کے امکانات پر ایک نظر ڈالیں گے۔

خلاصہء تحقیق

تحقیق کے کلیدی نتائج کو مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:

بانی اور بنیاد: نظریہ مفرد اعضاء کے بانی حکیم انقلاب دوست محمد صابر ملتانی (1906-1980) ہیں۔ انہوں نے طبِ یونانی کے پیچیدہ نظامِ اخلاط کو تین بنیادی اعضاء—قلب، دماغ، اور جگر—کے افعال پر مبنی ایک سادہ اور منظم نظریے میں تبدیل کیا 1۔

فکری پوزیشننگ: اس نظریے کو ایک “نئی طب” کے بجائے “طبِ یونانی کی تجدید” کے طور پر پیش کیا گیا، جس نے اسے روایتی حلقوں میں قبولیت حاصل کرنے اور ساتھ ہی اصلاحی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مدد دی 2۔

علمی ورثہ: حکیم صابر ملتانی نے ایک وسیع علمی ورثہ چھوڑا، جس کا مرکز ان کی تصنیف “کلیاتِ تحقیقاتِ صابر ملتانی” ہے 4۔ ان کے بعد حکیم محمد یاسین دنیا پوری، حکیم محمد شریف، اور دیگر مصنفین نے اس ورثے کو آگے بڑھایا، نظریے کی تشریح کی، اور اسے ایڈز اور کینسر جیسے جدید امراض پر لاگو کیا 15۔

ادارہ جاتی ڈھانچہ: یہ تحریک اب محض افراد تک محدود نہیں رہی، بلکہ “صابر شاہین فاؤنڈیشن” جیسی تنظیموں اور “ادارہ مطبوعاتِ سلیمانی” جیسے اشاعتی اداروں کی شکل میں ایک مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ اختیار کر چکی ہے 2۔

سماجی و سیاسی تحرک: صابر شاہین فاؤنڈیشن کی قیادت میں یہ تحریک اب نیشنل کونسل فار طب جیسے ریاستی اداروں میں نمائندگی حاصل کرنے کے لیے سیاسی طور پر بھی متحرک ہے، جو اس کے ایک مکمل سماجی و سیاسی تحریک بننے کی علامت ہے 2۔

علمی اہمیت اور تنقید

نظریہ مفرد اعضاء کی علمی اہمیت اس بات میں مضمر ہے کہ اس نے طبِ یونانی کے بنیادی اصولوں کو ایک ایسے وقت میں ایک نیا اور قابلِ فہم ڈھانچہ فراہم کیا جب روایتی طبی نظام جدید سائنسی طب کے دباؤ کا سامنا کر رہے تھے۔ اس کی سادگی نے اسے نئے اطباء کے لیے سیکھنا اور اس پر عمل کرنا آسان بنا دیا، جس سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

تاہم، اس نظریے پر کچھ تنقیدی سوالات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔ اس کا مغربی طب کو یکسر “غیر علمی اور غلط” قرار دینا 4 ایک انتہا پسندانہ موقف ہے جو علمی مکالمے کی بجائے تصادم کو فروغ دیتا ہے۔ اسی طرح، اس کے سائنسی بنیادوں پر استوار ہونے کے دعوے، جیسے مرکبات کی pH اور مزاج کے درمیان تعلق 3، دلچسپ ہونے کے باوجود وسیع تر سائنسی برادری کی جانب سے غیر جانبدارانہ اور سخت کلینیکل ٹرائلز کے ذریعے توثیق کے محتاج ہیں۔ جب تک اس نظریے کے تشخیصی اور معالجاتی دعوؤں کو جدید سائنسی معیارات پر پرکھا نہیں جاتا، یہ ایک متبادل طبی نظام کے دائرے میں ہی شمار کیا جائے گا۔

مستقبل کے تحقیقی امکانات

نظریہ مفرد اعضاء ایک زندہ روایت ہے اور اس میں مزید تحقیق کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ مستقبل میں درج ذیل شعبوں میں تحقیق کی جا سکتی ہے:

کلینیکل توثیق (Clinical Validation): اس نظریے کے تحت کی جانے والی تشخیص (مثلاً نبض کے ذریعے) اور علاج (خاص طور پر علاج بالغذا اور مرکب ادویات) کی افادیت کو جانچنے کے لیے غیر جانبدارانہ اور کنٹرولڈ کلینیکل ٹرائلز کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔

تاریخی تجزیہ (Historical Analysis): بیسویں صدی کے وسط میں برصغیر کے سماجی و سیاسی حالات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ وہ کونسے عوامل تھے جنہوں نے اس “انقلابی” طبی نظریے کے ظہور کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا۔

تقابلی مطالعہ (Comparative Studies): نظریہ مفرد اعضاء کا جنوبی ایشیا اور دنیا کے دیگر حصوں میں روایتی طب کی دیگر اصلاحی تحریکوں کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تاکہ ان کے مابین مماثلتوں اور اختلافات کو سمجھا جا سکے۔

فارماکولوجیکل تحقیق (Pharmacological Research): اس نظریے میں استعمال ہونے والے مفرد اور مرکب ادویات پر جدید فارماکولوجیکل تحقیق کی جائے تاکہ ان کے کیمیائی اجزاء اور جسم پر ان کے اثرات کے میکانزم کو سائنسی زبان میں بیان کیا جا سکے۔

مجموعی طور پر، نظریہ مفرد اعضاء برصغیر کی طبی روایت میں ایک اہم اور قابلِ مطالعہ باب ہے۔ یہ نہ صرف ایک طبی نظام ہے بلکہ ایک ثقافتی اور سماجی رجحان کی بھی عکاسی کرتا ہے جو روایت اور جدیدیت کے سنگم پر اپنی شناخت قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

Related Articles

Leave a Comment

Contact Now

Get New Updates to Take Care Your Pet

Discover the art of creating a joyful and nurturing environment for your beloved pet.

Subscribe my Newsletter for new blog posts, tips & new photos. Let's stay updated!

Will be used in accordance with our  Privacy Policy

@2025 – All Right Reserved. Designed and Developed by Dilshad Bhai