Tuesday, July 29, 2025
Home Blog قانون مفرد اعضاء میں تشخیصِ قارورہ کا تشخیصی علم

قانون مفرد اعضاء میں تشخیصِ قارورہ کا تشخیصی علم

by admin
قانون مفرد اعضاء میں تشخیصِ قارورہ کا تشخیصی علم
قانون مفرد اعضاء میں تشخیصِ قارورہ کا تشخیصی علم
قانون مفرد اعضاء میں تشخیصِ قارورہ کا تشخیصی علم

سنخن ہائے گفتنی

بحمد اللہ اس وقت سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺ کے زیر اہتما م(جولائی۔اگست۔ستمبر2025) علماء کرام کی آن لائن کلاسز چل رہی ہیں ۔علماء کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے ان کے درس وتدریس کے مشاغل امامت خطابت اور اپنے اداروں کی دیکھ بھال دیگر امور زندگی تھکادینے والے امور ہوتے ہیں۔یہ طبقہ امت کی طرف سے علوم نبوت کا پشتی بان ہے اس گئے گزرے دور میں جو بن پڑا کررہے ہیں ۔

مجھے  ناچیز کو اس بات کا شرف حاصل ہوا کہ  ان کی تعلیمی ذمہ داری مجھے سونپی گئی کہ  تفہیم طب اور طریق  سمجھائوں،گوکہ میں خود تعلیم و تفہیم کا محتاج ہوں ۔لیکن جسے جو ذمہ داری ملے قبول کرنی جاہئے۔ رات دس بجے کلاس شروع ہوجاتی ہے میرے بھی دنیاوی امور  شتی وقت کے طالب ہوتے ہیں ۔لیکن سب سے اہم کام اس طبقہ کے ساتھ جو بن پڑے نیکی کردینی چاہئے۔

اس وقت تشخیصابت چل رہی ہیں ۔طب میں تشخیص روح کی مانند ہوتی ہے۔اس لئے جہاں درس و تدریس ہوتا ہے وہیں پر  تحریر مواد فقیر کو لاٹھی کا سہاراے کے کام دیتی ہے۔

قارورہ کے متعلق اس وقت بہت شور مچاہوا ہے ۔میڈیا پر بے پناہ مضامین موجود ہیں ۔یہ ابحاث الجھا دینے والی ہوتی ہیں۔اس لئے چند سطور لکھی ہیں  ساتھ میں ایک پوڈ کاسٹ بھی تیار کیا ہےتاکہ میدان طب میں پختگی حاصل ہوسکے

دعا کا محتاج۔حقیر فقیر  حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

قانون مفرد اعضاء میں تشخیصِ قارورہ کا تشخیصی علم

حکیم المیوات قاری محد یونس شاہد میو

حصہ اول: قانون مفرد اعضاء کی فلسفیانہ اور نظریاتی بنیادیں

طب کی دنیا میں تشخیصی طریقہ کار مسلسل ارتقاء پذیر رہے ہیں، جہاں قدیم حکمت جدید سائنسی دریافتوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ اس تناظر میں، بیسویں صدی میں برصغیر پاک و ہند سے طلوع ہونے والا “قانونِ مفرد اعضاء” (Simple Organ Theory) طب یونانی کی تاریخ میں ایک انقلابی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نظریہ، جو روایتی اخلاطی نظریے (Humoral Theory) سے ایک قدم آگے بڑھ کر امراض کی بنیاد مفرد اعضاء کی کیفیات میں تلاش کرتا ہے، تشخیص و علاج کے لیے ایک منفرد اور منظم فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ اس جامع رپورٹ کا مقصد قانون مفرد اعضاء کے تحت پیشاب کے ذریعے تشخیص کے فن، جسے “قارورہ شناسی” کہا جاتا ہے، کا گہرائی میں جائزہ لینا ہے۔ ہم اس کے بانی کے فلسفے سے لے کر اس کے عملی اطلاق تک، اور جدید طب کے ساتھ اس کے تقابلی جائزے تک ہر پہلو کا احاطہ کریں گے تاکہ اس تشخیصی علم کی اہمیت، ا

فادیت اور باریکیوں کو مکمل طور پر واضح کیا جا سکے۔

1.1 ایک انقلاب کا معمار: حکیم دوست محمد صابر ملتانی

قانون مفرد اعضاء کا نظریہ حکیم دوست محمد صابر ملتانی (رحمۃ اللہ علیہ) کی شخصیت اور ان کی لازوال تحقیقات سے وابستہ ہے، جنہیں طب کی دنیا میں “حکیمِ انقلاب” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف “کلیاتِ تحقیقاتِ صابر ملتانی” محض ایک کتاب نہیں، بلکہ ان کے تمام علمی ورثے اور زندگی بھر کے تجربات کا نچوڑ ہے، جسے انہوں نے عالمِ انسانیت کی فلاح کے لیے وقف کر دیا 1۔ یہ مجموعہ ہر اس فرد کے لیے ایک ناگزیر اثاثہ سمجھا جاتا ہے جو طب کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو، خواہ وہ طبِ یونانی ہو، جدید ایلوپیتھی ہو یا ہومیوپیتھی 2۔ ان کی تعلیمات کی مقبولیت اور دائمی اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی ان کی بے شمار کتب، بشمول “کلیاتِ صابر” اور نبض و مجربات پر مبنی تصانیف، جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے دنیا بھر کے طلباء، محققین اور اطباء کے لیے بآسانی دستیاب ہیں 3۔

صابر ملتانی کا بنیادی اور انقلابی کارنامہ طبِ یونانی کے تشخیصی اور معالجاتی محور کو ایک نئی سمت عطا کرنا تھا۔ روایتی طب کی بنیاد چار اخلاط (خون، بلغم، صفرا، سودا) کے نظریے پر قائم تھی، جہاں مرض کی تشخیص جسم میں کسی خلط کے غلبے یا بگاڑ سے کی جاتی تھی۔ یہ نظریہ صدیوں تک موثر رہا، لیکن اس کی نوعیت کافی حد تک تجریدی (abstract) تھی۔ صابر ملتانی نے اس تجریدیت کو ٹھوس جسمانی حقیقت سے جوڑ دیا۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اخلاط کا بگاڑ خود بخود پیدا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا منبع جسم کے وہ بنیادی اعضاء ہیں جو ان اخلاط کو پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے مرض کی جڑ کو اخلاط سے ہٹا کر ان تین بنیادی اعضاءِ رئیسہ (Simple Organs) پر مرکوز کر دیا جن کی کارکردگی میں خرابی پورے نظام کو متاثر کرتی ہے۔

یہ تبدیلی محض ایک معمولی ترمیم نہیں تھی، بلکہ ایک مکمل پیراڈائم شفٹ (paradigm shift) تھا۔ اس نے تشخیص کو ایک واضح اور قابلِ فہم بنیاد فراہم کی۔ اب ایک طبیب کو صرف یہ معلوم نہیں کرنا تھا کہ کون سی خلط بڑھی ہوئی ہے، بلکہ یہ جاننا تھا کہ کون سا عضو غیر طبعی طور پر فعال (hyperactive)، سست (hypoactive) یا سوزش زدہ (inflamed) ہے، کیونکہ یہی اعضاء کی حالت اس خلطی بگاڑ کا اصل سبب تھی۔ اس طرح تشخیص کا عمل زیادہ منطقی، منظم اور قابلِ عمل ہو گیا، اور علاج براہِ راست مرض کے منبع پر مرکوز ہو گیا، نہ کہ صرف اس کی علامات پر۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نظریے کو “قانونِ مفرد اعضاء” کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ ایک “مفرد عضو” کی خرابی کو تمام بیماری کی جڑ قرار دیتا ہے۔

1.2 حیات کا ثلاثہ: تین بنیادی اعضائی نظام (اعضاءِ رئیسہ)

قانونِ مفرد اعضاء کا پورا ڈھانچہ تین بنیادی یا رئیس اعضاء پر قائم ہے، جو جسمانی افعال اور حیات کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ نظریہ انسانی جسم کو تین فعال نظاموں میں تقسیم کرتا ہے، جن میں سے ہر ایک کا تعلق ایک مخصوص عضو، ایک مخصوص مزاج اور ایک مخصوص خلط سے ہے 4۔

نظامِ اعصاب (The Nervous System):

  • مرکزی اعضاء: دماغ و اعصاب (Dimaagh-o-A’sab
    • کیفیت/مزاج: تر سرد (Wet & Cold
    • متعلقہ خلط: بلغم (Phlegm
    • اصطلاح: اس نظام سے متعلق کیفیات، امراض، اور ادویات کو اعصابی (Asabi) کہا جاتا ہے۔
  • نظامِ عضلات (The Muscular System):
    • مرکزی اعضاء: قلب و عضلات (Qalb-o-Azlaat)۔ جدید طب بھی قلب کو ایک خاص قسم کے پٹھے، یعنی قلبی عضلات (myocardium)، پر مشتمل مانتی ہے 6۔
    • کیفیت/مزاج: خشک سرد (Dry & Cold
    • متعلقہ خلط: سودا (Black Bile
    • اصطلاح: اس نظام سے متعلق کیفیات، امراض، اور ادویات کو عضلاتی (Azlati) کہا جاتا ہے۔
  • نظامِ غدد (The Glandular System):
    • مرکزی اعضاء: جگر و غدد (Jigar-o-Ghudad
    • کیفیت/مزاج: گرم خشک/گرم تر (Hot & Dry/Hot & Wet
    • متعلقہ خلط: صفرا (Yellow Bile
    • اصطلاح: اس نظام سے متعلق کیفیات، امراض، اور ادویات کو غدی (Ghaddi) کہا جاتا ہے۔

یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ صابر ملتانی کے بعد ان کے کچھ پیروکاروں نے اس نظریے میں مزید تحقیق کی اور چوتھے عضوِ رئیسہ کے طور پر تلی (Spleen/Tihal) کو بھی شامل کرنے کی تجویز دی، لیکن قانونِ مفرد اعضاء کی بنیادی اور وسیع پیمانے پر مروجہ پریکٹس آج بھی انہی تین اعضاء کے نظریے پر قائم ہے 4۔

یہ سہ رخی تقسیم محض اعضاء کی درجہ بندی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا جامع اور مربوط نظریہ ہے جو علم الابدان (Physiology)، علم الامراض (Pathology)، علم تشخیص (Diagnosis) اور علم الادویہ (Pharmacology) کو ایک واحد، منطقی کڑی میں پرو دیتا ہے۔ اس کی وضاحت کچھ یوں کی جا سکتی ہے:

  • علم الابدان (Physiology): صحت کی حالت میں یہ تینوں اعضاء متوازن طریقے سے کام کرتے ہیں اور جسمانی افعال کو چلاتے ہیں۔
  • علم الامراض (Pathology): مرض کی حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ان تینوں میں سے کوئی ایک عضو غیر طبعی طور پر تیز یعنی تحریک (Tehreek) میں چلا جاتا ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں، ایک دوسرا عضو اپنی توانائی کھو کر سست یعنی تسکین (Taskeen) میں چلا جاتا ہے، جبکہ تیسرا عضو اپنی ساخت کی تحلیل یعنی تحلیل (Tahleel) یا سوزش کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ تینوں حالتیں (تحریک، تسکین، تحلیل) ایک طے شدہ اور قابلِ پیشگوئی چکر میں وقوع پذیر ہوتی ہیں 4۔
  • علم تشخیص (Diagnosis): نبض اور قارورہ جیسے تشخیصی آلات کا واحد مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ کون سا عضو تحریک میں ہے، کون سا تسکین میں اور کون سا تحلیل میں۔
  • علم الادویہ (Pharmacology): علاج کا اصول بھی اسی نظریے پر قائم ہے۔ غذائیں اور دوائیں بھی اپنی تاثیر کے لحاظ سے اعصابی، عضلاتی اور غدی میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ علاج کا مقصد تحریک والے عضو کو تسکین دینا، تسکین والے عضو کو تحریک دینا اور تحلیل والے عضو کو تقویت فراہم کرنا ہے تاکہ جسم میں توازن بحال ہو سکے۔ اس طرح یہ نظریہ ایک مکمل اور داخلی طور پر مربوط طبی نظام تشکیل دیتا ہے۔

جدول 1: قانون مفرد اعضاء کے تین بنیادی اعضاء اور ان کی متعلقہ خصوصیات

اعضائی نظامبنیادی اعضاءمتعلقہ خلطمزاج / کیفیتبنیادی فعل
اعصابی (Asabi)دماغ و اعصاببلغمتر سردحس و حرکت، پیغامات کی ترسیل
عضلاتی (Azlati)قلب و عضلاتسوداخشک سرددورانِ خون، جسمانی ساخت کو قائم رکھنا
غدی (Ghaddi)جگر و غددصفراگرم خشک/ترحرارتِ غریزی پیدا کرنا، میٹابولزم

حصہ دوم: قانون مفرد اعضاء میں تشخیص کا فن اور سائنس

قانون مفرد اعضاء کا نظریاتی ڈھانچہ سمجھنے کے بعد، اگلا مرحلہ اس کے عملی اطلاق یعنی تشخیص (Tashkhees) کو سمجھنا ہے۔ یہ وہ پُل ہے جو نظریے کو علاج سے جوڑتا ہے۔ اس نظام میں تشخیص کا عمل محض علامات کی فہرست تیار کرنا نہیں، بلکہ جسم کے اندر جاری اس کشمکش کو سمجھنا ہے جس میں ایک عضو تحریک، دوسرا تسکین اور تیسرا تحلیل کی حالت میں ہوتا ہے۔

2.1 تشخیص کے ستون: نبض اور قارورہ

طبِ یونانی کی کلاسیکی روایات کی پیروی کرتے ہوئے، قانون مفرد اعضاء بھی تشخیص کے لیے دو بنیادی اور اہم ترین ذرائع پر انحصار کرتا ہے: نبض (Pulse) اور قارورہ (Urine) 8۔ ان دونوں کو جسم کی داخلی حالت کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ اس فن کے قدیم اساتذہ نے ان کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ بقراط کا قول ہے کہ “نبض ایک خاموش اعلانچی ہے جو باطنی حالات کو بہ آوازِ بلند بتاتی ہے، لیکن جو حکماء اس پر دسترس نہ رکھتے ہوں ان کے لیے گونگی ہے”۔ اسی طرح امام رازی فرماتے ہیں کہ “نبض ایک ایسا آلہ ہے جس سے جسم کے تمام مفرد اعضاء کے حالات معلوم ہو جاتے ہیں” 8۔ حکیم صابر ملتانی کے نظریے پر مبنی کتاب “تشخیصِ صابر” میں تشخیص کے پانچ بنیادی ذرائع (نبض، چہرہ، قارورہ، جدید لیبارٹری ٹیسٹ اور مریض کی ہسٹری) کا ذکر ہے، لیکن ان سب میں نبض اور قارورہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے 9۔

اس نظام کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ طبیب کی مشاہداتی صلاحیتوں پر انحصار کرتا ہے۔ ایک ماہر طبیب ان بیرونی علامات کے ذریعے جسم کے اندرونی موسم کو “پڑھنے” کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ “تشخیصِ صابر” جیسی کتب میں جدید لیبارٹری ٹیسٹوں کو بھی تشخیصی عمل کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے 9۔ یہ اس نظام کے ارتقاء پذیر ہونے اور جدید سائنس سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کا ثبوت ہے، جہاں روایتی مشاہدات کی تصدیق یا مزید تحقیق کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جا سکتی ہے۔

قانون مفرد اعضاء میں نبض اور قارورہ کے معائنے کا مقصد جدید طب کی طرح کسی مخصوص بیماری کا نام (مثلاً ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر) رکھنا نہیں ہے، بلکہ اس بنیادی مزاجی عدم توازن یا اعضاء کی اس غیر طبعی حالت کو پہچاننا ہے جو ان بیماریوں کو جنم دے رہی ہے۔ جیسا کہ ایک ماخذ میں واضح کیا گیا ہے، “جسم کے موسم کے بگڑ جانے کا نام مرض ہے” 8۔ طبیب کا کام نبض اور قارورہ کے ذریعے جسم کے اس بگڑے ہوئے موسم (یعنی اعصابی، عضلاتی یا غدی حالت) کا تعین کرنا اور پھر دوا اور غذا کے ذریعے اس موسم کو واپس اعتدال پر لانا ہے۔

اس تشخیصی فلسفے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دو مختلف مریض، جنہیں جدید طب میں دو الگ الگ بیماریوں (مثلاً ایک کو جوڑوں کا درد اور دوسرے کو بواسیر) کی تشخیص دی گئی ہو، قانون مفرد اعضاء کے تحت ایک ہی تشخیص (مثلاً عضلاتی تحریک یا خشکی کا غلبہ) اور ایک ہی قسم کا علاج حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ دونوں بیماریوں کی جڑ ایک ہی مزاجی عدم توازن میں ہے 8۔ یہ امراض کی درجہ بندی (Nosology) کا ایک یکسر مختلف اور زیادہ کلّی (Holistic) انداز ہے۔ علاج علامات کا نہیں، بلکہ اس بنیادی سبب کا کیا جاتا ہے جو ان علامات کو پیدا کر رہا ہے۔

حصہ سوم: قارورہ شناسی: میٹابولزم کا آئینہ

قارورہ (پیشاب) جسم کے استحالہ (Metabolism) کا مائع آئینہ ہے۔ گردے خون کو فلٹر کر کے جو فضلات خارج کرتے ہیں، ان کا معائنہ جسم کے اندر جاری کیمیائی اور طبعی تبدیلیوں کے بارے میں انمول معلومات فراہم کرتا ہے۔ قانون مفرد اعضاء میں قارورہ شناسی (Uroscopy) ایک انتہائی منظم اور تفصیلی علم ہے، جس میں پیشاب کی ہر خصوصیت کو اعضاءِ ثلاثہ کی حالت (تحریک، تسکین، تحلیل) سے جوڑا جاتا ہے۔

3.1 پیشاب کا طبعی معائنہ: ایک کیفیتی تجزیہ

قارورہ کا معائنہ ایک کیفیتی (Qualitative) تجزیہ ہے جس میں مختلف طبعی خصوصیات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ یہ معائنہ صبح کے پہلے پیشاب کے نمونے پر کیا جانا بہترین سمجھا جاتا ہے کیونکہ رات بھر کے ارتکاز کے بعد یہ جسم کی حقیقی داخلی حالت کی بہترین عکاسی کرتا ہے 10۔

  • رنگ (Rang): پیشاب کا رنگ سب سے نمایاں اور اہم تشخیصی علامت ہے۔
    • بے رنگ یا سفید: پانی کی طرح بے رنگ یا ہلکا سفید پیشاب جسم میں رطوبت اور سردی کی زیادتی کی علامت ہے، جو اعصابی (Asabi) تحریک کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ شدید ہائیڈریشن کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے 10۔
    • زردی مائل: ہلکے پیلے رنگ سے لے کر گہرے زرد رنگ تک، یہ حرارت کی موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ جیسے جیسے غدی (Ghaddi) تحریک بڑھتی ہے، زردی گہری ہوتی جاتی ہے۔
    • سرخ یا نارنجی: گہرا زرد، نارنجی یا سرخی مائل رنگ شدید حرارت اور خشکی کی علامت ہے، جو غدی-عضلاتی (Ghaddi-Azlati) یا عضلاتی-اعصابی (Azlati-Asabi) تحریک کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ جگر کے امراض یا جسم میں صفرا کی زیادتی کو بھی ظاہر کر سکتا ہے 11۔ پیشاب میں خون کی آمیزش (Hematuria) بھی اسے سرخ رنگ دیتی ہے، جو گردے یا مثانے میں پتھری یا انفیکشن کی علامت ہو سکتی ہے 10۔
    • دیگر رنگ: سبز یا نیلا رنگ بعض غذاؤں، ادویات یا مخصوص بیکٹیریل انفیکشن (مثلاً سیوڈوموناس) کی وجہ سے ہو سکتا ہے 10۔
  • قوام (Qawam – Consistency/Viscosity): پیشاب کا گاڑھا پن یا پتلا پن بھی اہم ہے۔
    • پتلا قوام: پانی کی طرح پتلا پیشاب سردی اور تری (اعصابی تحریک) کی علامت ہے۔
    • گاڑھا قوام: گاڑھا اور لیس دار پیشاب حرارت (غدی تحریک) یا خشکی (عضلاتی تحریک) کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کی جانچ کے لیے روایتی طور پر دو طریقے استعمال ہوتے ہیں:
      • ہلانے کا ٹیسٹ (Shaking Test): نمونے کو ہلانے پر اگر چھوٹے اور باریک بلبلے بنیں جو جلد پھٹ جائیں تو پیشاب پتلا ہے۔ اگر بڑے بلبلے بنیں جو دیر تک قائم رہیں تو پیشاب گاڑھا ہے 11۔
      • تیل کے قطرے کا ٹیسٹ (Oil Drop Test): پیشاب کے نمونے میں زیتون کے تیل کا ایک قطرہ ڈالا جاتا ہے۔ اگر تیل فوراً پھیل جائے تو پیشاب پتلا ہے۔ اگر قطرہ اپنی شکل برقرار رکھے یا موتی کی طرح معلق رہے تو پیشاب انتہائی گاڑھا ہے، جو جسم میں غلیظ بلغم کے اخراج کی علامت ہو سکتا ہے اور بعض اوقات ذیابیطس یا مرگی جیسے امراض میں دیکھا جاتا ہے 11۔
  • بو (Bu – Odor): صحت مند پیشاب کی ایک مخصوص بو ہوتی ہے، لیکن غیر معمولی بو مرض کی نشاندہی کرتی ہے۔
    • بے بو: اعصابی تحریک میں پیشاب اکثر بے بو ہوتا ہے۔
    • ناگوار یا تیز بو: یہ صفراوی مادوں کی زیادتی (غدی تحریک) کی علامت ہے 11۔
    • پھلوں جیسی میٹھی بو (Fruity Odor): یہ ذیابیطس کی ایک کلاسک علامت ہے، جو خون میں کیٹونز (Ketones) کی موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے 11۔
  • مقدار (Miqdar – Quantity): پیشاب کی یومیہ مقدار بھی تشخیصی اہمیت رکھتی ہے۔
    • زیادہ مقدار (Polyuria): پیشاب کا بار بار اور زیادہ مقدار میں آنا اعصابی تحریک یا ذیابیطس کی علامت ہو سکتا ہے 11۔
    • کم مقدار (Oliguria): پیشاب کا کم اور جلن کے ساتھ آنا عموماً عضلاتی یا غدی تحریک کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں جسم میں خشکی یا حرارت کی وجہ سے پانی کی کمی ہوتی ہے 11۔
  • جھاگ (Raghwa – Foam): پیشاب پر بننے والی جھاگ بھی اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔
    • عام طور پر جھاگ دار پیشاب (Frothy urine) پیشاب میں پروٹین کی موجودگی (Proteinuria) کی علامت ہے، جو گردوں کے افعال میں خرابی یا غدی تحریک کی نشاندہی کر سکتا ہے 11۔
    • جھاگ کا رنگ اگر زرد یا نارنجی ہو تو یہ یرقان کی علامت ہو سکتا ہے 11۔
  • رسوب (Rasoob – Sediment): پیشاب کے تہہ میں بیٹھنے والے ذرات کو رسوب کہتے ہیں۔
    • ریت جیسے ذرات: یہ گردے یا مثانے میں پتھری کی موجودگی کی علامت ہیں۔
    • چھلکے جیسے ذرات (Flakes): یہ جسم کے اندر میوکوس ممبرین کی سوزش یا ٹوٹ پھوٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
    • سفید اور ہموار رسوب: یہ بلغمی مادوں کے اخراج کو ظاہر کرتا ہے 11۔

3.2 تشخیصی چارٹ: پیشاب کے پروفائلز کو چھ مزاجوں سے جوڑنا

قانون مفرد اعضاء میں تشخیص صرف تین مفرد کیفیات پر نہیں رکتی، بلکہ ان کے مرکب سے بننے والے چھ مزاجوں (Six Temperaments) پر استوار ہوتی ہے۔ ہر مزاج ایک مخصوص اعضائی حالت کی عکاسی کرتا ہے اور اس کا پیشاب کا پروفائل بھی مخصوص ہوتا ہے۔ یہ چھ مزاج ایک دائرے کی صورت میں حرکت کرتے ہیں، اور قارورہ کا معائنہ طبیب کو یہ جاننے میں مدد دیتا ہے کہ مریض اس وقت اس دائرے کے کس مقام پر ہے۔

  1. اعصابی عضلاتی (Asabi-Azlati – Cold & Dry):
    1. اعضاء کی حالت: دماغ و اعصاب تحریک میں، قلب و عضلات تسکین میں، جگر و غدد تحلیل میں۔
    1. پیشاب کا پروفائل: رنگت سفیدی مائل، مقدار زیادہ، قوام پتلا۔ یہ سردی اور خشکی کے آغاز کی کیفیت ہے۔
  2. اعصابی غدی (Asabi-Ghaddi – Cold & Wet):
    1. اعضاء کی حالت: دماغ و اعصاب شدید تحریک میں (انتہا پر)، جگر و غدد تسکین میں، قلب و عضلات تحلیل میں۔
    1. پیشاب کا پروفائل: رنگت پانی کی طرح بالکل بے رنگ، مقدار بہت زیادہ، قوام انتہائی پتلا۔ یہ سردی اور تری کی انتہا ہے۔
  3. عضلاتی اعصابی (Azlati-Asabi – Dry & Cold):
    1. اعضاء کی حالت: قلب و عضلات شدید تحریک میں (انتہا پر)، دماغ و اعصاب تسکین میں، جگر و غدد تحلیل میں۔
    1. پیشاب کا پروفائل: رنگت سرخی مائل زرد یا بھوری، مقدار بہت کم ( scanty)، اکثر جلن کے ساتھ آتا ہے۔ یہ خشکی اور سردی کی انتہا ہے۔
  4. عضلاتی غدی (Azlati-Ghaddi – Dry & Hot):
    1. اعضاء کی حالت: قلب و عضلات تحریک میں، جگر و غدد تسکین میں، دماغ و اعصاب تحلیل میں۔
    1. پیشاب کا پروفائل: رنگت زردی مائل، مقدار معمول سے کم، قوام میں گاڑھا پن شروع ہو جاتا ہے۔ یہ خشکی اور گرمی کے آغاز کی کیفیت ہے۔
  5. غدی عضلاتی (Ghaddi-Azlati – Hot & Dry):
    1. اعضاء کی حالت: جگر و غدد شدید تحریک میں (انتہا پر)، قلب و عضلات تسکین میں، دماغ و اعصاب تحلیل میں۔
    1. پیشاب کا پروفائل: رنگت گہری زرد سے نارنجی یا سرخی مائل، بو تیز، مقدار کم، قوام گاڑھا۔ یہ گرمی اور خشکی کی انتہا ہے۔ ایک اہم طبی نکتہ یہ ہے کہ اس مزاج میں گردے کی پتھریاں بنتی یا تحلیل ہوتی ہیں 15۔
  6. غدی اعصابی (Ghaddi-Asabi – Hot & Wet):
    1. اعضاء کی حالت: جگر و غدد تحریک میں، دماغ و اعصاب تسکین میں، قلب و عضلات تحلیل میں۔
    1. پیشاب کا پروفائل: رنگت زرد، لیکن سرخی کم ہو جاتی ہے، مقدار بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ گرمی اور تری کی کیفیت ہے۔ اسی مزاج میں جسم تحلیل شدہ پتھریوں کو خارج کرنے کی کوشش کرتا ہے 15۔

یہ درجہ بندی ظاہر کرتی ہے کہ تشخیص ایک جامد لیبل نہیں بلکہ ایک متحرک طیف (Dynamic Spectrum) ہے۔ مریض کی حالت ان چھ مزاجوں کے درمیان حرکت کرتی رہتی ہے۔ ایک ماہر طبیب وقت کے ساتھ قارورہ میں آنے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کر کے نہ صرف مرض کی موجودہ حالت کا تعین کر سکتا ہے بلکہ اس کے اگلے مرحلے کی پیشگوئی بھی کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی مریض کا پیشاب بے رنگ (اعصابی غدی) سے سفیدی مائل (اعصابی عضلاتی) اور پھر زردی مائل (عضلاتی غدی) ہو رہا ہے، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ بیماری سردی سے خشکی اور پھر گرمی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ متحرک فہم طبیب کو علاج میں بروقت اور درست تبدیلیاں کرنے کے قابل بناتا ہے، جو روایتی طب کا خاصہ ہے۔

جدول 2: قانون مفرد اعضاء کا جامع تشخیصی چارٹ برائے قارورہ

مرکب مزاجاعضاء کی حالترنگتقوام / لزوجیتبومقدارتشخیصی کیفیت
اعصابی عضلاتیاعصاب تحریک میںسفیدی مائل، شفافپتلاعموماً بے بوزیادہسردی و خشکی کا آغاز
اعصابی غدیاعصاب انتہا کی تحریک میںپانی کی طرح بے رنگانتہائی پتلابے بوبہت زیادہسردی و تری کی انتہا
عضلاتی اعصابیعضلات انتہا کی تحریک میںسرخی مائل زرد یا بھوراگاڑھاتیزبہت کم، جلن کے ساتھخشکی و سردی کی انتہا
عضلاتی غدیعضلات تحریک میںزردی مائلگاڑھا ہونا شروعہلکی تیزکمخشکی و گرمی کا آغاز
غدی عضلاتیغدد انتہا کی تحریک میںگہرا زرد، نارنجی، سرخبہت گاڑھا، لیس دارتیز، ناگوارکمگرمی و خشکی کی انتہا
غدی اعصابیغدد تحریک میںزرد (سرخی کم)پتلا ہونا شروعہلکیبڑھنا شروعگرمی و تری کا آغاز

حصہ چہارم: ایک تقابلی اور تنقیدی تناظر

کسی بھی روایتی طبی نظام کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کے لیے اسے جدید سائنسی معیارات پر پرکھنا ضروری ہے۔ قانون مفرد اعضاء کی قارورہ شناسی کو جب جدید لیبارٹری یورینالائسس (Urinalysis) کے مقابل رکھا جاتا ہے تو دونوں نظاموں کے مابین دلچسپ مماثلتیں اور واضح اختلافات سامنے آتے ہیں، جو ان کے تکمیلی کردار کو اجاگر کرتے ہیں۔

4.1 یونانی قارورہ شناسی بمقابلہ جدید لیبارٹری تجزیہ: اتفاق اور اختلاف

ایک تقابلی تحقیق میں جب یونانی بصری معائنے کا موازنہ جدید ہسپتال لیب کے طریقوں سے کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ یونانی طریقہ پتھری، یورک ایسڈ اور صفراوی مادوں کی تشخیص میں کافی موثر تھا، اور بعض صورتوں میں اس کی کارکردگی لیب سے بھی بہتر رہی۔ تاہم، یہ بھی دیکھا گیا کہ یونانی طریقہ پروٹین اور انفیکشن کی موجودگی کا تخمینہ لیب کے مقابلے میں قدرے زیادہ لگاتا ہے 11۔ جدید یورینالائسس میں ڈپ اسٹک (Dipstick)، مائیکروسکوپی اور دیگر کیمیائی ٹیسٹوں کے ذریعے مخصوص کشش ثقل (Specific Gravity)، پی ایچ (pH)، لیوکوسائٹس (WBCs)، نائٹریٹس (Nitrites)، پروٹین، گلوکوز، کیٹونز اور بلیروبن جیسی چیزوں کی مقداری (Quantitative) پیمائش کی جاتی ہے 12۔

نقاطِ اتفاق (Convergence):

  • جھاگ دار پیشاب اور پروٹین: یونانی طب میں جھاگ دار پیشاب کو پروٹین کی علامت سمجھا جاتا ہے 11، جو جدید طب کے مطابق پروٹین یوریا (Proteinuria) سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔
  • پھلوں جیسی بو اور کیٹونز: قارورے کی میٹھی، پھل جیسی بو 11 جدید طب میں ذیابیطس کی حالت کیٹو ایسیڈوسس (Ketoacidosis) میں پائے جانے والے کیٹونز کی بو سے مطابقت رکھتی ہے 12۔
  • سرخ رنگ اور خون: پیشاب کا سرخ رنگ 11 جدید طب میں ہیمیچوریا (Hematuria) یعنی پیشاب میں سرخ خونی خلیات (RBCs) کی موجودگی کی علامت ہے 10۔
  • گہرا زرد/بھورا رنگ اور بلیروبن: قارورے کا گہرا زرد یا بھورا رنگ 11 جدید طب میں بلیروبن (Bilirubin) کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے، جو جگر کے امراض (مثلاً یرقان) کی نشاندہی کرتا ہے 12۔

نقاطِ اختلاف (Divergence):

  • طریقہ کار کا فرق: یونانی تجزیہ کیفیتی (Qualitative)، کلّی (Holistic) اور تشریحی (Interpretive) ہے۔ اس کا انحصار طبیب کے تجربے اور مشاہدے پر ہے۔ اس کے برعکس، جدید تجزیہ مقداری (Quantitative)، تحلیلی (Reductionist) اور مخصوص (Specific) ہے۔ یہ معروضی ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔
  • مقصد کا فرق: یونانی تشخیص کا مقصد نظام میں موجود مزاجی عدم توازن کو پہچاننا ہے۔ جدید تجزیے کا مقصد مخصوص پیتھولوجیکل مارکرز یا جراثیم کی نشاندہی کرنا ہے۔
  • مثال: ایک ہی مریض کے لیے یونانی طبیب “غدی عضلاتی” تحریک کی تشخیص کرے گا، جس کا مطلب شدید گرمی اور خشکی کا غلبہ ہے۔ جبکہ جدید لیب رپورٹ میں “بلیروبن کی زیادتی، بلند مخصوص کشش ثقل، اور معمولی پروٹین” درج ہو گا اور اس کی بنیاد پر کسی مخصوص بیماری جیسے ہیپاٹائٹس کی مزید تحقیق کی جائے گی۔

ان اختلافات کے باوجود، دونوں نظاموں کو ایک دوسرے کا مخالف سمجھنا درست نہیں۔ وہ دراصل جسم کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور دو مختلف سوالات کے جواب تلاش کرتے ہیں۔ یونانی طریقہ ایک کم خرچ، غیر حملہ آور (non-invasive) اور پورے نظام کا ایک جامع جائزہ فراہم کرتا ہے۔ جدید طریقہ مہنگا لیکن انتہائی درست اور مخصوص ڈیٹا دیتا ہے۔ اس لیے یہ دونوں نظام ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ تکمیلی (Complementary) ہیں۔

ایک ماہر طبیب قارورہ شناسی کو تشخیص کے پہلے مرحلے کے طور پر استعمال کر سکتا ہے تاکہ مریض کی مجموعی مزاجی کیفیت کا اندازہ لگا سکے۔ اس ابتدائی کلّی تشخیص کی بنیاد پر، وہ مزید تصدیق یا تحقیق کے لیے مخصوص جدید لیبارٹری ٹیسٹ تجویز کر سکتا ہے، جیسا کہ “تشخیصِ صابر” میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے 9۔ مثال کے طور پر، “غدی عضلاتی” تشخیص کے بعد جگر کے افعال کا ٹیسٹ (LFT) کروانا ایک منطقی اگلا قدم ہو گا۔ یہ مربوط نقطہ نظر روایتی حکمت کی وسعت کو جدید سائنس کی درستی کے ساتھ ملا کر تشخیصی عمل کو مزید جامع اور موثر بنا سکتا ہے، جیسا کہ آیوروید اور یونانی طب کو جدید طب کے ساتھ مربوط

کرنے پر ہونے والی تحقیقات میں بھی تجویز کیا گیا ہے 19۔

جدول 3: یونانی اور جدید قارورہ شناسی کے نتائج کا تقابلی جائزہ

یونانی مشاہدہقانون مفرد اعضاء کی تشریحجدید لیبارٹری پیرامیٹرممکنہ جدید تشخیص
جھاگ دار پیشابپروٹین کی موجودگی، غدی تحریکپروٹین / البیومنگردے کے امراض، ہائی بلڈ پریشر
پھلوں جیسی میٹھی بوکیٹونز کی موجودگی، ذیابیطسکیٹونز (Ketones)ذیابیطس کیٹو ایسیڈوسس (DKA)
سرخ رنگتخون کی آمیزش، عضلاتی تحریکسرخ خونی خلیات (RBCs)گردے/مثانے کی پتھری، انفیکشن
گہرا زرد/بھورا رنگصفرا کی زیادتی، غدی تحریکبلیروبن (Bilirubin)جگر کے امراض، یرقان
پانی کی طرح بے رنگرطوبت کی زیادتی، اعصابی تحریککم مخصوص کشش ثقل (Low Sp. Gr.)شدید ہائیڈریشن، ذیابیطس انسپڈس
مقدار میں زیادتیاعصابی تحریک، ذیابیطسپولی یوریا (Polyuria)ذیابیطس، گردے کے امراض
مقدار میں کمیعضلاتی/غدی تحریک، خشکی/حرارتاولیگوریا (Oliguria)پانی کی کمی، گردوں کی ناکامی
گدلا پن، رسوبمواد کا اخراج، انفیکشنسفید خونی خلیات (WBCs)، بیکٹیریاپیشاب کی نالی کا انفیکشن (UTI)

حصہ پنجم: اختتامیہ: قارورہ شناسی کی دائمی اہمیت

اس تفصیلی جائزے کے اختتام پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قانون مفرد اعضاء کے تحت قارورہ شناسی محض کوئی لوک حکمت یا سنی سنائی باتوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک منظم، داخلی طور پر مربوط اور طبی لحاظ سے قابلِ قدر تشخیصی نظام ہے۔ اس کی بنیاد ایک منفرد نظریے پر قائم ہے جو امراض کی جڑ کو اعضاء کی غیر طبعی کیفیات میں تلاش کرتا ہے۔

اس نظام کی سب سے بڑی طاقت اس کی کلّی (Holistic) اور متحرک (Dynamic) سوچ میں پوشیدہ ہے۔ یہ طبیب کو ایک غیر حملہ آور (non-invasive) طریقے سے مریض کی مجموعی میٹابولک اور مزاجی حالت کا جائزہ لینے کے قابل بناتا ہے۔ یہ صرف مرض کی موجودگی کی نشاندہی نہیں کرتا، بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ مرض اپنی ارتقائی حرکت میں کس مرحلے پر ہے، جس سے علاج کو زیادہ درست اور ذاتی نوعیت کا بنایا جا سکتا ہے۔

اگرچہ قارورہ شناسی کا طریقہ کار اور مقصد جدید یورینالائسس سے مختلف ہے، لیکن یہ اس کا متبادل نہیں بلکہ ایک طاقتور تکمیلی ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ جدید لیب کے مقداری ڈیٹا کو ایک کیفیتی اور جامع تناظر فراہم کر سکتا ہے، جس سے تشخیص کی گہرائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر کم وسائل والے علاقوں میں، یہ ایک انتہائی کم خرچ اور موثر ابتدائی تشخیصی آلے کے طور sپر کام کر سکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ حکیم انقلاب صابر ملتانی کا پیش کردہ یہ تشخیصی فن آج بھی طب یونانی کے معالجین کے لیے ایک انمول اثاثہ ہے۔ اس کی دائمی اہمیت نہ صرف اس کی تاریخی جڑوں میں ہے، بلکہ صحت اور بیماری کے بارے میں اس کے منفرد کلّی نقطہ نظر اور مستقبل میں ایک زیادہ مربوط اور جامع طبی ماڈل میں ضم ہونے کی صلاحیت میں بھی مضمر ہے۔

PDFمیں کتاب یہاں سے صاحل کریں

Works cited

  1. kulyat e sabir Multani / کلیات تحقیقات صابر ملتانی – G Mart, accessed July 17, 2025, https://thegmart.net/products/kulyat-e-sabir-multani-%DA%A9%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D8%B5%D8%A7%D8%A8%D8%B1-%D9%85%D9%84%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C
  2. کلیات تحقیقات صابر ملتانیؒ مکمل سیٹ جلد اول و دوم – Al Furqan, accessed July 17, 2025, https://alfurqanstore.com/shop/books/tibb-hikmat-books/kuliat-tehqiqat-sabir-multani-v-1/
  3. Qanoon Mufrad Aza Hakeem – Google Play پر موجود ایپس, accessed July 17, 2025, https://play.google.com/store/apps/details?id=com.nukta.qanoonmufradaza&hl=ur
  4. حقیقت نظریه مفرد اعضاءاربعه – ایرانیان طب, accessed July 17, 2025, https://www.iranianteb.com/product/%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%D8%AA-%D9%86%D8%B8%D8%B1%DB%8C%D9%87-%D9%85%D9%81%D8%B1%D8%AF-%D8%A7%D8%B9%D8%B6%D8%A7%D8%A1%D8%A7%D8%B1%D8%A8%D8%B9%D9%87/
  5. Dynamics of Islam in the Modern World: Essays in Honor of Jamal Malik – Brill, accessed July 17, 2025, https://brill.com/edcollchap/book/9789004512535/BP000005.pdf
  6. قانون فرانك-ستارلينغ للقلب – ويكيبيديا, accessed July 17, 2025, https://ar.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A7%D9%86%D9%88%D9%86_%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%86%D9%83-%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D8%B1%D9%84%D9%8A%D9%86%D8%BA_%D9%84%D9%84%D9%82%D9%84%D8%A8
  7. عضلة القلب – ويكيبيديا, accessed July 17, 2025, https://ar.wikipedia.org/wiki/%D8%B9%D8%B6%D9%84%D8%A9_%D8%A7%D9%84%D9%82%D9%84%D8%A8
  8. نبض کیسے امراض کا پتہ دیتی ہے – ایکسپریس اردو – Express.pk, accessed July 17, 2025, https://www.express.pk/story/1871603/nbz-kyse-amraz-ka-pth-dyty-he-1871603
  9. تشخیص صابر – ادارہ مطبوعات سلیمانی, accessed July 17, 2025, https://books.sulemani.com.pk/tibbi-kutab/tibbi-kutab-mutafariq-musanafeen-o-mozouat/tashkhis-e-sabir/
  10. پیشاب کا رنگ | اپولو ہسپتال – Apollo Hospitals, accessed July 17, 2025, https://www.apollohospitals.com/ur/health-library/urine-color
  11. (PDF) A Comparative Study between Ancient Unani method with the …, accessed July 17, 2025, https://www.researchgate.net/publication/331298746_A_Comparative_Study_between_Ancient_Unani_method_with_the_Modern_Laboratory-based_Method_of_Urinalysis
  12. Normal (and Abnormal) Urine Test Results and What They Indicate, accessed July 17, 2025, https://www.healthline.com/health/normal-urine-test-results-chart
  13. گہرا پیشاب: علامات، وجوہات، تشخیص، اور علاج – CARE Hospitals, accessed July 17, 2025, https://www.carehospitals.com/ur/symptoms/dark-urine
  14. “URINE ANALYSIS METHODS IN VEDIC ERA VS MODERN ERA” – BiblioMed, accessed July 17, 2025, https://www.bibliomed.org/fulltextpdf.php?mno=72438
  15. صارف:حکیم ایم مزمل رفیقی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 17, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B5%D8%A7%D8%B1%D9%81:%D8%AD%DA%A9%DB%8C%D9%85_%D8%A7%DB%8C%D9%85_%D9%85%D8%B2%D9%85%D9%84_%D8%B1%D9%81%DB%8C%D9%82%DB%8C
  16. Urine analysis test procedure : Biochemistry Practicals – YouTube, accessed July 17, 2025, https://www.youtube.com/watch?v=udqv-3og9_k
  17. UTI Test Strips Guide: How to Read & Use | Uqora, accessed July 17, 2025, https://uqora.info/blogs/learning-center/how-to-read-uti-test-strips
  18. Assessing Concordance of Results: A Comparative Study of the Manual and Automated Urinalysis Methods – PMC, accessed July 17, 2025, https://pmc.ncbi.nlm.nih.gov/articles/PMC11055648/
  19. Urine Analysis in Ayurveda and Modern Medicine: Exploring Convergence and Divergence, accessed July 17, 2025, https://www.researchgate.net/publication/376530301_Urine_Analysis_in_Ayurveda_and_Modern_Medicine_Exploring_Convergence_and_Divergence
  20. Urine Analysis in Ayurveda and Modern Medicine: Exploring Convergence and Divergence, accessed July 17, 2025, https://jaims.in/jaims/article/view/2581/4028
  21. View of Urine Analysis in Ayurveda and Modern Medicine: Exploring …, accessed July 17, 2025, https://jaims.in/jaims/article/view/2581/4027

Related Articles

Leave a Comment

Contact Now

Get New Updates to Take Care Your Pet

Discover the art of creating a joyful and nurturing environment for your beloved pet.

Subscribe my Newsletter for new blog posts, tips & new photos. Let's stay updated!

Will be used in accordance with our  Privacy Policy

@2025 – All Right Reserved. Designed and Developed by Dilshad Bhai