![](https://tibbilife.com/wp-content/uploads/2025/01/image-16.png)
علم طب
تعریف : علم طب اُس علم کا نام ہے جس کے ذریعے بدنِ انسان کے حالات صحت و حالات مرض کا پتہ چلتا ہے۔
غرض و غایت: علم طب کی غرض و نمایت یہ ہے کہ اگر صحت ہو تو اُس کی نگہداشت کی جائے اور مرض پیدا نہ ہونے دیا جائے، یعنی صحت کو برقرار رکھا جائے ۔ اگر حالت مرض ہو تو حتی الامکان اُس کے ازالہ کی کوشش کی جائے اور مرض کو صحت کی طرف لوٹایا جائے۔
موضوع: جسم انسان جس میں اس کا نفس اور روح دونوں شریک ہیں۔
علم طب کی تقسیم
علم طب دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: علمی یا نظری عملی ۔ فی الحقیقت یہ دونوں قسمیں علم ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن کی تشریح حسب ذیل ہے۔
حصه علمی یا نظری کی تعریف: وہ علم ہے جس سے محض اشیاء اور کائنات کا علم اور اُس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ مثلا ارکان یا کسی شے کی ذات اور اُس کے افعال کا علم ۔ علاوہ ازیں اس میں اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں جن کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
حصه عملی کی تعریف وہ علم ہے جس میں ایسے مسائل ہوتے ہیں جن کا تعلق عمل سے ہوتا ہے ۔ مثلا ورزش کیسے کی جائے ، اگر کوئی مرض ہو تو اس کا علاج کیسے عمل میں لایا جائے ، نیز صحت کو برقرار رکھنے کے لئے کن اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہئے ۔ گو یا عملی سے مراد عمل کا علم مراد ہے یعنی اس میں بتایا جاتا ہے کہ عمل کیسے کیا جائے، گویا یہ بھی ایک علم ہے۔
طب علمی اور عملی کی مزید تقسیم
طب علمی طب علمی کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے . امور طبیعہ کا علم بدن انسان کے حالات علم الاسباب علم العلامات ۔ طب عملی طب عملی کی دو اقسام ہیں : علم حفظان صحت علم العلاج ۔
یہ علم طب کا مکمل خاکہ ہے، ان کی مزید تشریح اور توضیح آئندہ صفحات میں کی جائے گی۔ مگر اختصار کے ساتھ یہاں صرف مبادیات طب
![](https://tibbilife.com/wp-content/uploads/2025/01/image-13.png)
سے روشناس کرایا جائے گا۔ اس کی تقسیم کا نقشہ حسب ذیل ہے۔
جز واول
امور طبيعه
تعریف: امور طبیعہ چند ایسے امور ہیں جن پر بدن انسان کی بنیاد قائم ہے۔ یعنی بدن انسان انہی سے مل کر بنا ہے ۔ان میں سے اگر ایک کو بھی نفی فرض کر لیں تو بدنِ انسان قائم نہیں رہ سکتا۔ وہ امور حسب ذیل ہیں :
![](https://tibbilife.com/wp-content/uploads/2025/01/image-15.png)
ارکان
تعریف: ارکان چند ایسے بسیط اجسام ہیں جو بدن انسان و حیوان اور نباتات و جمادات میں پائے جاتے ہیں، جن کا مزید تجزیہ نہیں ہو سکتا ، یعنی ایسے اجزاء اولیہ جو مختلف صورتوں اور طبیعتوں کے اجسام میں تقسیم نہیں ہو سکتے ۔ گویا وہ اجزاء لا تجزئی ہیں یعنی ان اجزاء کو مختلف دیگر اجزاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ ارکان رکن کی جمع ہے، جس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ ایک بنیادی چیز ہے۔ گویا چاروں ارکان کا ئنات میں زندگی کے بنیادی اجزاء ہیں ۔ وہ چار ہیں: (۱) آگ۔ جو گرم خشک ہے۔ (۲) ہوا۔ یہ گرم تر ہے۔ (۳) پانی ۔ یہ سردتر ہے ۔ (۴) مٹی۔ یہ سردخشک ہے۔
![](https://tibbilife.com/wp-content/uploads/2025/01/image-14.png)
آیور ویدک پانچ ارکان تسلیم کرتے ہیں۔ یعنی وہ ان چار ارکان کے ساتھ ایک آکاش کا بھی اضافہ کرتے ہیں، جس کو ہم اثیر اور انگریزی میں اتھر (Ether) کہہ سکتے ہیں۔ اور ان کی ترتیب اس طرح ہے: (۱) آکاش (۲) اگنی (۳) وایو (۴) جل (۵) پرتھوی ۔ مغربی سائنس تقریبا 99 عناصر تسلیم کرتی ہے۔ گویا انہوں نے آج تک جس قدر عناصر میں تحقیق اور معلومات کی ہے، وہ 99 کے قریب ہیں۔ جن میں ذیل کے خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ (۱) آئرن – لوہا (۲) آرسینک – سنکھیا (۳) آرگن (۴) اریڈیم (۵) اسٹرائیشیم (۶) اسکینڈیم (۷) انڈیم (۸) اوی سیم (۹) آکسیجن نسیم .
مزاج
تعریف: ارکان کے امتزاج میں فعل و انفعال، اثر و متاثر اور کسر وانکسار کے بعد جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، اُس کا نام مزاج ہے۔ اس امتزاج میں چاروں کیفیات کا مساوی ہونا ضروری نہیں ۔ اس میں جو ایک قسم کا اعتدال پایا جاتا ہے، وہ اعتدال في القسمت ( مزاج معتدل فرضی ) یا با ضرورت ہے۔ یعنی جس مزاج میں ان کیفیات کی جس قدر ضرورت ہو وہ پائی جائیں ان کیفیات میں حرارت اور برودت کو کیفیات فاعلہ اور رطوبت اور میبوست کو کیفیات مفعولہ تسلیم کیا گیا ہے۔
مزاج حقیقی
چاروں کیفیات کا کسی مزاج میں برابر اور مساوی پایا جانا ناممکن ہے، اس مزاج کو فقی ی حقیقی کہتے ہیں، چونکہ اس کا عقلی اور حقیقی مزاج کا مقام نا ممکن ہے ، اس لئے اطباء نے ایک فرضی مزاج تسلیم کیا ہے۔
فرضی مزاج
یعنی ایسا مزاج جو ضرورت کے مطابق موالید ثلاثہ ( حیوانات، نباتات، جمادات ) کی کسی شے کو عطا کیا جائے ۔ جس سے اس کی صحت قومی اور نشو ونما قائم رہے، یعنی جس مزاج میں گرمی کی زیادہ ضرورت ہو اُس کو گرمی زیادہ دی جائے اور جس مزاج میں سردی کی زیادہ ضرورت ہو اس کو سردی زیادہ دی جائے ۔ یہ مزاج “عدل فی القسمت ہے۔ مثلاً شیر کو حرارت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور خرگوش میں برودت کی زیادہ کی ضرورت ہے۔ اگر ان کے مزاج میں کمی بیشی ہو جائے تو ان کی صحت ، قومی اور نشو و نما قائم نہیں رہ سکتی۔ بس یہی مزاج کا معتدل ہونا