
علوم وفنون کی تاریخ جس قدر دلچسپ اور سبق آموز ہے اسی قدر وقت طلب بھی ہے کسی قدیم علم کی ترتیب و تدوین کی صحیح تاریخ معلوم کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ بعض حیثیتوں سے محال ہے۔ علم طب کی تدوین کی صحیح کیفیت کا معلوم کرنا بھی بہت مشکل ہے اور اس دلچسپ اور مفید موضوع کے متعلق تاریخ قدیم میں بہت کم مواد موجود ہے۔ بعض دیگر علوم کی طرح علم طب کی ابتدا بھی غیر منضبط اور تو ہم آمیز معلومات سے ہوئی اور تمدن کی ترقی کے ساتھ اس بھی غیر منہ میں ترتیب و تہذیب کی شان پیدا ہوتی گئی۔

طب کی ابتداء
جالینوس نے بقراط کی کتاب الایمان کی شرح میں طب کی ابتدائی تاریخ کی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ اس کے متعلق حکما کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ تو ان ارباب فلسفہ کا ہے جو عالم کو قدیم قرار دیتا ہے اس گروہ کی رائے میں طب بھی قدیم ہے کیونکہ یہ علم ہر زمانہ میں انسان کے لئے ضروری تھا دوسرا گروہ حدوث اجسام کا قائل ہے اس لئے وہ طلب کو بھی حادث قرار دیتا ہے اس دوسرے گروہ کے پھر دو فریق ہیں ان میں سے ایک گروہ کی رائے ہے کہ یہ فن تجر بہ وقیاس سے وجود پذیر ہوا مگر دوسرا گروہ اس کو وحی و الہام کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں یہ اعتقاد عام تھا کہ طب ایک ایسا ہی علم ہے چنانچہ بقراط نے اس
یہ بھی پڑھئے
تشخیصات متعددہ کا مطالعہ کیوں ضروری ہے
خیال کا اظہار کیا ہے۔ افلاطون بھی اپنی کتاب ایسا ستہ میں اسقلی بیوس کو صاحب الہام تسلیم کرتا ہے خود جالینوس تفسیر العبد میں اس رائے کا اظہار کرتا ہے۔ جالینوس کا استدلال یہ ہے کہ اس اعلی علم کے اور اک کے لئے عقل انسانی کافی نہیں ہے یہ امر تعجب انگیز ہے کہ اس عام عقیدے کے باوجود نملین اور ناسٹکس اس کو انسانی مساعی کا رہین قرار دیتے ہیں۔ یونانیوں کے علاوہ اکثر دوسری قوموں میں بھی اس علم کو الہامی قرار دیا گیا ہے۔ یہودیوں کا خیال ہے کہ اس علم کو خداوند تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا۔ صبائی قائل تھے کہ یہ علم ان کے مذہبی پیشواؤں پر الہام ہوا تھا پارسیوں کا عقیدہ ہے کہ زرتشت پر چار طرح کے علوم کی کتابیں نازل ہوئی تھیں جن میں سے ایک طب ہے ہندو آیورویدک کا سرچشمہ و الہام قرار دیتے ہیں۔ اسلام اس قسم کے تخیلات کا بہت کم قائل ہے۔ قرآن حکیم میں جابجا قیاس و نظر کا ارشاد ہوا ہے اس لئے اکثر حکماء اسلام اس کا ماخذ قیاس و تجربہ کو قرار دیتے ہیں۔ مگر ابو جابر مغربی اس کو الہامی قرار دیتے ہوئے اس پر متعدد دلائل تحریر کرتا ہے جن کا رود شیخ موفق الدین اسعد بن الیاس مطران نے بستان اطبا در روضتہ الالبا میں تحریر کیا ہے۔ اس کے نبوی ہونے کے متعلق ایک روایت حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام عقاقیر واشجار سے دریافت کر کے ان کے فوائد تحریر کیا کرتے تھے اور حضرت محمد سلیم کی طرف جو معالجات منسوب ہیں ان کو مستقلاً طب نبوی قرار دیا گیا ہے مگر اس بارے میں اختلاف ہے کہ طب نبوی وحی الہی کے ذریعہ نازل ہوئی ہے یا تجربہ وقیاس پر مبنی ہے۔ صاحب سفر السعادۃ وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ طب نبوی کو دوسری طب کیساتھ کوئی نسبت نہیں ہے کیونکہ یہ وحی الہی نبوت اور کمال عقل سے سرزد ہوئی ہے۔ اس کے خلاف ابن خلدون نے اسے تجربہ و قیاس پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس حدیث تابیر سے استشہاد کیا ہے۔ جب کوئی دنیوی امر ہو تو تم مجھ سے بہتر جانتے ہو اور جب کوئی دینی امر ہو تو میں تم سے بہتر جانتا ہوں۔”
حقیقت یہ ہے کہ مبداء فیاض نے انسان ضعیف البنیان کو خلعت عقل سے مشرف کر کے ایک ایسی الہامی قوت عطار کی ہے کہ وہ طرح طرح کے علوم وفنون ایجاد کر کے منازل ارتقاء کو طے کرتا ہے دور حاضر میں ایجادات و اکتشافات کا ایک غیر کنم سلسلہ نظر آرہا ہے جو قدیم حکماء کے لئے افسانہ طرازی سے زیادہ نہ تھا مگر پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ علوم و فنون جدیده و اکتشافات حدیثہ الہام و وحی کے نتائج ہیں۔
مرض کا حدوث
طب کی ابتدائی تاریخ کو معلوم کرنے کے لئے ہمیں مرض کے حدوث کی تاریخ معلوم کرنے پڑے گی سر آرتھر کیتھ کے تخمینہ کے مطابق انسان تین لاکھ پچاس ہزار قبل مسیح اور بعض دوسرے اصحاب کے تخمینہ کے مطابق تمیں لاکھ سال سے کرہ ارض پر آباد ہے۔ ابو جابر مغربی نے طب کو الہامی ثابت کرتے ہوئے ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ پہلے انسان کو بھی طبقی اعانت کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی بخلاف اس کے روسیو کے مقلدین کی رائے میں تہذیب و مدنیت سے پہلے کا دور موجودہ عوارض و امراض سے خالی تھا مگر طبی و ارضی تخمینے اس کے خلاف ہیں چنانچہ اہل طبیعات کے تخمینہ کے مطابق آج سے ایک کروڑ ساتھ لاکھ سال پہلے جراثیم مرض پائے جاتے تھے۔
بہر حال یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مرض انسان سے پہلے پایا جاتا تھا بعض معدوم جانوروں کے مطابق حجریہ میں سلعات عظامی (ہڈیوں کی رسولیاں) پائے گئے ہیں پروفیسر رائے بڑی کی رائے میں اس قسم کی سب سے قدیم مثال التهاب الخ العظام کی ہے خیال کیا گیا ہے کہ یہ مرض آج سے اسی لاکھ سال پہلے موجود تھا برنارٹ ری نالٹ کی تحقیق سے یہ امر پا یہ تصدیق تک پہنچ چکا ہے کہ اس زمانہ کے بعض جانوروں کے متجر عظام میں کرویات دقیقہ اور کرویات زوجیہ کے قسم کے

جراثیم پائے جاتے تھے۔
بہر حال ہمارے لئے زیادہ ضروری سوال یہ ہے کہ مرض سب سے پہلے انسان پر کب حملہ آور ہوا اس کا جواب گو مشکل ہے تا ہم اس وقت تک مختلف ذرائع سے جو کچھ تحقیق ہوا ہے اس کی اعانت سے ہم اس کا جواب دینے کی سعی کریں گے۔ اس بارے میں علم طبقات الارض ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔ 1891ء میں ڈاکٹر دو بالش نے ٹری سیل (جاوا) میں جو تجر ہڈیاں نکالی تھیں ان کو اس وقت تک دریافت کئے ہوئے انسانوں کی ہڈیوں میں سے اولیت کا مرتبہ دیا گیا ہے ان ہڈیوں میں ایک کا سرہ سر ایک ران کی ہڈی اور تین دانت پائے گئے ہیں’ سر آرتھ کیچھ کے اندازے کے مطابق یہ بن مانس (Apeman) ساڑھے تین لاکھ سال قبل ہوا ہوگا عجیب بات یہ ہے کہ یہ اولین انسان بھی مرض سے محفوظ نہیں تھا اس کی ران کی ہڈی میں ایک بڑا زائدہ عظیمہ پیدا ہو گیا تھا جس کیوجہ سے اسے کافی تکلیف ہوئی ہوگی۔ اس قسم کے عظمی و زوائد آج کل بھی پیدا ہو جاتے ہیں چنانچہ عظم الفارس (Rider’s Bone) رائیڈرز بون میں سواری کی وجہ سے اس طرح کا زائدہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد زمانہ حجری (Stone Age) سٹون ایج میں مختلف امراض مثلاً التهاب الفقرات سل ظہری، اعوجاج الصلب، قروع کاسہ سر اور التهاب المفاصل وغیرہ کے مختلف اقسام کی مثالیں ملتی ہیں معروف ماہر ماہیت امراض در چونے زمانہ انجماد/ گلے شی ال ٹائم (Glacial Times) کی بعض ہڈیوں کی تحقیق کر کے التهاب المفاصل کے بعض اقسام کو تفصیل سے بیان کیا ہے اگر چہ دانتوں کے امراض اس زمانے میں کم تھے تاہم بعض مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تاکل استان اور قروج و ثبوراش کے امراض اس وقت بھی پائے جاتے تھے۔
بقیہ دوسری قسط میں