
شاخ زریں۔2جلدیں یکجا
سر جیمز چارج فریزر
تعارف
از
آغا عبدالحمید ، ڈائریکٹر سول سروس اکیڈمی ، لاهور
انسانیات کے عام میں پچھلے سو سال میں جو انقلاب آیا ھے اس میں سر جیمز چارج فریزر کی تصنیفات کو بہت بڑا دخل ہے ۔ انسانیات کا علم بہت پرانا ہے اور اس موضوع پر ھر بڑی تہذیب میں کتابیں لکھی گئی ہیں ، لیکن اس علم کو ایک جدا علم بنانا اور ایک منظم طریقے سے وہ شہادت جمع کرنا جس سے کچھ بنیادی اصول وضع کیے جاسکیں زیادہ تر اٹھارویں اور انیسویں صدی کا کام ھے ۔ اور یہ کہنا غلط نه هو گا که زیاده تر کام انیسویں صدی میں کیا گیا ۔ سر جیمز فریزر پہلے مصنف تھے جنھوں نے دنیا کے مذاہب کا مطالعه اس نظر سے کیا کہ ان کے عقائد اور ان کی رسموں کو سچا یا جھوٹا ثابت کرنے کی بجائے سامنے رکھ کر یہ دیکھا جائے کہ ان میں کون کون سی چیزیں ایک دوسرے سے مشابه هیں تا که به دریافت هو سکی که مذهب کے متعلق انسانی فکر کا ارتقاء کیسے ھوا ۔
سر جیمز فریزر یکم جنوری ۱۸۵۴ء کو گلاسگو کے شہر میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد ڈینیل فریزر (Daniel Frazer) فریزر اور گرین نامی کمپنی میں کام کرتے تھے اور کمپنی کے بڑے حصہ دار تھے ۔ به کمپنی ڈینیل فریزر کے بڑے بھائی نے ۱۸۳۰ء میں قائم کی تھی ۔ وہ ۱۹۰۰ء میں فوت ھوئے اور ۱۸۹۸ء

تک جب وہ ریٹائر ہوئے کمپنی کی
باگ دوڑ سنبھالے رھے ۔ ریٹائر ہونے کے بعد وہ جھیل گیر (Gare) کے کناری رومور (Rowmore) میں رہتے تھے جو ڈمبارٹن شائر میں واقع ہے۔ )Dumbartonshire(
سر جیمز فریزر کی والدہ گلاسگو کے ایک امیر سوداگر گھرانے کی صاحب زادی تھیں ، جو اپنی شیرینی طبع اور مضبوط ارادے کی وجہ سے ممتاز تھیں ۔ میاں بیوی دونوں مذہب کے شدت سے پیرو تھے اور ان کی زندگی پابند طہارت و مناجات تھی ۔ والد کو انگریزی ادب میں گہری دل چیپی تھی چنان چه انھوں نے کتابوں کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ اپنے کتب خانے میں فراہم کیا تھا ۔ اس کے علاوہ انھوں نے دو کتابیں لکھی بھی تھیں ۔
ابھی جیمز فریزر کم سن ہی تھے کہ ان کے والد نے ٹیلنز برگ (Helensburgh) میں ایک گھر خریدا – به خوب صورت شهر جهيل گیر کے کنارے دریائے کلائڈ (Clde) کے دھانے پر واقع ہے ۔ مارے مصنف نے جو دن اس علاقے میں بسر کیے ان کی یاد ان کے لیے همیشه باعث راحت رھی ۔ اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں : آج کی رات لندن کے دبے ھوئے شور میں جو میرے کانوں میں گونج رہا ھے ، میں گزرے ہوئے زمانے کے مسلسل منظر پر نظر دوڑاتا ہوں اور سمندر کے کنارے اس چھوٹے سفید شہر کو پھر دیکھتا ہوں جس کے پیچھے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں سورج کی گرم شعاؤں سے منور ھو رھی ہیں ۔ میں پھر ان گھنٹیوں کی دھیمی موسیقی سنتا ہوں جو شام کو بجتی تھیں اور جن کے متعلق ہمیں بچپن میں بتایا جاتا تھا کہ گو اب تم ان کی آواز پر کان نہیں دھرتے لیکن ان کو اپنے بڑھاپے میں یاد کرو گے ۔ خلیج کے بار بڑھتے ھوئے سایوں میں دل کش روزن ایتھ گهرا هوا هے ۔ جھیل کے سیاه نام نیلے اور ساکن پانی کے دوسری طرف شام کے دھندلکے میں جھیل گیر کی چھوٹی پہاڑیاں دمکتی ہوئی نظر آتی ہیں اور ان کے اوپر جھیل لانگ کے عظیم پہاڑ ڈوبتے سورج کی کرنوں میں اپنے سر بلند کیے واقع ہے جو درختوں سے )Roseneath( ھوئے ہیں ۔“
جیمز فریزر کی دو بہنیں اور ایک بھائی تھا ۔ ان سب کی پرورش خالص مذہبی ماحول میں ھوئی تھی – روزانه عبادت ایک مستقل معمول تها – ان کے والد هر روز انجیل کی تلاوت کرتے اور گھر کے تمام لوگ اور نوکر دو زانو ھو کر سنتے تھے ۔ اتوار کا دن ان تمام پابندیوں کے ساتھ منایا جاتا تھا جو سکاٹ لینڈ سے مخصوص تھیں ۔ سوائے گرجا جانے کے دن بھر گھر سے نکلنا منع تھا ۔ تمام بچے شام کو مل کر اپنی والدہ کے سامنے حمد و ثنا گانے تھے۔ بچوں کو مکمل مذهبی تعلیم دی گئی تھی اور عبادت باقاعدگی سے کرنے پر بہت زور تھا ۔ یه پر قواعد تربیت سر جیمز فریزر کے لیے کبھی بوجه ثابت نه هوئی نه ان تمام پابندیوں نے کبھی ان کو تھکایا ۔ آخری عمر تک ان کے دل میں اپنے والدین کی پابندی مذہب کے لیے ایک گہرا جذبه قدر و عقیدت قائم رها .
هیلینزبرگ میں نوجوان جیمز فریزر کو پہلے سپرنگ فیلڈ اکیڈمی Larch( اور بعد میں لارج فیلڈ اکیڈمی )Springfield Academy( -field Academy) میں تعلیم دی گئی ۔ وہاں انھوں نے یونانی اور لاطینی زبانیں سیکھیں ، کلاسیکی ادب سے ایسی دل چسپی پیدا هوئی جو ساری عمر قائم رهی قاعدے کے مطابق ان کو بھی فریزر اور گرین کمپنی میں داخل هونا چاهیے تھا تاکه والد کے ریٹائر ہونے پر سارا کام سنبھال سکیں لیکن والد نے جب دیکھا کہ بچے کو تعلیم کا شوق ھے تو مجبور نہ کیا ۔ چنان چه جیمز فریزر نے ١٨٦٩ء میں گلاسگو یونیورسٹی سے میٹریکولیشن پاس کر لیا ۔ وہ لکھتے ہیں آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے میں یونیورسٹی میں داخل هوا تو ماسٹر آف آرٹس (Master of Arts) کا نصاب آج سے بہت مختلف تھا ۔ اس وقت لڑکوں کو به اجازت نه تهی که اپنی مرضی کے مضمون چنیں ۔ ھر ایک کو ایک می فہرست کے مضامین میں امتحان پاس کرنا ھوتا تھا ۔ اس فهرست میں یونانی ، لاطینی ، ریاضی ، طبیعیات ، منطق ، مافوق الطبيعيات ، اصول اخلاق اور انگریزی ادب شامل تھے ۔ یہ ایک پر مغز اور کشادہ دل سکیم تھی ۔ اگر لڑکوں پر جو کم عمر تھے چھوڑ دیا جاتا کہ
مضامین کا انتخاب وہ خود کریں تو وہ اس سے بہتر سکیم نہ بنا سکتے ۔ کم از کم میں شکر گزار هوں که سوله سال کی عمر میں من مانی کرنا مجھ پر نه چهوڑا گیا بلکه به کام تجربه کار اهل علم کے ذمے تھا کہ وہ مجھے شاہ راہ تعلیم پر کام زن ھونے کے اصول بتائیں ۔“
گلاسگو یونیورسٹی میں وہ جارج رامزے (George Ramsay) سے بہت متاثر ہوئے جو لاطینی کے پروفیسر تھے ۔ وہ ادب میں ذوق سلیم رکھتے تھے ۔ ان کے برتاؤ میں ایک کشش تھی جس کے زیر اثر فریزر همیشه کے لیے کلاسیکی عہد کے دل داده هو گئے ۔ فریزر چاہتے تھے که بیلی ایل کالج آکسفورڈ (Balliol College Oxford) میں داخلے کے لیے مقابلے کا امتحان دیں ، لیکن ان کے والد کے خیال میں آکسفورڈ میں مذہبی آزادی ضرورت سے زیادہ تھی اس لیے انھیں ٹرینٹی کالج كيمرج (Trinity College Cambridge میں جانا پڑا جہاں انھوں نے مقابلے کے امتحان میں وظیفہ حاصل کیا – البر اوتیں (Albert Houtin) مارچ ۱۹۲۳ء کے رساله لاروس مین سؤايل (Larouse Mensuel) میں لکھتے ہیں : ان کے والد نے اپنی رائے میں انھیں مذہبی آزادی سے بچا دیا لیکن پابند مذهب باپ بھی ہر خطرے کو چلے سے نہیں دیکھ سکتا ۔ کیمرج میں داخلے کے چند سال بعد وہاں وليم رابرت من سمته (William Robertson Smith) پہنچے جو اتنے آزاد خیال تھے کہ گرجا سے خارج کر دیے گئے تھے ۔ وہ مشرق زبانوں کے ماہر تھے ۔ جیمز ان کے شاگرد اور دوست بن گئے اور جب ان کے زیر اثر کتابیں لکھنی شروع کیں تو ان کے والد جو عمر رسیدگی کی وجہ سے اچھی طرح پڑھ نہیں سکتے تھے ، اسی بات سے خوش تھے کہ ان کا بیٹا ایک مشہور عالم بن گیا ھے ۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ جیمز قانونی تعلیم حاصل کریں ۔ چناں چہ انھوں نے ۱۸۸۱ء میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ، اگرچه وکالت عمر بھر نہیں کی ۔ یہ قانونی تعلیم ان کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوئی کیوں کہ ان کا بڑا کام به تها که ابتدائی زندگی کے متعلق جو شواهد ماهرین نے جمع کیے تھے ان کو ٹھیک طور سے پرکھ سکیں ۔ –
انسانیات سے انھیں پہلے پہل ٹائلر (Tyler) کی شہرہ آفاق کتاب ابتدائی تہذیب پڑھ کر دل چسپی هوئی – به دل چسپی سمتھ (Smith) کی دوستی کی بدولت اور زیادہ گہری ہو گئی – فریزر کی رائے میں سمتھ سے زیادہ عظیم ہستی سے ان کی ملاقات نہیں ھوئی ۔
یہ کہنا شاید غلط نہیں هو گا که انیسویں صدی میں علمی دنیا کا سب سے بڑا کارنامه به نه تها کہ انھوں نے نئے حقائق دریافت کیے اگرچه یه بھی بے شمار تھے) بلکه به که انهوں نے ان حقائق کو پرکھنے اور ان کی ترجمانی کرنے کے لیے بنیادی اصول وضع کیے۔ اس کے لیے جس طریق سے کام لیا جاتا تھا وہ تقابلی یا بالموازنه ضابطه کہلاتا تھا ۔ اس ضابطے کی مدد سے فرانز بوپ Franz Bop) نے ثابت کیا تھا که هند یورپی زبانوں کا مخرج ایک ھی ھے ۔ اسی ضابطے کو قانون پر حاوی کر کے سر هنری مین (Sir Henry Maine) نے انسانی رواج اور دستور کے ماخذ پر روشنی ڈالی تھی ۔ ولیم رابرٹ سن William Robertson) اس لیے مشہور ہیں کہ انھوں نے مختلف مذاہب کا تقابلی موازنے سے مطالعه کیا تھا ۔ جو قیمتی نتائج انھوں نے حاصل کیے تھے ان کے متعلق سر جیمز فریزر لکھتے ہیں : انیسویں صدی سے پہلے محققین کو یہ خیال نہیں آیا کہ دنیا کے مذاہب کا مطالعه تاریخی نظریے سے کرنا چاہیے ۔ یہ ثابت کرنے کی بجائے کہ کون سا مذهب سچا ھے اور کون سا جھوٹا ، مذاہب کو انسانی شعور کے مظاہر شمار کرکے یہ دیکھنا چاهیے که ان کا ارتقاء کیسے عمل میں آیا – اگر هم مذاهب کے جھوٹا یا سچا ہونے کو یا مذہبی رسوم کے اچھا یا برا ہونے کو غیر متعلق جان کر ایک طرف کر دیں اور مختلف اقوام کے مذاہب کو سامنے رکھ کر مطالعہ کریں تو یہ واضح هو جاتا هے که تفصیلی تفریق کے باوجود ان کے بنیادی اصول ایک دوسرے سے بہت حد تک مشابہ ہیں اور اس سے زیاده یه که وه ایک دوسرے پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ بسا اوقات ایک مذهب کی رسوم دوسرے مذاہب کی رسوم اور عبادات کی وجہ تسمیه عیاں کر دیتی ہیں ۔ مذاہب کا تقابلی مطالعه به ثابت کرتا هے که
مذاهب کا ارتقاء ایک حد تک سب قوموں میں ایک ہی جیسا ھوا ھے ۔ نیز به که ایک مذہب کی ابتدائی کیفیت اس وقت تک پوری طرحسمجھ میں نہیں آتی جب تک کہ اس کا مقابلہ دوسرے مذاہب سے نه کر لیا جائے ۔“
رابرٹ من سمته (Robertson Smith) ۱۸۸۱ء سے انسائکلوپیڈیا بریٹانیکا Encyclopedia Brittanica) کے ایڈیٹر تھے۔ اپنے دوست فریزر کی دل چسپی کو جانتے ھوئے انھوں نے فریزر سے Taboo یعنی تحریم اور ٹوٹم کے عقیدے پر مضمون لکھوائے جو ۱۸۸۸ء میں انسائکلو پیڈیا کے نویں ایڈیشن میں شائع ہوئے ۔ فریزر لکھتے ہیں کہ به مضمون لکھنے کے لیے میں نے جو تحقیق کی وہ اس تحقیق کا پیش خیمه ثابت هوئی جو میں نے انسانیات کے منظم مطالعے کے لیے شروع کی اور خاص طور پر ان قوموں کے رسم و رواج کا مطالعہ جو پس مانده ھیں اور جنھیں ھم وحشی کہتے ہیں میں نے اسی وقت شروع کیا۔
سر جیمز فریزر کی زندگی کے حالات لکھتے وقت ان کی تصنیفات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ان کی زندگی کے اہم واقعات انھیں کتابوں کی اشاعت تھے جو آج هر کتب خانے کی زینت ہیں ۔ ان کی زندگی میں کوئی اہم ڈرامائی واقعہ نہیں ہوا ۔ انھوں نے ۱۸۹۶ء میں شادی کی جو فرانسیسی تھیں اور بچوں کے لیے فرانسیسی اور انگریزی میں کتابیں لکھتی تھیں ۔ لیڈی فریزر ساری عمر ان کے کام میں ان کی مددگار رہیں ۔ روزمرہ کی عملی زندگی میں وہ بہت سوجھ بوجھ رکھتی تھیں جن سے ان کے خاوند بالكل عاری تھے ۔ سر جیمز فریزر ۱۹۳۱ء میں کیمرج میں فوت ہوئے ۔ سے )Mrs. Lilly Grove( مسز للی گروو
شاخ زریں ۱۸۹۰ء میں دو جلدوں میں شائع ہوئی ۔ وقت کے ساتھ اس میں ترمیم و اضافه هوتا رها – ۱۹۰۷ سے ۱۹۱۵ تک یه کتاب بارہ جلدوں میں شائع ہوئی ۔ اس کا پورا نام شاخ زریں ، جادو اور مذهب کا ایک مطالعہ ہے ۔ فریزر کی چند ایک اہم تصانیف کی فهرست یه هے :
(1) یونان کے بیان میں چھ جلدیں ، ۶۱۸۹۸ –
(۲) بادشاہت کی ابتدائی تاریخ ، ۶۱۹۰۵ –
)Totemism and Exogamy( ۳) ٹوٹمزم اور ایکسوگیمی( چار جلدیں ، ۶۱۹۱۰ –
(۲) حیات جاودانی اور مردوں کی پرستش ، ۱۹۱۳ء ۔
(ه) ولیم کوپر کے خطوط ، دو جلدیں ، ۶۱۹۱۲ –
(1) انجیل کے عہد نامہ عتیق میں عام لوگوں کے عقائد اور روايات ، تین جلدیں ، ۶۱۹۱۸
(2) مظاہرہ طاقت کی پرستش – ۶۱۰۹۲۹
(۸) آگ کے ماخذ کے متعلق دیو مالا ۱۹۳۰ء

(1) قدیم مذہب میں مردوں سے خوف ۱۹۳۳ء
جیسا اوپر بیان هو چکا هے شاخ زریں لے پھل دو جلدوں میں ۱۸۹۰ء میں شائع ہوئی ۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۰۰ء میں تین جلدوں میں شائع ہوا اور تیسرا ایڈیشن ۱۹۱۱ء سے ۱۹۱۵ء تک بارہ جلدوں میں شائع ہوا ۔ اس کی تیرھویں جلد ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی ۔ ۱۹۲۲ء میں اس کا ایک مختصر ایڈیشن ایک جلد میں شائع کیا گیا جس کا ترجمہ آپ کے سامنے ھے ۔
مصنف نے کتاب لکھنے کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ واقعات کا دور جو شاخ زریں میں بیان کیا گیا ھے ایک پیچ دار خاکے میں اندھیرے اور روشنی کے گھٹتے بڑھتے کھیل میں اس طویل ارتقا کو سامنے لاتا ھے جس سے انسانی فکر و عمل درجه به درجه سحر سے مذہب اور مذہب سے سائنس میں تبدیل ہوئے ۔ ایک حد تک به انسانیت کی ایک رزمیہ نظم ھے ۔ اس انسانیت کی جس نے سحر سے ابتدا کر کے اپنی پختہ عمر میں سائنس پر قابو پا لیا ھے جو اس کے لیے شاید موت کا باعث هو ، کیوں کہ جس دیو نے آج کا انسانی فکر پیدا کیا ھے وہ انسانیت کو فنا کی دھمکی دیتا ہے حالاں که انسانیت کا انحصار اپنی ترقی اور آسودگی کے لیے اسی فکر پر ھے ۔