Tuesday, July 1, 2025
Home Blog رطوبات ۔قانون مفرد اعضاء کی نظر میں

رطوبات ۔قانون مفرد اعضاء کی نظر میں

by admin
رطوبات ۔قانون مفرد اعضاء کی نظر میں
رطوبات ۔قانون مفرد اعضاء کی نظر میں
رطوبات ۔قانون مفرد اعضاء کی نظر میں

رطوبات ۔قانون مفرد اعضاء کی نظر میں

حکیم  المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

یہ وہ رطوبت ہے جس کا ترشح جسم کی غذا بنتا ہے۔ یہ رطوبت طلیہ (شبنم) یہ رطوبت قدرتی طور پر جسم میں مختلف جگہ پر ترشح پاتی ( ہے اور حالت صحت میں طبعی طور پر انسان کے جسم کے اندرونی و بیرونی اعضاء پر رطوبات کا ترشح ہو تا رہتا ہے جس سے جسم کے اعضاء نرم رہتے ہیں ان رطوبات کا حاصل ترشح اعتدال کے ساتھ ہے جو صحت کے لیے بنیادی اینٹ تسلیم کی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر نزلہ کو زیادہ وسعت دیں تو مختلف اعضاء مثلا ناک، کان، آنکھ حلق کی رطوبات کی زیادتی نزلہ میں شمار ہو سکتی ہیں یونہی مخرج سے نکلنے والی رطوبات مثلاً پسینہ

یہ بھی پڑھیں

انسانی جسم میں رطوبات اور ہارمونز کا کردار

پیشاب اور اسہال اور تحلیل سے نکلنے والے پسینے پستان سے نکلنے والے دودھ وغیرہ کی رطوبات بھی نزلہ کی صورتیں ہیں اس طرح مردانہ یا زنانه عضوی امراض و علامات مثلاً جریان سیلان استحاضہ مذی ودی و غیرہ کو سامنے رکھا جائے تو یہ بھی نزلہ کی مختلف صورتیں ہیں جو انسانی جسم سے باہر کی طرف گرتی ہیں۔ 

عربی زبان میں نازل یا نزول اوپر سے نیچے آنے کو کہتے ہیں یہیں بس نہیں حضرت انسان کے اندر بھی گرنے والی مختلف رطوبات کئی قسم کی امراض و علامات بن کر سامنے آتی ہیں یہ سب کیا ہیں یہ سب کہاں سے آتی ہے یہ سب سوزش کا نتیجہ ہیں۔ جو اندرونی اعضاء میں پیدا ہو گئی ہے مثلا نزول الماء استسقاء وغیرہ یہ رطوبات ایک طرف جسم کی غذا بنتی ہیں اور دوسری طرف ان رطوبات ا سے جسم مثلاً ناک، کان، آنکھ وغیرہ میں خشکی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ بیرونی جلد اور اندرونی مجاری اور جوڑوں میں خشکی وغیرہ پیدا نہیں ہوتی بلکہ پیشاب کی نالی مقعد اور رحم میں بھی یہی رطوبات بوقت ضرورت اعتدال کے ساتھ تراوٹ رکھتی ہیں۔ جب کسی حصہ جسم یا مجراء میں سوزش پیدا ہوتی ہے تو اس کو رفع کرنے کے لیے رد عمل کے طور پر یہ رطوبات اعتدال سے زیادہ 

کرنے لگتی ہیں اور رطوبات کا زیادہ گرنا جسم کی ایک اہم علامت ہے مختلف مقامات کی وجہ سے ان کے نام بھی مختلف ہیں یعنی رطوبت طلیہ کی بجائے اس کو رطوبت دمویہ کا نام دیا گیا ہے۔ 

مثلار طوبات دمویہ سوزش یاورم پر آکر اس کی کار بن گیس اور تیزابیت کو دھو کر ہلکا کر کے جسم سے خارج کرتی ہے تو طبی زبان میں اس کو ر طوبت غلیظہ کہتے ہیں اگر یہ رطوبت آنکھ سے گیڈ بن کر ۔ ناک سے نزلہ وزکام کی صورت میں ۔ منہ سے رال یا کھنگار بنکر ۔ اور معدے میں رطوبت غلیظ کی صورت میں۔ اور انتڑیوں میں دست و اسہال کے ساتھ سفید لیس دار خارج ہو تو اس کو ڈاکٹر میوکس اور حکیم لوگ اور عوام چر بیلا مواد کہتے ہیں۔ اگر اس رطوبت غلیظ کو جلد بازی میں بند کر دیا جائے تو جسم میں اندر یا باہر لمفاوی گلٹیاں بنے لگتی ہے تو حکیم سادہ رسولی اور ڈاکٹر لائی پوما کہتے ہیں۔ کینسر ماء فی الصدر (سینہ میں پانی پڑ جانا) مافی الدماغ ( دماغ میں پانی پڑ جانا) ریڑھ کی ہڈی میں پانی پڑ جانا) یہ سب اندرونی سوزش اور رطوبت کی زیادتی کی مثالیں ہیں۔ 

یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ بذات خود امراض نہیں لیکن بعض امراض کی علامتیں ہیں ان علامات کا علاج اس مفرد اعضاء کی سوزش کو رفع کرتا ہے مگر فرنگی طب ان تمام علامات کو جدا جدا امراض سمجھتی ہے اور ان کا علیحدہ علیحدہ علاج تجویز کرتی ہے جب امراض کو ہی غلط سمجھا گیا تو ان کا علاج وہ خاک کرے گی۔ اور اگر ہماری یہ بات غلط ہو تو ہم چیلنج کرتے ہیں۔ 

رطوبات كي تشريح 

رطوبات وہ سیال مائع ہے جس میں مختلف حل پذیر مادے ملے ہوتے ہیں۔ جو انسانی جسم کے اعضاء پر ترشح پاتی ہے یا جسم سے خارج ہوتی ہے مثلاً ناک سے زکام منہ سے رال وغیرہ یہ سب خون سے جدا ہو کر ہی خارج ہوتی ہیں جب یہ اندرونی اعضاء پر شبنم کی طرح گرتی ہیں تو یہ رطوبت طلبہ اور رطوبت دمویہ کہلاتی ہیں ماڈرن میڈیکل سائنس میں اس کو پلازمہ خون کا آبی رفیق حصہ کہتے ہیں یہی رطوبت عروق شعریہ کی دیواروں سے تراش پا کر خون سے علیحدہ ہوتی ہے تو اس تراش شدہ آب خون کو لمف بھی کہتے ہیں۔ 

انگریزی طب کی غلط فہمی 

انگریزی طب اس پلازمہ کو جسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔ یعنی خون کا وہ آبی حصہ جو انسانوں کے اعضاء پر ترشح پاتا ہے اسے لمف کا نام دیتی ہے۔ یہ بالکل غلط ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پلازمہ دراصل خون کی ایک ایسی مائیت و پتلا پانی ہے جس میں خون کے تقریبا تمام اجزاء بمعہ سرخی انتہائی باریک ذرات اور گیسیں شامل ہوتی ہیں۔ یہ وہ مائیت ہوتی ہے جس میں انسانی جسم کے لیے حرارت اور غذائیت موجود ہوتی ہے یہ رطوبت جسم میں جہاں اس کا بدل ما تقلل بنتی ہے وہاں یہ شفائی عمل بھی پیدا کرتی ہے یعنی یہ جسم کی سوزش کو بھی رفع کرتی ہے اور اس طرح یہ بے شمار امراض کو ختم کر دیتی ہے۔ 

لیکن لمف اس رطوبت کو کہتے ہیں۔ 

جو تغذیہ و نسیم اور معدہ کی تحلیل کے بعد بچ جاتی ہے۔ 

لمف میں حرارت نام کو بھی نہیں ہوتی۔ 

کیمیاوی طور پر پلازمہ میں تیزابیت اور لمف میں کھاری پن غالب ہوتا ہے بلکہ انصاف تو یہ ہے کہ اسے لمف کی بجائے صرف ترشح کہنا ہی بہتر ہے اس کا نام لمف تو صرف اس لیے رکھا گیا ہے کہ جب یہ جسم کی ضرورت سے بچ جاتی ہے تو غدد جاذبہ اسے جذب کر کے پھر درستگی کے لیے خون میں ملا دیتے ہیں اس لیے اس کا نام لمف رکھا گیا۔ 

اب یہ واضح ہو گیا ہے پلازمہ جو رطوبت طلیہ ہے اور لمف جو ر طوبت جاذبہ ہے یہ دونوں مختلف رطوبات ہیں مگر انگریزی طب کو داد دینی پڑتی ہے جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتی ہے مگر حقیقت سے کتنی دور ترقی کر گئی ہے۔ 

رطوبت سے انگریزی طب کی ایک اور زیادتی 

انگریزی طب یہ دعوی کرتی ہے کہ ہر عضو کی سوزش میں صرف ایک ہی قسم کی رطوبت کا اخراج ہوتا ہے یہ بالکل غلط بات ہے 

مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر عضو کی سوزش میں جو ر طوبت اخراج پاتی ہے ان کی کیمیاوی نوعیت ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ اس کی مثال زکام ہے جو اعصابی سوزش سے رطوبت کا اخراج ہے اس رطوبت میں مائیت اور کھاری پن زیادہ ہو جاتا ہے۔ 

اسی طرح سوزشی نزلہ میں سوزش جگر یا سوزش غشائے مخاطی وغیرہ کا مشاہدہ کریں تو یہ سوزش جس غدد میں ہو تی ہے ہر اس جگہ کے غدد کا اپنا تغیر اس میں شامل ہو تا ہے البتہ اس رطوبت میں لمفی مادے اور بھی مادے نہیں  ہوتے بلکہ اس سیرم کی زیادتی ہوتی ہے۔ ایسے ہی جو سوزش کسی عضلہ میں ہوتی ہے اس کی رطوبت میں لحمی اجزاء اور تیزابی مادے زیادہ پائے جاتے ہیں جسے معدے کی سوزش اور شش (پھیپھڑے) میں دیکھا جاسکتا ہے۔ 

حاصل كلام 

ہر عضو کی سوزش میں علاج کے دوران مذکورہ بالا امور کو مد نظر ضرور رکھنا چاہیئے طب انگریزی یا جس طب کو ماڈرن طب ہونے پر ناز ہے اور ان کے پاس خورد بین یا اس سے نازک آلات تشخیص ہیں لیکن پھر بھی ان کی غلطیاں نا قابل فہم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس طریقہ علاج کی بنیاد ہی غلط ہے۔ تو پھر آپ ہی فیصلہ کر لیں کہ وہ علاج کتنا شافی ہو گا؟ 

قانون مفرد اعضاء میں ان چاروں علامات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ امراض و علامات اور علاج کی بنیاد ہیں۔ ان علامات کو اگر سارے جسم میں پھیلا کر دیکھیں تو یہ سارے جسم کو گھیرے میں نے لیتی ہیں اسی وجہ سے ان کو امراض کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کی عملی صورت یہ ہوگی۔ 

1) جلن جب شدت اختیار کرتی ہے تو خارش اور درد کی صورت پیدا کرتی ہے۔ 

2 گرمی جب بڑھتی ہے تو یہ بخار کی صورت پیدا کرتی ہے۔ 

(3 ایسے ہی جب سرخی بڑھتی ہے تو ورم کا روپ دھار لیتی ہے اور یہی نہیں بلکہ جلد میں بھی خرابی پیدا کرتی ہے ۔ (4 جب رطوبت کی زیادتی جسم کے اندر یا باہر کسی حصہ یا عضو میں ہو جائے تو یہ رطوبت کی زیادتی آہستہ آہستہ تمام بدن میں بلغمی مزاج کا اثر قائم کر دیتی ہے۔ مگر یہ یادر ہے کہ چاروں صورتیں کیمیاوی ہیں۔ ان کی پانچویں شکل مشینی ہے جو عضوی ہے اس کی حیثیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اس کو تغیر افعال کہتے ہیں۔ 

افعال تغيره 

کسی عضو میں سوزش کے بعد وہاں کے افعال میں جو تغیر پیدا ہوتا ہے اس کو تغیر افعال کہتے ہیں۔ اعضاء کے افعال میں تغیر کی تین شکلیں ہیں۔ 

اول: اعضاء کے افعال میں تیزی پیدا ہو جائے جس کا اظہار درد اور خون سے ہوتا ہے اسے تحریک کہیں گے۔ 

دوم: اعضاء کے افعال میں سستی پیدا ہو جائے تو تخدیر تک پہنچ جاتی ہے مگر کچھ نا سمجھ اطباء تخدیر کو طحال کے تحت بیان کر کے اپنی جہالیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ صورت تسکین یار طوبت کی زیادتی سے پیدا ہو جاتی ہے اسے تسکین کہتے ہیں۔ 

سوم: اعضاء کے افعال میں ضعف یاد بلا پن پیدا ہو جائے یہ صورت حرارت کی زیادتی یا تحلیل کی صورت میں پیدا ہوتی ہے۔ ان صورتوں کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔ 

(1 سبب بادیہ ۔ 

(2 سبب سابقہ ۔ 

(3 سبب واصلہ۔ 

کیمیاوی یا نفسیاتی کچھ اور کیوں نہ ہو لیکن تین صورتوں کے علاوہ چوتھی صورت کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ تغیر افعال مفرد دو طرح کے ہوتے ہیں۔ 

Related Articles

Leave a Comment

Contact Now

Get New Updates to Take Care Your Pet

Discover the art of creating a joyful and nurturing environment for your beloved pet.

Subscribe my Newsletter for new blog posts, tips & new photos. Let's stay updated!

Will be used in accordance with our  Privacy Policy

@2025 – All Right Reserved. Designed and Developed by Dilshad Bhai